Madarik-ut-Tanzil - Al-Baqara : 5
اُولٰٓئِكَ عَلٰى هُدًى مِّنْ رَّبِّهِمْ١ۗ وَ اُولٰٓئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ
اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ عَلٰي : اوپر ھُدًى : ہدایت کے ہیں مِّنْ : سے رَّبِّهِمْ : اپنے رب کی طرف سے وَ : اور اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ ہیں ھُمُ : وہ الْمُفْلِحُوْنَ : جو فلاح پانے والے ہیں
یہی لوگ اپنے پروردگار (کی طرف) سے ہدایت پر ہیں اور یہی نجات پانے والے ہیں
وَمَآ اُنـْزِلَ مِنْ قَبْلِکَ : یعنی انبیاء ( علیہ السلام) پر اتاری جانے والی تمام کتابیں وَبِالْاٰخِرَۃِ نحو : یہ آخر کی مؤنث ہے جو کہ الاوّل کی ضد ہے۔ یہ صفت ہے اس کا موصوف محذوف ہے اور وہ لفظ دار ہے اس کی دلیل قصص آیت نمبر 83 تلک الدار الاٰخرۃ ہے اور یہ صفت غالبہ ہے۔ اسی طرح دنیا کا لفظ بھی (کہ اس کا موصوف محذوف ہے اور یہ صفت غالبہ ہے کیونکہ قریب تر ہے) قراءت : حضرت نافع (رح) فرماتے ہیں کہ ہمزہ کو حذف کر کے اس میں تخفیف کردی۔ اور اس کی حرکت لام کو دے دی۔ ھُمْ یُوْقِنُوْنَ : ایقان اصل میں شک وشبہ دور ہو کر کسی چیز کے متعلق پختہ علم ہوجانے کو کہتے ہیں۔ اُولٰٓپکَ عَلٰی ھُدًی۔ (یہی لوگ اپنے پروردگار کے سیدھے راستے پر ہیں) نحو : اگر اَلَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ کو مبتدا بنائیں تو جملہ محل رفع میں واقع ہے اور اگر اس کو مبتدا نہ بنائیں تو پھر اس کا کوئی محل اعراب نہیں۔ ( اسم اشارہ کو صفات کے بعد لانا گویا موصوف کا صفات سمیت اعادہ ہے) نمبر 2: یہ بھی جائز ہے کہ پہلا موصول متقین پر جاری ہو اور دوسرا موصول ابتدا کی وجہ سے مرفوع ہو۔ اور اولٰٓئک اس کی خبر ہو۔ تفسیر : ہدایت و فلاح کے ساتھ ان کو خاص کرنے کی وجہ اہل کتاب پر تعریض کرنا ہے۔ جن کو رسول اللہ ﷺ کی نبوت پر ایمان نہ تھا۔ مگر اس کے باوجود وہ ہدایت پر ہونے کے دعویدار تھے۔ اور یہ طمع رکھتے تھے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں فلاح پانے والے ہیں۔ علیٰ کی حکمت : عَلٰی ھُدًی : میں استعلاء کا مفہوم ایک تمثیل ہے جو ہدایت پر ان کے پورے قابو کو ظاہر کرنے اور اس پر پختگی سے قائم رہنے کو ظاہر کرتا ہے اور ہدایت کو اس طرح انہوں نے تھام رکھا ہے کہ کوئی آدمی کسی چیز پر غالب اور سوار ہو۔ اس کی مثال ھوعلی الحق وعلی الباطل ہے اور اہل عرب نے اپنے اس قول میں اس استعلاء کی وضاحت کردی ہے۔ جعل الغوایۃ مرکبا (اس نے گمراہی کو سواری بنایا) امتطی الجھل (اس نے جہالت کو سواری بنایا) اقتعد غارب الھٰوی (وہ خواہشات کی کوہان پر بیٹھا) ۔ ھُدًی مِّنْ رَّبِّھِمْ : (یعنی ان کو ہدایت ان کے رب کی طرف سے ملی ہے) ھدی کا لفظ نکرہ لائے۔ تاکہ اس سے یہ فائدہ حاصل ہو کہ ان کو ہدایت کی ایسی قسم حاصل ہے کہ جس کی حقیقت کو پہنچا نہیں جاسکتا۔ مقدر سوال کا جواب : گویا کلام اس طرح تھا۔ کہ وہ کونسی ہدایت پر ہیں۔ تو جواب دیا گیا۔ ھُدًی مِّنْ رَّبِّھِمْ کہ وہ اپنے رب کی ہدایت پر ہیں) اس کی مثال ہے لقد وقعت علی لحمٍ ۔ یعنی عظیم گوشت پر واقع ہوا۔ وَاُولٰٓپکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ : (یہی لوگ آخرت کے گھر میں من مانی مراد پائیں گے) اور جس سے وہ خوف زدہ ہیں اس سے وہ نجات پانے والے ہیں۔ فلاح کیا ہے ؟ فلاح : تمنا کو پالینا المفلح تمنا کو پانے میں کامیاب۔ گویا کہ وہ ایسا شخص ہے جس کے لیے کامیابی کے راستے کھل گئے ہیں۔ یہ مرکب خود شق اور فتح کے معنی پر دلالت کرتا ہے۔ اسی طرح وہ الفاظ جن کا فاء اور عین کلمہ اسی طرح ہو مثلًا۔ فلق، فلذ، فل (پھٹنا، ٹکڑا، کند) ان میں پھٹنے کا مفہوم موجود ہوتا ہے۔ سوال : یہاں عطف کے ساتھ لایا گیا مگر دوسری آیت نمبر 79 اسورئہ اعراف میں اُولٰٓپکَ کَالْاَنْعَامِ بَلْ ہُمْ اَضَلُّ 1 اُولٰٓپکَ ہُمُ الْغٰفِلُوْنَ ۔ میں بغیر عطف ذکر کیا۔ دونوں جملے مفہوم کے لحاظ سے مختلف ہیں۔ جواب : خبروں کا مختلف ہونا خود عطف کا مقتضی ہے اور اعراف والی آیت میں غفلت اور بہائم سے مشابہت ایک چیز ہے۔ پس دوسرا جملہ گویا پہلے کی تقریر و پختگی کے لیے لایا گیا ہے اور اگر عطف لایا جاتا تو یہ مقصد پورا نہ ہوسکتا۔ ھُمْ : یہ فصل کے لیے لائے۔ اس کا فائدہ یہ ہے تاکہ معلوم ہوجائے کہ اس کے بعد خبر ہے۔ صفت نہیں۔ نمبر 2: ہم تاکید ہے اور اس بات کو لازم کر رہی ہے کہ مسند کا فائدہ مسندالیہ کے لیے ثابت ہے کسی دوسرے کے لیے نہیں۔ نمبر 3: یہ مبتدا ہے اور المفلحون اس کی خبر ہے۔ نکتہ : غور کریں کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے متقین کا ان چیزوں کے ساتھ مخصوص ہونا باربار ظاہر کیا۔ جس کو مختلف راستوں والے نہیں پاسکتے۔ اس کی تفصیل اس طرح ہے کہ اسم اشارہ لائے۔ اور اسم اشارہ دو بار لایا گیا۔ اس میں متنبہ کردیا کہ جس طرح انہوں نے ہدایت کو ترجیح دی ہے۔ اسی طرح وہ ہدایت انکی فلاح کی ضامن ہے۔ المفلحون کو معرفہ لا کر یہ بتلایا کہ متقین وہی لوگ ہیں، جن کے متعلق تمہیں اطلاع ملی ہے کہ وہ آخرت میں کامیاب ہونگے۔ اس کی مثال اسی طرح ہے کہ تمہیں اطلاع ملے کہ تیرے شہر کے کسی انسان نے توبہ کی۔ تو تم سے کسی نے پوچھا وہ توبہ کرنے والا کون ہے ؟ تو اس کے جواب میں کہا گیا۔ کہ وہ زید تائب ہے یعنی وہ وہی ہے جس کی توبہ کی تم کو خبر دی گئی ہے۔ درمیان میں فاصلہ کیا تاکہ تم پر ان کے مراتب ظاہر کر دئیے جائیں۔ اور تمہیں اس چیز کی طلب کے لیے رغبت دلائی جائے جس چیز کی طرف انہوں نے رغبت کی۔ اور جس کی طرف انہوں نے قدم اٹھایا۔ تاکہ تو بھی پورے نشاط سے اس کی طرف قدم بڑھائے۔ اے اللہ لباس تقویٰ سے زینت عنایت فرما۔ اور ان لوگوں کے گروہ میں ہمارا حشر فرما جن کے تذکرہ سے تو نے سورة بقرہ شروع فرمائی۔ آمین
Top