Jawahir-ul-Quran - Al-Baqara : 5
اُولٰٓئِكَ عَلٰى هُدًى مِّنْ رَّبِّهِمْ١ۗ وَ اُولٰٓئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ
اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ عَلٰي : اوپر ھُدًى : ہدایت کے ہیں مِّنْ : سے رَّبِّهِمْ : اپنے رب کی طرف سے وَ : اور اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ ہیں ھُمُ : وہ الْمُفْلِحُوْنَ : جو فلاح پانے والے ہیں
وہی لوگ ہیں ہدایت پر اپنے پروردگار کی طرف سے اور وہی ہیں مراد کو پہنچنے والے9
9 ۔ دونوں جگہوں میں اُولٰۗىِٕكَ کا اشارہ مذکورہ بالا صفات کے حاملیں کی طرف ہے۔ ای المتصفون بما تقدم من الایمان بالغیب واقام الصلوۃ والانفاق من الذی رزقہم الخ (تفسیر ابن کثیر ص 44 ج 1) ای الذین ھذہ صفتہم (تفسیر خازن ص 26 ج 1) ای اھل ھذہ الصفۃ (معالم ص 26 ج 1) یعنی جو لوگ مذکورہ صفات سے متصف ہیں دنیا میں وہ سیدھی راہ پر ہیں اور آخرت میں بھی انہیں خاطر خواہ کامیابی ہوگی۔ فان الہدی فی الدنیا والفلاح فی الاخرۃ (روح المعانی ص 125 ج 1) اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ مفلحون کا تعلق دنیا اور آخرت دونوں سے ہو (تفسیر ابن کثیر ص 44 ج 1) یعنی سیدھی راہ پر چلنے اور کتاب ہدایت پر عمل کرنے کی وجہ سے وہ دنیا میں بھی کامیاب ہوں گے اور آخرت میں بھی وَاُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْن َمیں ھُمُ ضمیر فصل ہے جو حصر اور تخصیص کے معنی پیدا کرتی ہے۔ (تفسیر بیضاوی ص 8 تفسیر مظہری ص 22 ج 1) معتزلہ نے اس آیت سے استدلال کیا ہے کہ مرتکب کبیرہ مخلد فی النار ہے اور اس کے لیے نجات نہیں کیونکہ اس آیت نے فلاح کو مذکورہ صفات والے مومنوں میں محصور کردیا ہے۔ تو اس سے معلوم ہوا کہ جن میں یہ صفات نہ ہوں وہ فلاح سے محروم رہیں گے، تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہاں حصر مطلق فلاح کے اعتبار سے نہیں ہے بلکہ فلاح کامل کے اعتبار سے ہے۔ یعنی فلاح کامل تو صرف انہی لوگوں کے لیے مخصوص ہے جو مذکورہ صفات سے متصف ہوں گے۔ البتہ مطلق فلاح ان کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ جن لوگوں میں بعض عملی خامیاں ہونگی نجات و فلاح تو آخر ان کو بھی حاصل ہوجائے گی۔ وَاُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ ۔ یدل علی انہم الکاملون فی الفلاح فیلزم ان یکون صاحب الکبیرۃ غیر کامل فی الفلاح (تفسیر کبیر ص 257: ج۔۔۔ ) المراد المفلحون الکاملون فی الفلاح ویلزم منہ عدم کمال فلاح من لیس منھم لا عدم الفلاح مطلقاً (تفسیر مظہری ص 22 ج 1 تفسیر بیضاوی ص 8) یہاں تک تو ان لوگوں کا ذکر تھا جنہوں نے کتاب ہدایت کو دل وجان سے مانا اور اسے اپنی زندگی کا دستور العمل بنایا۔ اب آگے دوسری جماعت کا ذکر ہے۔ دوسری جماعت (کفار) یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے دعوت حق کو ظاہراً و باطناً ٹھکرا دیا، نہ دل سے مانا نہ زبان سے، بلکہ اپنی پوری طاقت سے اس کی مخالفت کی۔
Top