Tafseer-e-Madani - Aal-i-Imraan : 134
الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ فِی السَّرَّآءِ وَ الضَّرَّآءِ وَ الْكٰظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَ الْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ١ؕ وَ اللّٰهُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَۚ
الَّذِيْنَ : جو لوگ يُنْفِقُوْنَ : خرچ کرتے ہیں فِي السَّرَّآءِ : خوشی میں وَالضَّرَّآءِ : اور تکلیف وَالْكٰظِمِيْنَ : اور پی جاتے ہیں الْغَيْظَ : غصہ وَالْعَافِيْنَ : اور معاف کردیتے ہیں عَنِ : سے النَّاسِ : جو لوگ وَاللّٰهُ : اور اللہ يُحِبُّ : دوست رکھتا ہے الْمُحْسِنِيْنَ : احسان کرنے والے
جو خرچ کرتے ہیں (اپنے مال اللہ کی رضا کیلئے) خوشی میں بھی، اور تنگی میں بھی، اور جو پی جاتے اپنے غصے کو، اور جو عفو (درگزر سے) کام لیتے ہیں لوگوں سے (ان کی خطاؤں اور تقصیرات پر) اور اللہ (پسند فرماتا اور) محبت رکھتا ہے ایسے نیکو کاروں سے
270 راہ خدا میں ہر حال میں خرچ کرنے کی ترغیب : سو ارشاد فرمایا گیا کہ وہ جنت ان خوش نصیبوں کے لیے ہوگی جو اپنے مال اللہ کی راہ میں اور اس کی رضا کے لیے خرچ کرتے ہیں خوشی میں بھی اور تنگی میں بھی۔ یعنی وہ ہر حال میں خرچ کرتے ہیں کہ ان کے نزدیک اصل مقصود رضائے خداوندی کا حصول اور جنت کی حقیقی اور ابدی نعمتوں سے سرفرازی وفائز المرامی ہی ہے ۔ وباللہ التوفیق ۔ سو اللہ کی راہ میں خرچ کرنا ہی اصل مطلوب ہے جتنا بھی ممکن ہوسکے۔ چناچہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا " اِتَّقُوا النَّارَ وَلَوْ بِشِقّ تَمْرَۃٍ " (المراغی وغیرہ) ۔ یعنی تم لوگ دوزخ کی آگ سے بچو اگرچہ کھجور کے ایک ٹکڑے ہی سے ممکن ہو اور سائل کو کچھ دیکر ہی لوٹایا کرو، خواہ وہ جلا ہوا کھر ہی کیوں نہ ہو اور حضرت عائشہ ؓ کے بارے میں مروی ہے کہ انہوں نے ایک مرتبہ انگور کے ایک دانے کا صدقہ کیا اور بعض اسلاف کے بارے میں مروی ہے کہ انہوں نے پیاز کے ایک گنڈے کا صدقہ کیا۔ (نفس المرجع) ۔ بہرحال جو اور جس قدر ممکن ہو سکے اپنے خالق ومالک کی رضا اور اپنی آخرت کے توشہ و تیاری کے لئے خرچ کرو ۔ وباللہ التوفیق وہو الہادی الی سواء السبیل - 27 1 عفو و درگزر سے کام لینے کی ترغیب : سو ان متقی اور پرہیزگار لوگوں کی خاص صفات کے ذکر وبیان کے سلسلے میں ارشاد فرمایا گیا کہ وہ اپنے غصے کو پی جاتے ہیں اور لوگوں سے عفو و درگزر کا معاملہ کرتے ہیں۔ یعنی وہ محض ذاتیات اور ذاتی مفادات کی بناء پر انتقام لینے والے نہیں ہوتے، بلکہ ان کی شان حلم و بردباری اور عفو و درگزر ہی سے کام لینے کی ہوتی ہے ۔ اللّٰھُم ارْزُقْنَا التّوْفِیْقَ لِذَالک و عَلَی مَا تُحِبُّ وَتَرْضٰی ۔ سو عفو و درگزر سے کام لینے کی صفت ایک بڑی عظیم الشان صفت ہے۔ اور حضرت ابی بن کعب ؓ سے مروی ہے کہ حضور ؓ نے ارشاد فرمایا کہ جس شخص کو اس بات کی خوشی ہو کہ اس کو بلند درجات سے نوازا جائے تو اس کو چاہیئے کہ وہ عفو و درگزر سے کام لے اس شخص سے جو اس پر زیادتی کرے۔ اور وہ عطاء کرے اس کو جو اس کو محروم کرے۔ اور وہ تعلق جوڑے اس سے جو اس سے قطع تعلق کرے۔ (المراغی وغیرہ) ۔ سبحان اللہ ! ! کیسی اعلیٰ تعلیم ہے اخلاق فاضلہ کی جس سے نبی امی نے اپنی امت کو نوازا ہے۔ اللہ ان کو اپنانے کی توفیق نصیب فرمائے ۔ آمین ثم آمین۔ بہرکیف ارشاد فرمایا گیا کہ جنت ایسے ہی خوش نصیبوں کے لئے تیار کی گئی ہے جو تقویٰ و پرہیزگاری کی زندگی گزارتے ہیں اور جو اپنی گنجائش کے مطابق خوشحالی اور تنگدستی کی ہر حالت میں اللہ کی راہ میں اور اس کی رضا و خوشنودی کے لئے خرچ کرتے ہیں۔ جو اپنے غیظ و غضب کو پی جاتے ہیں۔ لوگوں سے عفو و درگزر سے کام لیتے ہیں۔ اور وہ احسان و نیکو کاری سے کام لیتے ہیں ۔ اللہ توفیق بخشے ۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین -
Top