Urwatul-Wusqaa - Al-Baqara : 5
اُولٰٓئِكَ عَلٰى هُدًى مِّنْ رَّبِّهِمْ١ۗ وَ اُولٰٓئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ
اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ عَلٰي : اوپر ھُدًى : ہدایت کے ہیں مِّنْ : سے رَّبِّهِمْ : اپنے رب کی طرف سے وَ : اور اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ ہیں ھُمُ : وہ الْمُفْلِحُوْنَ : جو فلاح پانے والے ہیں
(یقینا) یہی لوگ ہیں جو اپنے پروردگار کے راستہ پر ہیں اور یہی ہیں کامیابی پانے والے
یہی گروہ کامیاب گروہ ہے : 11: ان سارے اوصاف کا جن کا ذکر متقیوں کے ضمن میں کیا گیا ہے ماحصل یہ ہوا کہ وہ لوگ ہیں جن کا ضمیر زندہ ہے اور ان کے دل خوف الٰہی سے سرشار ہوتے ہیں۔ ان کا اعتقاد اس مادی دنیا سے بہت پرے یعنی عالم غیب ہوتا ہے جس کی اصل اور بنیاد حقیقی اللہ کی ذات ہے ان کے تعلق مع اللہ کا عملاً اظہار اس طرح ہوتا ہے کہ یہ لوگ نمازوں کو ادا کرتے ہیں جس طرح کہ ان کے ادا کرنے کا حق ہے۔ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں کو یہ اللہ کی رضا کے لئے اللہ ہی کی مخلوق پر صرف کرتے رہتے ہیں۔ یہ لوگ رسول اللہ ﷺ کے برحق ہونے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے آخری معلم و ہادی ہونے اور قرآن کریم کے آخری کلام الٰہی ہونے پر یقین رکھتے ہیں پھر اس کے ساتھ ہی پورے سلسلہ وحی اور نظام نبوت کی تصدیق کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے سلسلہ وحی کے ختم المرسلین ﷺ پر ختم ہونے پر ایمان لاتے ہیں۔ ان کا کامل ایمان یوم آخرت یعنی روز جزا پر ہے اور اپنے ہر معاملہ میں اس کو یاد رکھتے ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ ایسے لوگ ہی اپنے رب کی طرف سے راہ راست پر ہیں اور یہ بات بھی واضح ہے کہ جو راہ راست پر ہیں وہی فلاح و کامیابی حاصل کرنے والے ہوں گے۔ اے اللہ ! اے ہمارے رب ! ہم کو بھی ان لوگوں میں شمار فرما۔ یہی وہ گروہ ہے جو کامیاب و کامران ہوا اور جس کا ذکر قرآن کریم میں مختلف پیرائیوں سے کیا گیا ہے قارئین کی سہولت کے لئے دو آیات کا ذکر کیا جاتا ہے تاکہ اس نیک گروہ میں شامل ہونے کا شوق پیدا ہو۔ ارشاد الٰہی ہے : ا لٓمّٓۚ001 تِلْكَ اٰیٰتُ الْكِتٰبِ الْحَكِیْمِۙ002 ہُدًى وَّ رَحْمَةً لِّلْمُحْسِنِیْنَۙ003 الَّذِیْنَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَ یُؤْتُوْنَ الزَّكٰوةَ وَ ہُمْ بِالْاٰخِرَةِ ہُمْ یُوْقِنُوْنَؕ004 اُولٰٓىِٕكَ عَلٰى ہُدًى مِّنْ رَّبِّهِمْ وَ اُولٰٓىِٕكَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ 005 (لقمان 31 : 1 ، 5) ” الف .... لام .... میم اچھی طرح سن لو کہ یہ آیات کتاب حکیم یعنی قرآن کریم کی ہیں جس کی ہر بات حکمت سے بھری ہوئی ہے اور کوئی بات بھی حکمت سے خالی نہیں ۔ یہ آیات سیدھے راستے کی طرف رہنمائی کرنے والی ہیں اور حسن عمل کا طریقہ اختیار کرنے والوں کے لئے سراسر رحمت ہیں۔ جو لوگ نمازوں کو قائم کرتے ہیں ، زکوٰۃ ادا کرتے ہیں ، جو بات جذبہ قربانی اور ایثار کو ان کے دلوں میں مضبوط کردیتی ہے اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں جس سے احساس ذمہ داری پیدا ہوتا ہے۔ جن لوگوں میں یہ اوصاف پائے جاتے ہیں وہی اپنے رب کی طرف سے ہدایت پر ہیں اور آخرت میں فلاح و نجات یہی پائیں گے اور کامیاب و کامران رہیں گے۔ “ طٰسٓ 1۫ تِلْكَ اٰیٰتُ الْقُرْاٰنِ وَ کِتَابٍ مُّبِیْنٍۙ001 ہُدًى وَّ بُشْرٰى لِلْمُؤْمِنِیْنَۙ002 الَّذِیْنَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَ یُؤْتُوْنَ الزَّكٰوةَ وَ ہُمْ بِالْاٰخِرَةِ ہُمْ یُوْقِنُوْنَ 003 (النمل 27 : 1 ، 3) ” ط اس .... ن ، خوب سن لو اور اچھی طرح یاد رکھو کہ یہ قرآن کریم اور کتاب الٰہی کی ایسی آیات ہیں جو اپنی تعلیمات ، احکام اور ہدایات کھول کھول کر اور واضح طور پر بیان کرتی ہیں۔ دوسری صفت اس کتاب مبین کی یہ ہے کہ مؤمنوں کو صراط مستقیم کی طرف راہنمائی اور ہدایت کرنے والی اور سر تا سر بشارت و خوشخبری ہے۔ ایسے مؤمنین کے لئے آخرت میں سعادت عظمیٰ ہے جو پانچوں اوقات کی فرض نمازوں کو پورے آداب و شرائط کے ساتھ ادا کرتے ہیں اور اللہ کے عطا کئے ہوئے مال میں سے غریبوں کو ان کا حصہ دیتے ہیں یعنی زکوٰۃ ادا کرتے ہیں۔ اور قیامت کی آمد پر پختہ یقین رکھتے ہیں۔ “
Top