Tafseer-e-Majidi - At-Tawba : 123
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قَاتِلُوا الَّذِیْنَ یَلُوْنَكُمْ مِّنَ الْكُفَّارِ وَ لْیَجِدُوْا فِیْكُمْ غِلْظَةً١ؕ وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ مَعَ الْمُتَّقِیْنَ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : وہ جو ایمان لائے (مومن) قَاتِلُوا : لڑو الَّذِيْنَ : وہ جو يَلُوْنَكُمْ : نزدیک تمہارے مِّنَ الْكُفَّارِ : کفار سے (کافر) وَلْيَجِدُوْا : اور چاہیے کہ وہ پائیں فِيْكُمْ : تمہارے اندر غِلْظَةً : سختی وَاعْلَمُوْٓا : اور جان لو اَنَّ : کہ اللّٰهَ : اللہ مَعَ الْمُتَّقِيْنَ : پرہیزگاروں کے ساتھ
اے ایمان والو ان کافروں سے جنگ کرو جو تمہارے آس پاس ہیں اور ان کو تمہارے اندر سختی پانا چاہیے،232۔ اور جانے رہو کہ اللہ تو پرہیزگاروں کے ساتھ ہے،233۔
232۔ یعنی تم ہمیشہ اپنی جگہ پر مضبوط، آمادۂ جہاد، مستعد اور کیل کانٹے سے درست رہو کہ دشمن کی ہمت ہی تمہاری طرف نظر بد ڈالنے کی نہ پڑے۔ گویا موجودہ جنگی اصطلاح میں ملت کو ایک مستقل لام بندی (Perpetual Mobilisation) کی حالت میں رہنا چاہیے۔ (آیت) ” غلظلۃ “۔ یہاں خشونت کے معنی اس قدر نہیں جس قدر شدت، مضبوطی اور پختگی کے معنی میں ہے۔ جس سے ان کا رعب ہم پر نہ پڑنے پائے بلکہ الٹا ہمارا رعب ان کے دلوں میں بیٹھ جائے، غلظۃ اے شدۃ وقوۃ وحمیۃ (قرطبی) اذا کان ذلک یوقع المھابۃ لنا فی صدورھم والرعب فی قلوبھم (جصاص) شدۃ وحمیۃ (معالم) (آیت) ” قاتلوا الذین یلونکم من الکفار “۔ یہ حکم جہاد میں خاص ترتیب کامل رہا ہے اور اس کے مصالح بالکل ظاہر ہیں۔ چانچہ سیرت نبوی کے مطالعہ سے واضح ہے کہ آنحضرت ﷺ نے نیز خلفاء راشدین نے بہ اختیار خود جتنے بھی جہاد کئے، یہی ترتیب ملحوظ رکھی، ولھذا بدأ رسول اللہ ﷺ بالعرب فلما فرغ قصد الروم وکانوا بالشام (قرطبی) اے ابدء و ا بقتال الاقرب فالاقرب الیکم دارا دون الابعد فالابعد وکان الذین یلون المخاطبین بھذہ الایۃ یومئذ الروم لانھم کانوا سکان الشام یومئذ والشام کانت اقرب الی المدینۃ من العراق (ابن جریر) محدث ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں اس پر بہت تفصیل سے لکھا ہے۔ (آیت) ” یلونکم من الکفار “۔ فقہاء نے لکھا ہے کہ یہ ترتیب یا تو قرب ملک کے لحاظ سے رکھنا چاہیے اور یا پھر شدت کفر کے لحاظ سے۔ مشرکین کے ہوتے ہوئے اہل کتاب کا رخ نہ کریں اور قریب کو چھوڑ کر بعید پر تاخت نہ کریں، بجز اس کے کہ کوئی مصلحت خاص اس کی مقتضی ہو، فقہاء مفسرین نے یہ تصریح بھی کردی ہے کہ جہاد واجب نفس کفار کے مقابلہ میں واجب تر ہے۔ القتال واجب مع جمیع الکفرۃ قریبھم وبعیدھم ولکن الاقرب فالاقرب واجب (مدارک) فاوجب قتال جمیع الکفار ولکنہ خص بالذکرالذین یلوننا من الکفار اذا کان معلوم انہ لا یمکننا قتال جمیع الکفار فی وقت واحد وان الممکن منہ ھو قتال طائفۃ فکان من قرب منھم اولی بالقتال ممن بعد (جصاص) مرشد تھانوی (رح) نے فرمایا کہ آیت سے یہ بھی مستنبط ہوتا ہے کہ سب سے پہلا مجاہدہ اپنے نفس سے کرنا چاہیے کہ یہی سب سے قریب تر ہے۔ نفس اگر کافر (لغوی معنی میں) ہے تو ان مجاہدات سے وہ مطیع اور مومن اور مطمنہ ہوجائے گا۔ 233۔ (سوجہاد و قتال کی بنیاد بھی تقوی ہی پر رہنا چاہیے) یہاں اگر ایک طرف لفظ متقین لاکر جہاد و قتال میں اخلاص کامل کی تعلیم دے دی اور طمع مال اور حصول شہرت وغیرہ کے راستہ بند کردیئے تو دوسری طرف ان لوگوں کا علاقہ معیت اللہ تعالیٰ سے جوڑ کر یہ بتلا دیا کہ تمہیں اب خوف وہراس کی بات ہی کیا ہے، تمہاری نصرت کے لئے تو ہر قوی سے قوی تر ناصر وحافظ موجود ہے۔ اے ایقنوا عند قتالکم ایاھم ان اللہ معکم وھو ناصر کم علیھم (ابن جریر) فان اللہ ناصر من اتقاہ ومعینہ (ابن جریر) واعلموا ان اللہ معکم اذا اتقیتموہ واطعتموہ (ابن کثیر) ابن کثیر نے لکھا ہے کہ جن مسلمان سلاطین نے یہ تقوی کی شرط پوری رکھی اور احکام شریعت پر عمل جاری رکھا۔ ان کے زمانہ میں فتوحات بھی برابر ہوتی رہیں اور جوں جوں وہ شرائط تقوی سے ہٹتے گئے، فتح مندی بھی ان سے کنارہ کرتی گئی
Top