Tafseer-e-Majidi - Al-A'raaf : 50
وَ نَادٰۤى اَصْحٰبُ النَّارِ اَصْحٰبَ الْجَنَّةِ اَنْ اَفِیْضُوْا عَلَیْنَا مِنَ الْمَآءِ اَوْ مِمَّا رَزَقَكُمُ اللّٰهُ١ؕ قَالُوْۤا اِنَّ اللّٰهَ حَرَّمَهُمَا عَلَى الْكٰفِرِیْنَۙ
وَنَادٰٓي : اور پکاریں گے اَصْحٰبُ النَّارِ : دوزخ والے اَصْحٰبَ : والے الْجَنَّةِ : جنت اَنْ : کہ اَفِيْضُوْا : بہاؤ (پہنچاؤ) عَلَيْنَا : ہم پر مِنَ : سے الْمَآءِ : پانی اَوْ : یا مِمَّا : اس سے جو رَزَقَكُمُ : تمہیں دیا اللّٰهُ : اللہ قَالُوْٓا : وہ کہیں گے اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ حَرَّمَهُمَا : اسے حرام کردیا عَلَي : پر الْكٰفِرِيْنَ : کافر (جمع)
اور دوزخ والے پکاریں گے جنت والوں کو کہ ہمارے اوپر کرم کرو کچھ پانی ہی سے یا اس سے جو تمہیں اللہ نے کھانے کو دے رکھا ہے وہ کہیں گے کہ اللہ نے تو ان دونوں چیزوں کو کافروں پر حرام کر رکھا ہے،70 ۔
70 ۔ (اس کے حکم کے خلاف ہم دیں کیسے اور ہم دیں بھی تو تمہیں نفع کیا ہو ؟ تم نے اپنے قوی کو ان سے لطف اٹھانے کے قابل رکھا ہی کب ہے ؟ پھر تمہارے مسخ شدہ اور قہر زدہ حلق اور منہ میں پہنچ کر یہی نعمتیں اور آگ لگا دیں گے) (آیت) ” حرمھما علی الکفرین “۔ تحریم سے مراد دارالجزاء میں حرمت شرعی تو ہو نہیں سکتی۔ مراد یہی ہے کہ یہاں کے کھانے پینے تو تمہارے حلق سے اتریں گے ہی نہیں۔ حضرت مولانا رومی (رح) کی ملفوظ فیہ مافیہ گوفن تصوف و سلوک میں ہے لیکن بعض تفسیری نکتہ بھی اس میں خوب آگئے ہیں۔ چناچہ فرماتے ہیں :۔ ” اہل دوزخ بااہل بہشت فغان کنند کہ آخر کرم شما۔۔۔۔ ازاں عطاہاو بخششہا کہ حق تعالیٰ بہ شما کردہ است، ازروئے صدقہ بندہ نوازی بہرمانیز اگر چیزے ریزیدہ ایثار کنید چہ شور۔ واللارض من کاس الاکرام نصیب کہ مادریں آتش می سوزیم ومی گدازیم ازاں میوہ یاد انہ آں آبہائے زلال قرطرہ برجان ماریزید چہ شود۔۔۔ بہشتیاں جواب دہند کہ آن راخدا برشما حرام کردہ است تخم ایں نعمت دردار دنیا بود۔ چوں آنجانہ کشتید ونور زید وآں ایمان وصدق بود وعمل صالح، ایجا چہ برگیریدو اگر ما از روئے کرم برشما ایثار کنیم چوں خدا آں رابر شما حرام کردہ است حلقہارابسوز اندوبہ گلوفرون رود۔ و اگر در کیسہ نہید دریدہ شود وبیفتد (فیہ مافیہ صفحہ 77، 78 معارف پریس اعظم گڑھ) (آیت) ” ونادی اصحب النار اصحب الجنۃ “۔ اہل دوزخ کی یہ فریاد اہل جنت سے فرط اضطرار وشدت اضطراب سے ہوگی۔ (آیت) ” ان افیضوا علینا من المآء اومما رزقکم اللہ “۔ کہ شاید اسی سے کچھ ہماری تسکین ہوجائے، ورنہ ہم تو بھوک اور پیاس اور گرمی سے مرے پھنکے جاتے ہیں بھوک اور پیاس کی شدت سے اہل دوزخ کی تڑپ آیت سے بالکل عیاں ہے۔ ویکون فی الایۃ دلیل علی نھایۃ عطشھم وشدۃ جو عھم (روح) (آیت) ” حرمھما “۔ ضمیر تثنیہ سے مراد جنت کا کھانا پانی ہے۔ یعنی طعام الجنۃ وشرابھا (قرطبی) بعض فقہاء نے آیت سے یہ نکالا ہے کہ پانی پلانا بہترین اعمال میں سے ہے۔ فی ھذہ الایۃ دلیل علی ان سقی الماء من افضل الاعمال (قرطبی)
Top