Tafseer-e-Mazhari - Al-Baqara : 5
اُولٰٓئِكَ عَلٰى هُدًى مِّنْ رَّبِّهِمْ١ۗ وَ اُولٰٓئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ
اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ عَلٰي : اوپر ھُدًى : ہدایت کے ہیں مِّنْ : سے رَّبِّهِمْ : اپنے رب کی طرف سے وَ : اور اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ ہیں ھُمُ : وہ الْمُفْلِحُوْنَ : جو فلاح پانے والے ہیں
یہی لوگ اپنے پروردگار (کی طرف) سے ہدایت پر ہیں اور یہی نجات پانے والے ہیں
اُوْلٰٓءِکَ عَلٰی ھُدًی مِّنْ رَّبِّھِمْ (یہی لوگ اپنے پروردگار کے سیدھے رستہ پر ہیں) یہ جملہ محل رفع میں ہوگا اگر اَلَّذِیْن یُؤْمِنُوْنَ بالْغَیْبِ اور الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِمَا اُنْزِلَ میں سے ایک موصول کو المتَّقِیْن سے جدا اور منفصل قرار دیا جائے گویا یہ صفات مذکورہ پر مرتب ہونے والا نتیجہ ہوگا کیونکہ اسم اشارہ کا صفات کے بعد ذکر کرنا گویا موصوف کا اس کے صفات سمیت اعادہ کرنا اور مکرر مذکور کرنا ہے۔ (1) [ اولٰءِکَ اسم اشارہ ہے اس سے ان مؤمنوں کی طرف اشارہ ہے جن کی صفات کا ذکر اوپر کردیا گیا ہے گویا اختصار کلام کے پیش نظر موصوف اور صفات کے مجموعہ کو لفظ اولٰءِکَسے تعبیر کیا اور شیخ عبد القادر جرجانی نے صراحت کی ہے جس کو صاحب مطول نے بھی نقل کیا ہے کہ کسی حکم کا کسی وصف پر ترتب ظاہر کرتا ہے کہ وہ وصف حکم کی علت ہے جیسے اَحْسن اِلٰی زَیْدٍ صَدِیْقِکَ اپنے دوست زید کے ساتھ بھلائی کر۔ اس مثال میں زید کا دوست ہونا حسن سلوک کے حکم کی علت ہے۔ پس آیت کا منشا بھی یہی ہے کہ ایمان بالغیب ‘ ایمان بالانبیاء والکتب ‘ ایمان بالآخرۃ ‘ اقامت صلوٰۃ اور اداء زکوٰۃ، ہدایت یافتہ ہونے کے اسباب موجب ہیں۔ ان اوصاف کا تقاضا ہے کہ ان کے دل ہدایت یافتہ ہوں۔] اور اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ صفات مذکورہ اس حکم کی واجب کرنے والی ہے اور کلمہ علیٰ میں اس بات کا پتہ دیا گیا ہے کہ متقی لوگ ہدایت خداوندی پر متمکن اور مستقر ہیں اور لفظ ھدی صرف تعظیم کے ثبوت کے لیے نکرہ کی صورت میں لایا گیا ہے اور چونکہ ہدایت کی توفیق صرف خدا ہی کی طرف سے ہے اس لیے مِنْ رَبِّھِمْ کہہ کر تعظیم کی تاکید کردی گئی۔ وَ اُوْلٰٓءِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ ( اور یہی لوگ آخرت کے گھر میں من مانی مرادیں پائیں گے) یعنی تمام مقصودوں پر فتحیاب ہونگے اور ہر قسم کی کامیابیاں انہیں حاصل ہوں گی۔ مُفْلِحُوْن فَلَحٌ مصدر سے بنایا گیا ہے اور فَلَحٌ۔ فَلْقٌ۔ فَلْذٌ۔ فَلْیٌ سب مرادف لفظ ہیں اور سب مفہوم شق یعنی جانب اور قطع کے مفہوم پر دلالت کرتے ہیں گویا مُفْلحْ یعنی کامیاب ہونے والا شخص اپنے غیر سے علیحدہ اور یکسو ہوجاتا ہے اور ان دونوں میں فرق بعید اور دور دراز کی مسافت واقع ہوجاتی ہے ( مطلب یہ ہے کہ) پرہیزگاروں کے لیے (جن کا ذکر اوپر ہوا) دنیا و آخرت دونوں میں ہر طرح کی خیر و خوبی اور فلاح و فوز موجود ہے اور وہ قطعی و یقینی طور پر کامیاب ہونے والے ہیں۔ اسم اشارہ مکرر اور دوبارہ اس تنبیہ کے لیے لایا گیا ہے کہ پرہیزگاروں کا صفات مذکورہ کے ساتھ متصف ہونا اس بات کو مقتضی ہے کہ ہدایت اور فلاح دونوں میں سے ہر ایک ان کے لیے ثابت ہے اور چونکہ دونوں جملے یعنی اُوْلٰءِکَ عَلٰی ھُدیً الخ اور اُوْلٰٓءِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ بلحاظ مفہوم مختلف تھے اس لیے بیچ میں حرف عطف (یعنی و) لایا گیا بخلاف اُوْلٰٓءِکَ کَالْاَنْعَامِ بَلْ ھُمْ اَضَلُّ اُوْلٰءِٓکَ ھُمُ الْغَافِلُوْنَ کے کہ یہاں دونوں جملوں میں اختلاف نہ تھا اس لیے حرف عطف بیچ میں نہیں لایا گیا۔ و اُوْلٰءِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُونَ ) میں ھُم ضمیر فصل ہے یعنی خبر کو صفت سے جدا اور ممتاز کرنے کے لیے لائی گئی ہے۔ اور اس کا فائدہ تاکید نسبت اور اختصاص ہے یا یوں کہئے کہ ( ضمیر ھُم) فصل کے لیے نہیں ہے بلکہ مبتدا واقع ہوئی ہے اور اَلْمُفْلِحُوْنَ اس کی خبر اور دونوں جملہ ہو کر اُوْلٰءِکَ کی خبر ہے۔ فرقہ معتزلہ نے اسے ضمیر حصر قرار دے کر استدلال کیا ہے کہ یہ جملہ مرتکب کبیرہ کے ہمیشہ ہمیشہ دوزخ میں رہنے پر دلالت کرتا ہے لیکن ( حقیقت میں ان کا یہ تمسک و استدلال نہایت ضعیف و کم زور اور نہ صرف کمزور بلکہ) مردود ہے (اور اس کی وجہ یہ ہے کہ) المفلحونَ سے مراد وہ لوگ ہیں جو فلاح و خیر میں کامل اور مکمل ہیں۔ ہاں اس سے یہ بات لازم آتی ہے کہ جو لوگ ان جیسے نہ ہوں ان کو کمال درجہ کی خیر و فلاح نصیب نہیں ہوسکتی۔ نہ یہ کہ مطلقاً فلاح میسر ہو ہی نہیں سکتی پھر جب خدا تعالیٰ ذکر قرآن کے ضمن میں یا مستقلاً ( اگر موصول یعنی اَلَّذِیْن کو اَلْمُتَّقِیْنَ سے جدا اور منفصل قرار دیا جائے) اپنے بر گزیدہ اور خاص بندوں کا اور دوستوں کا ذکر فرما چکاتو ان کے پیچھے اب ان سرکش اور متمرد لوگوں کا ذکر کرتا ہے جو پہلی قسم کے لوگوں کے بالکل مخالف اور ضد ہیں اور اختلاف سیاق کی وجہ سے کچھ ضرورت نہ تھی کہ حرف عطف لایا جاتا چناچہ ارشاد ہوا۔
Top