Ruh-ul-Quran - Al-Baqara : 5
اُولٰٓئِكَ عَلٰى هُدًى مِّنْ رَّبِّهِمْ١ۗ وَ اُولٰٓئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ
اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ عَلٰي : اوپر ھُدًى : ہدایت کے ہیں مِّنْ : سے رَّبِّهِمْ : اپنے رب کی طرف سے وَ : اور اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ ہیں ھُمُ : وہ الْمُفْلِحُوْنَ : جو فلاح پانے والے ہیں
یہی لوگ ہیں، جو اپنے رب کی طرف سے ہدایت پر ہیں اور یہی لوگ ہیں، جو کامیاب ہیں۔
اُولٰٓئِکَ عَلٰی ھُدًی مِّنْ رَّبِّھِمْ ق وَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ (البقرۃ : 5) (یہی لوگ ہیں، جو اپنے رب کی طرف سے ہدایت پر ہیں اور یہی لوگ ہیں، جو کامیاب ہیں) ہدایت کا تکمیلی مفہوم جن لوگوں نے پورے احساس اور شعور کے ساتھ قرآن پاک سے استفادہ کیا اور جس کے نتیجے میں ان کے اندر متذکرہ بالا صفات پیدا ہوگئیں یہی وہ لوگ ہیں، جو اپنے رب کی طرف سے ہدایت پر ہیں۔ یہاں ہدایت اپنے تکمیلی مفہوم میں ہے۔ یعنی یہی وہ لوگ ہیں، جن کے لیے قرآن پاک کے دیئے ہوئے نظام زندگی پر چلنا آسان ہوجاتا ہے۔ جنھیں قلبی نور اور بصیرت عطا ہوتی ہے، نہ ان کی فکر میں کوئی کجی ہوتی ہے اور نہ ان کے عمل میں کوئی کو تاہی۔ اللہ کے ہر حکم اور قرآن کریم کی ہر آیت سے ان کے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے۔ قرآن کی ہر بات انھیں اپنے دل کی آواز محسوس ہوتی ہے وہ اسلامی زندگی کے تقاضوں کی طرف لپکتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں اللہ ان کو دنیا میں بھی فلاح کی دولت سے نوازتا ہے اور آخرت میں بھی فلاح ان کا نصیب ہوگی۔ اہل لغت کہتے ہیں کہ فلاح کا لفظ دنیا اور آخرت کی ہر طرح کی بھلائیوں کو محیط ہے۔ دنیا میں جب کسی شخص یا کسی معاشرے کے افراد کو یہ فلاح کی دولت ملتی ہے، تو وہ ہر طرح سے آسودہ ہوجاتے ہیں اور قیامت کے دن اللہ کے فضل و عنایت سے وہ اس طرح نہال ہوں گے کہ ان کے تصور کے پیمانے ان نعمتوں اور خوشیوں کو ناپنے سے قاصر رہ جائیں گے۔
Top