Tafseer-e-Majidi - Al-Hashr : 8
لِلْفُقَرَآءِ الْمُهٰجِرِیْنَ الَّذِیْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِیَارِهِمْ وَ اَمْوَالِهِمْ یَبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللّٰهِ وَ رِضْوَانًا وَّ یَنْصُرُوْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ١ؕ اُولٰٓئِكَ هُمُ الصّٰدِقُوْنَۚ
لِلْفُقَرَآءِ : محتاجوں کیلئے الْمُهٰجِرِيْنَ : مہاجر (جمع) الَّذِيْنَ : وہ جو اُخْرِجُوْا : نکالے گئے مِنْ دِيَارِهِمْ : اپنے گھروں سے وَاَمْوَالِهِمْ : اور اپنے مالوں يَبْتَغُوْنَ : وہ چاہتے ہیں فَضْلًا : فضل مِّنَ اللّٰهِ : اللہ کا، سے وَرِضْوَانًا : اور رضا وَّيَنْصُرُوْنَ : اور وہ مدد کرتے ہیں اللّٰهَ : اللہ کی وَرَسُوْلَهٗ ۭ : اور اس کے رسول اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ هُمُ : وہ الصّٰدِقُوْنَ : سچے
ان حاجت مندمہاجروں کا (یہ خاص طور پر) حق ہے جو اپنے گھروں اور اپنے مالوں سے جدا کردئے گئے ہیں، اللہ کے فضل اور رضا مندی کے طلبگار ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کی مدد کرتے ہیں، یہی لوگ تو صادق ہیں،16۔
16۔ (اپنے دعوی ایمان وحب خدا اور رسول میں) یہ صاف وصریح قرآنی مدح صحابہ ہے۔ اشارہ ہورہا ہے کہ یہ ہجرت کسی دنیوی غرض سے نہیں۔ محض اللہ کی رضا جوئی کے لئے کررہے ہیں۔ ان کے ایمان میں کسی طرح کھوٹ نہیں۔ اللہ اور اس کے رسول کے دین کی خدمت ونصرت ہی ان کی زندگی کا مشن ہے۔ (آیت) ” الذین .... اموالھم “۔ یعنی جبراوظلما اپنے گھروں سے نکالے، اور اپنی جائدادوں سے بےدخل کئے گئے، مشرکوں نے انہیں اتنا تنگ اور مجبور کیا کہ یہ گھر بار چھوڑ کر ہجرت پر آمادہ ہوگئے۔ لفظ فقرآء سے فقہاء نے یہ استنباط کیا ہے کہ کافر جب مال مسلم پر قابض ومسلط ہوجائیں، تو وہ اس قانونا مالک سمجھ لئے جائیں گے۔ چناچہ شرفاء مسل میں جو مکہ میں مالدار تھے، جب وہ مدینہ میں مہاجر کی حیثیت سے آئے تو مکی مال وجائداد کی ملکیت ان سے ساقط ہوگئی، اور قرآن مجید نے انہیں فقراء قرار دیا۔ وفیہ دلیل علی ان الکفار یملکون بالاستیلاء اموال المسلمین لان اللہ تعالیٰ سمی المھاجرین فقراء مع انہ کانت لھم دیار واموال (مدارک) اور اس مسئلہ کی فرع یہ ہے کہ جب اسی مال سے انہیں کافروں کے ہاتھ سے بطور بیع یا ہبہ یا اور کسی جائز طریقہ پر مسلمانوں کو کچھ ملے تو اس کا قبول کرنا جائز ہوگا۔ لیکن قانون تملیک صرف مال کی حد تک جائز ہوگی، نفوس مسلم پر اس کا اطلاق صحیح نہ ہوگا۔ مسلمان کی ذات یا جان پر کافر کا دعوی تملیک کسی صورت میں بھی جائز نہ ہوگا۔
Top