Tafseer-e-Mazhari - An-Nisaa : 105
وَ شَجَرَةً تَخْرُجُ مِنْ طُوْرِ سَیْنَآءَ تَنْۢبُتُ بِالدُّهْنِ وَ صِبْغٍ لِّلْاٰكِلِیْنَ
وَشَجَرَةً : اور درخت تَخْرُجُ : نکلتا ہے مِنْ : سے طُوْرِ سَيْنَآءَ : طور سینا تَنْۢبُتُ : گتا ہے بِالدُّهْنِ : تیل کے ساتھ لیے وَصِبْغٍ : اور سالن لِّلْاٰكِلِيْنَ : کھانے والوں کے لیے
اور وہ درخت بھی (ہم ہی نے پیدا کیا) جو طور سینا میں پیدا ہوتا ہے (یعنی زیتون کا درخت کہ) کھانے کے لئے روغن اور سالن لئے ہوئے اُگتا ہے
وشجرۃ تخرج من طور سینآء اور ہم نے ایک (اور) درخت پیدا کیا (یعنی زیتون) جو طور سینا میں پیدا ہوتا ہے۔ سَیْنَآءَکے معنی مختلف بیان کئے گئے ہیں۔ مجاہد نے کہا سیناء کا معنی ہے برکت۔ یعنی برکت والے پہاڑ سے ہم نے زیتون کو پیدا کیا۔ قتادہ ‘ ضحاک اور عکرمہ نے کہا اس کا معنی ہے اچھا اور خوبصورت۔ ضحاک نے کہا یہ نبطی زبان کا لفظ ہے اور عکرمہ نے اس کو حبشی زبان کا لفظ کہا ہے۔ کلبی نے کہا سیناء کا معنی ہے درختوں والا۔ بعض نے کہا سریانی زبان میں گھنے درختوں کی جھاڑی کو سیناء کہتے ہیں۔ مقاتل نے کہا جس پہاڑ پر بکثرت پھل دار درخت ہوں اس کو نبطی زبان میں سیناء اور سینین کہا جاتا ہے۔ مجاہد نے کہا سینا۔ خاص پتھروں کی ایک قسم ہوتی ہے یہ طور میں بکثرت موجود ہیں اس لئے طور کی سیناء کی طرف اضافت کردی گئی۔ ابن زید نے کہا طور سیناء پورا نام اس پہاڑ کا ہے جو مصر اور ایلہ کے درمیان واقع ہے جہاں سے حضرت موسیٰ : ( علیہ السلام) کو ندا دی گئی تھی۔ جیسے امر القیس پورا نام ہے۔ تنبت بالدہن وصبغ للاکلین۔ جو اگتا ہے تیل لئے ہوئے اور کھانے والوں کے لئے سالن لئے ہوئے۔ یعنی زیتون میں دونوں فائدے ہیں یعنی اس کے اندر روغن بھی جو مالش کے کام میں آتا ہے اور چراغ بھی اس سے جلائے جاتے ہیں اور یہ سالن بھی ہے کہ روٹی اس میں ڈبوئی جاتی ہے۔ بغوی نے لکھا ہے صبغ اور صباغ اس سالن کو کہتے ہیں جس میں روٹی بوئی جاتی ہے اور روٹی پر اس کا رنگ آجاتا ہے اور ادام عام سالن کو کہتے ہیں جس کو روٹی کے ساتھ کھایا جاتا ہے خواہ اس سے روٹی رنگین ہو یا نہ ہو۔ مقاتل نے کہا اللہ نے اس درخت کو ادام (سالن) بھی بنایا ہے اور دہن (روغن ‘ زیت) بھی۔ مقاتل نے یہ بھی کہا کہ طور کے ساتھ زیتون کی خصوصیت اس وجہ سے کہ سب سے پہلے طور میں ہی زیتون کا درخت پیدا ہوا۔ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ طوفان کے بعد زمین پر سب سے پہلے زیتون کا ہی درخت پیدا ہوا۔
Top