Al-Qurtubi - Al-Baqara : 5
اُولٰٓئِكَ عَلٰى هُدًى مِّنْ رَّبِّهِمْ١ۗ وَ اُولٰٓئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ
اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ عَلٰي : اوپر ھُدًى : ہدایت کے ہیں مِّنْ : سے رَّبِّهِمْ : اپنے رب کی طرف سے وَ : اور اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ ہیں ھُمُ : وہ الْمُفْلِحُوْنَ : جو فلاح پانے والے ہیں
یہی لوگ اپنے پروردگار (کی طرف) سے ہدایت پر ہیں اور یہی نجات پانے والے ہیں
آیت نمبر 5 نحاس نے کہا : اہل نجد کہتے ہیں : ألاک، بعض کہتے ہیں : ألالک، ک خطاب کے لئے ہے۔ کسائی نے کہا : جس نے اولئک کہا اس کا واحد ذالک ہے اور جس نے الان کہا اس کا واحد ذاک ہے اور الالک، اولئک کی مثل ہے۔ ابن سکیت نے شعر کہا ہے : الالک قومی لم یکونوا اشابۃ وھل یعظ الضلیل الا الالکا اس شعر میں الالک کا معنی اولئک ہے۔ بعض کہتے ہیں : اولئک غیر عقلاء کے لئے ہے۔ شاعر نے کہا : ذم المنازل بعد منزلۃ اللوی والعیش بعد اولئک الایام اس میں الئک غیر عقلاء کے لئے استعمال ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد ہے : ان السمع والبصر والفواد کل اولئک کان عنہ مسؤلا۔ (الاسراء) ہمارے علماء نے فرمایا : من ربھم کے کلمات میں قدریہ کا رد ہے جو کہتے ہیں کہ وہ ایمان اور ہدایت خود گھڑتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے قول سے پاک ہے۔ اگر بات اس طرح ہوتی جس طرح قدریہ نے کہا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا : من انفسھم اس پر اور ھدیٰ پر کلام گزر چکی ہے اس کے اعادہ کا کوئی فائدہ نہیں۔ واولئک ھم المفلحون، ھم میں یہ بھی جائز ہے کہ یہ دوسرا مبتدا ہو اور اس کی خبر المفلحون ہو۔ پھر یہ مبتدا خبر اولئک مبتدا کی خبر ہوں، اور یہ بھی جائز ہے کہ ھم زائدہ ہو۔ بصری علماء اسے فاصلہ کہتے ہیں اور کوئی علماء اسے عماد کہتے ہیں اور المفلحون، اولئک کی خبر ہو۔ الفلح کا لغوی معنی الشق اور القطع (پھٹنا اور کاٹنا) ہے۔ شاعر نے کہا ان الحدید بالحدید یفلح لوہے کے ساتھ لوہا کاٹا جاتا ہے۔ اسی سے فلاحۃ الارضین ہے جو زمین کو کھیتی کے لئے پھاڑنا ہے۔ یہ مفہوم ابو عبید نے بیان کیا ہے اسی وجہ سے کسان کو فلاح کہا جاتا ہے، جس کا نچلا ہونٹ کاٹا گیا ہو اسے افلح کہا جاتا ہے۔ جس کا شق ظاہر ہو۔ گویا مفلح مصائب ومشکلات کو کاٹتا جاتا ہے حتیٰ کہ اپنا مطلوب حاصل کرلیتا ہے، کبھی یہ غورو بقا میں استعمال ہوتا ہے، یہ لغت میں اس کی اصل ہے۔ اس سے مرد کو اپنی بیوی کو یہ کہنا ہے۔ استفلحی بامرک اس کا معنی ہے : اپنے امر میں کامیاب ہوجا۔ شاعر نے کہا : لو کان حی مدرک الفلاح ادر کہ ملاعب الرماح اس میں فلاح کامیابی کے لئے استعمال ہوا ہے۔ اضبط قریع سعدی نے زمانہ جاہلیت میں کہا تھا : لکل ھم من الھموم سعہ والمسئ والصبح لا فلاح معہ شاعر نے یہاں بھی فلاح کو کامیابی و کامرانی کے معنی میں استعمال کیا ہے۔ کسی نے کہا : لیس مع کر اللیل والنھار بقاء رات اور دن کی گردش کے ساتھ بقا نہیں۔ ایک اور نے کہا : نحل بلاداً کلھا حل قبلنا وترجو الفلاح بعد عاد و حمیر ہم ان تمام شہروں میں اترے جس طرح ہمارے بزرگ اترے اور ہم عاد اور حمیر کے بعد فلاح کی امید کرتے ہیں۔ عبید نے کہا : افلح بما شئت فقد یدرک بالض عف وقد یخدع الاریب جس کے ساتھ چاہے کامیاب ہوجا، ضعف وکمزوری ضرور آئے گی، کبھی ذہین وفطین بھی دھوکا کھا جاتا ہے۔ اولئک ھم المفلحون۔ کا معنی ہے جنت کی کامیابی حاصل کرنے والے اور اس میں باقی رہنے والے۔ ابن ابی اسحاق نے کہا : المفلحون سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے وہ سب کچھ پا لیا جو انہوں نے طلب کیا اور اس شر سے بچ گئے جس سے وہ بھاگے تھے، یہ ایک معنی ہے۔ کبھی الفلاح، السحور کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ اسی مفہوم میں یہ حدیث ہے “ حتی کا د یفوتنا الفلاح مع رسول اللہ ﷺ قلت وما الفلاح قال السحور ”(1) حتیٰ کہ قریب تھا کہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ہمارا فلاح فوت ہوجاتا۔ میں نے پوچھا : الفلاح کیا ہے ؟ فرمایا : سحری کا کھانا۔ تو حدیث کا معنی یہ ہے کہ سحری کھانے کے ساتھ روزے کی بقا ہے، اسی وجہ سے سحری کے کھانے کو فلاح کہا جاتا ہے الفلاح، کرایہ پر جانور دینے والے کو کہتے ہیں۔ لھا رطل تکیل الزیت فیہ و فلاح یسوق لھا جمارا پھر الفلاح عرف میں، مطلوب کی کامیابی اور خوفناک چیز سے نجات کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ مسئلہ : اگر کوئی کہنے والا کہے کہ حمزہ نے یہ کیسے پڑھا۔ علیھم والیھم الدیھم جبکہ، من ربھم اور فیھم اور جنتیھم نہیں پڑھا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ علیھم الیھم ولدیھم میں یا الف سے بدلی ہوئی ہے۔ اصل میں علاھم، لداھم اور الاھم تھے۔ پس ھا اپنے ضمہ پر قائم ہے اور فیھم، من ربھم اور جنتیھم میں ایسا نہیں ہے۔ کسائی نے علیھم الذلہ اور الیھم اثنین میں حمزہ کی موافقت کی ہے۔ ان کے متعلق قراء سے یہی معروف ہے۔
Top