Madarik-ut-Tanzil - Al-Baqara : 6
اِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا سَوَآءٌ عَلَیْهِمْ ءَاَنْذَرْتَهُمْ اَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَ
إِنَّ : بیشک الَّذِينَ : جن لوگوں نے کَفَرُوا : کفر کیا سَوَاءٌ : برابر عَلَيْهِمْ : ان پر أَ أَنْذَرْتَهُمْ : خواہ آپ انہیں ڈرائیں أَمْ لَمْ : یا نہ تُنْذِرْهُمْ : ڈرائیں انہیں لَا يُؤْمِنُونَ : ایمان نہ لائیں گے
جو لوگ کافر ہیں انہیں تم نصیحت کرو یا نہ کرو ان کے لئے برابر ہے، وہ ایمان نہیں لانے کے
ربط : جب اللہ تعالیٰ نے اپنے پسندیدہ بندوں کا اپنے قرب والی صفات کے ساتھ تذکرہ فرمایا اور واضح کردیا کہ کتاب مقدس ان کے لیے ہادی ہے تو اس کے پیچھے ان کے ضد و مخالف لوگوں کو ذکر کیا۔ اور وہ انتہائی سرکش و نافرمان لوگ جن کے متعلق ہدایت فائدہ مند نہیں۔ فرمایا : اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا کفر سخت انکار سے حق کو چھپانا۔ کفر کے حروف کی ترکیب چھپانے پر دلالت کرتی ہے اسی لیے کسان پر کافر کا لفظ بولا جاتا ہے۔ اسی طرح رات پر۔ عدم عطف کی وجہ : سوال : یہاں حرف عطف نہیں لائے جیسا کہ سورة انفطار آیت 13، 14 (اِنَّ الْاَبْرَارَ لَفِیْ نَعِیْمٍ وَاِنَّ الْفُجَّارَ لَفِیْ جَحِیْمٍ ) میں عطف کے ساتھ ذکر کیا۔ جواب : ان دونوں آیات میں پہلا جملہ اعمال نامے کے تذکرہ کی وضاحت کے لیے لایا گیا۔ المؤ منین کی خبر نہیں ہے۔ اور دوسرا جملہ کفار کے اعمال نامے کی وضاحت کے لیے آیا ہے پس دونوں جملوں کی مراد میں تفاوت پایا جاتا ہے اور یہ ایسی حد بندی ہے کہ اس میں عطف کی کوئی مجال نہیں۔ نمبر 2: مقدر مان کر اس کو مبتداء بنائیں تو پھر مراد کفار سے وہ معینہ لوگ ہونگے۔ جن کا ایمان نہ لانا اللہ کے علم میں ہے۔ مثلًا ابو جہل، ابو لہب وغیرہ۔ سَوَآئٌ عَلَیْھِمْئَ اَنْذَرْتَھُمْ اَمْ لَمْ تُنْذِرْھُمْ ۔ کوفی قراء کے ہاں دوہمزہ کے ساتھ ہے سواء بمعنی استواء ہے اس سے صفت اسی طرح لائی جاتی ہے۔ جس طرح مصادر سے لائی جاتی ہے جیسا اللہ تعالیٰ کے ارشاد سورة آل عمران آیت نمبر 64 میں ہے۔” الی کلمۃٍ سوائٍ “ ای مستویۃ (برابر) یہ خبر ہونے کی بنا پر مرفوع ہے کیونکہ۔ ” أأنذرتھم “ اس کا فاعل ہونے کی وجہ سے مرفوع ہے گویا اس طرح کہا گیا۔ ان الذین کفروا مستو علیھم انذارک وعدمہ۔ بیشک کافروں پر آپ کا ڈرانا اور نہ ڈرانا برابر ہے۔ نمبر 2 : نحو : سواء خبر مقدم ہے اور أأ نذر تھم ام لم تنذرھم۔ محل ابتدا میں ہے۔ یعنی سواء علیھم انذارک وعدمہ اور یہ تمام اِنَّ کی خبر ہے قاعدہ : فعل کو مبتدا بنانا درست ہے باوجود اس بات کے کہ فعل ہمیشہ خبر بنتا ہے۔ کیونکہ یہ اس کلام کی جنس میں سے ہے۔ جس میں معنی کا لحاظ کرتے ہوئے لفظ کا لحاظ چھوڑا گیا ہے۔ (یعنی مصدر کے معنی کو متضمن ہونے کی وجہ سے مبتدا بن گیا، مجازًا) ہمزہ اور اَمْ دونوں معنی استواء کو خالص کر رہے ہیں، اور استفہام کے معنی سے بالکل خالی ہیں۔ سبیویہ (رح) کا قول : اس حرف استفہام کو اسی طرح لایا گیا ہے (یعنی تاکید وتقریر کے لیے) جیسا کہ اس قول میں حرف نداء لایا گیا۔ اللّٰھم اغفرلنا ایتھا العصابۃ۔ یعنی یہ صورت میں استفہام ہے مگر حقیقت میں استفہام نہیں۔ جیسا کہ صورت میں تو نداء ہے مگر واقعہ میں نداء نہیں۔ الانذار : گناہوں پر ڈانٹ ڈپٹ کے ذریعہ اللہ کے عذاب سے ڈرانا۔ لَایُؤْمِنُوْنَ : نحو : نمبر 1 : یہ جملہ ما قبل جملے کی تاکید ہے۔ نمبر 2: ان کی خبر ہے۔ اور اس سے قبل جملہ معترضہ ہے یا دوسری خبر ہے۔ حکمت اور انذار : کفار کے اصرار کا علم ہونے کے باوجود انذار میں حکمت یہ ہے کہ ان پر حجت قائم ہوجائے اور رسالت کا پیغام عام ہو اور رسول اللہ ﷺ کو ثواب ملے۔ تفسیر ختم : خَتَمَ اللّٰہُ عَلٰی قُلُوْبِھِمْ : (ان کے دلوں پر اللہ نے مہر لگا دی ہے) زجاج (رح) نے فرمایا۔ الختم۔ ڈھانپنے کو کہتے ہیں کیونکہ کسی چیز پر پختگی طلب کرنے کے لیے مہر لگا کر اس چیز کو ڈھانپا جاتا ہے۔ تاکہ اس کی کسی کو اطلاع نہ ہو۔ حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے دلوں پر مہر لگا کر ان کو اس طرح کا بنادیا کہ ان میں جو کفر گھسا ہوا ہے۔ وہ نکل نہیں سکتا۔ اور جو ایمان ان میں نہیں ہے وہ ان میں داخل نہیں ہوسکتا۔ ختم وطبع کا نتیجہ : مہر کا مقصد اہل حق کے نزدیک دل میں ظلمت اور تنگی کا پیدا کرنا ہے جب تک وہ ظلمت اس کے دل میں رہتی ہے۔ وہ ایمان نہیں لاتا۔ معتزلہ کا مذہب : دِلوں کے متعلق فرشتوں کو اطلاع دینا ہے کہ جس سے یہ ظاہر ہوجائے کہ وہ کفار ہیں، تاکہ وہ ان کے لیے خیر کی دعانہ کریں، بلکہ ان پر لعنت بھیجیں۔ بعض نے کہا۔ کہ خَتَمَ کی اسناد اللہ تعالیٰ کی طرف مجازی ہے۔ اور خاتم حقیقت میں کافر ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ نے جب اس کو قدرت اور اختیار دیا۔ تو اس کی طرف خَتَمَکا اسناد جس طرح فعل کی نسبت کی طرف کرتے ہوئے کہتے ہیں۔ ” بنی الامیرا لمدینۃ “ امیر نے شہر بنایا۔ کیونکہ فعل کی کئی ملابسات ہیں۔ نمبر 1: فاعل سے ملابست، مفعول بہٖ سے، مصدر، مکان، زمان اور مسبب لہ سے ملابست بس فعل کی نسبت فاعل کی طرف تو حقیقی ہے اور دوسروں کی طرف مجازی ہے۔ کیونکہ فعل کے ساتھ فاعل کی ملا بست میں مشابہت رکھتے ہیں، جیسا کہ آدمی شیر کے ساتھ جرأت میں مشابہت رکھتا ہے پس بطور استعارہ اس کو شیر کہہ دیتے ہیں یہ مسئلہ خلق افعال کی فرع ہے۔ سمع کی مراد : وَعَلٰی سَمْعِھِمْ : (اور ان کے کانوں پر) نحو : سمع کو واحد لایا گیا۔ جس طرح عرب کے ہاں اس قول میں بطن واحد ہے۔ کلوا فی بعض بطنکم تعفوا : کیونکہ التباس کا خطرہ نہیں۔ سمع کا لفظ اصل کے لحاظ سے مصدر ہے کہا جاتا ہے کہ سمعت الشیء سمعا وسماعًا۔ مصدر کی جمع نہیں آتی۔ کیونکہ وہ اسم جنس ہوتا ہے۔ تو قلیل و کثیر سب کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اس میں تثنیہ جمع کی محتاجی نہیں پس اصل کی جھلک رہتی ہے۔ نمبر 2: یہ بھی کہا گیا کہ اس کا مضاف محذوف ہے۔ یعنی ان کے سننے کے مقامات پر۔ قراءت : ایک قراءت وَعَلٰٰٓی اَسْمَاعِہِمْ ہے۔ وَعَلٰٓی اَبْصَارِھِمْ غِشَاوَۃٌ : (اور ان کی آنکھوں پر پردہ پڑا ہے) نحو : رفع کے ساتھ خبر اور مبتدا ہے۔ البصر : آنکھ کی روشنی۔ وہ چیز جس سے دیکھنے والا دیکھتا ہے جس طرح کہ بصیرت نور قلب کو کہتے ہیں اور وہ چیز ہے جس سے غور وفکر کی جاتی ہے۔ الغشاوہ۔ ڈھکنا، یہ غشاہ یعنی اس کو غشی کے لفظ کی ترتیب کسی چیز پر مشتمل ہونے کیلئے آتی ہے جیسے العصابۃ (پٹی) العمامہ (پگڑی) القلادہ (ہار) اسماع بھی مہر کے معنی میں داخل ہے۔ تغشیہ (ڈھانپنے کے حکم میں داخل نہیں ہے اسکی دلیل سورة جاثیہ آیت نمبر 23۔ وَخَتَمَ عَلٰی سَمْعِہٖ وَقَلْبِہٖ وَجَعَلَ عَلٰی بَصَرِہٖ غِشَاوَۃً ہے۔ کہ سمع پر ختم کا لفظ لایا گیا ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ سمعھم پر وقف ہے قلو بھم پر نہیں۔ جعل کو مضمر مان کر صرف غشاوہ اکیلے ہی کو نصب دیا ہے۔ علٰی سمعھم میں جار کو دوبارہ لائے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ دونوں جگہوں پر مضبوط مہر ہے۔ شیخ ابو منصور (رح) کا قول : شیخ ابو منصور (رح) نے کہا، جب کافر نے حق کی بات نہیں سنی۔ اور اپنی طرف اور دیگر مخلوق کی طرف بھی نگاہ نہیں ڈالی کہ اس مخلوق کے حادث ہونے کے آثار کو دیکھ کر وہ معلوم کرلیتا۔ کہ اس کا کوئی بنانے والا ہے پس اللہ تعالیٰ نے اس کو اس طرح قرار دیا۔ گویا اس کی آنکھوں اور کانوں پر پردہ پڑا ہے۔ اگرچہ حقیقت میں ایسا نہ ہو۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اسماع ان کے ہاں تغشیہ کے حکم میں داخل ہے۔ آیت ہمارے حق میں اور معتزلہ کے خلاف حجت ہے کہ اللہ تعالیٰ اصلح کو بندوں کے لیے اختیار فرمانے والے ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ نے خبر دی کہ میں نے انکے دلوں پر مہر لگا دی۔ اور اس میں شک نہیں کہ مہر کا چھوڑ نا ان کے لیے زیادہ اصلح ہو۔
Top