Tafseer-e-Mazhari - Al-Baqara : 21
یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّكُمُ الَّذِیْ خَلَقَكُمْ وَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَۙ
يَا اَيُّهَا النَّاسُ : اے لوگو اعْبُدُوْا : عبادت کرو رَبَّكُمُ : تم اپنے رب کی الَّذِیْ : جس نے خَلَقَكُمْ : تمہیں پیدا کیا وَالَّذِیْنَ : اور وہ لوگ جو مِنْ : سے قَبْلِكُمْ : تم سے پہلے لَعَلَّكُمْ : تا کہ تم تَتَّقُوْنَ : تم پرہیزگار ہوجاؤ
لوگو! اپنے پروردگار کی عبات کرو جس نے تم کو اور تم سے پہلے لوگوں کو پیدا کیا تاکہ تم (اس کے عذاب سے) بچو
یَآاَیُّھَاالنَّاسُ (اے لوگو) یہ خطاب سب آدمیوں کو ہے جو قابل خطاب ہوں (یعنی مکلف) خواہ وہ خطاب کے وقت موجود ہوں یا بعد میں موجود ہونے والے ہوں کیونکہ جناب رسول اللہ ﷺ کی شریعت مطہرہ عہد رسالت میں موجود لوگوں کو اور ان سب لوگوں کو جو قیامت تک ہونگے شامل ہے اسی طرح جو جمع و اسم جمع معرف باللام ہو وہ عموم پر دلالت کیا کرتی ہے۔ نیز صحابہ ؓ نے بھی اس آیۃ کے عموم سے استدلال کیا ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا ہے کہ قرآن مجید میں جہاں کہیں بھی یآ ایُّھَا النَّاس کرکے خطاب فرمایا گیا ہے۔ اس سے مراد اہل مکہ ہیں اور جہاں یٰآ اَیُّھَا الَّذِیْن آمَنُوْا سے یاد فرمایا گیا ہے۔ وہاں اہل مدینہ اس لیے کہ مکہ میں اکثر کافر تھے اور مؤمن کم تھے اسی لیے ایسا لفظ ارشاد فرمایا گیا کہ دونوں گروہ اس میں داخل ہوگئے اور مدینہ میں چونکہ مومن زیادہ تھے اس لیے انکی بزرگی ظاہر فرمانے کے لیے ایمان سے تعبیر فرمایا۔ اعْبُدُوْا رَبَّکُمُ (اپنے پروردگار کی عبادت کرو) اور یوں نہ فرمایا کہ اللہ کی عبادت کرو۔ اس عنوان کے اختیار کرنے کی وجہ یہ ہے کہ پرورش عبادت کا باعث و سبب ہے کیونکہ محسن و مربی کا شکریہ ضروری ہے اگرچہ اللہ تعالیٰ بذاتہٖ عبادت کا مستحق ہے اور عبادت کا حکم مؤمن اور کافر سب کو شامل ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ کافروں کو ایمان لانے کے بعد ہے کیونکہ ایمان شرط عبادت ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا کہ قرآن میں عبادت سے مراد توحید ہے۔ کفار کو یہ حکم ہے کہ تم توحید اختیار کرو اور مؤمنین کو یہ ارشاد ہے کہ توحید پر جمے رہو۔ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ (جس نے تمہیں پیدا کیا) یہ ربکم کی صفت ہے جو تعظیم اور علت بیان کرنے کے لیے لائے ہیں خلق کسی شئے کے ایجاد کرنے کو کہتے ہیں کہ جس کی مثل پہلے نہ ہو۔ وَالَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ (اور انہیں جو تم سے پہلے تھے) اس لفظ میں جو شے انسان سے پہلے ہے وہ سب داخل ہوگئی اور یہ کلام کہ ” اپنے رب کی عبادت کرو جس نے تمہیں پیدا کیا “ ایسے طرز سے لائے کہ جس سے یہ مترشح ہوتا ہے کہ وہ اس مضمون کے مقرو معترف تھے۔ اس لیے اس طریق کے اختیار کرنے کی وجہ یا تو یہی ہے کہ وہ اس مضمون کا فی الواقع اقرار کرتے تھے۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر حق تعالیٰ نے فرمایا ہے : وَلَءِنْ سَأَلْتَھُمْ مَنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ لَیَقُوْلُنَّ اللّٰہُ (بےشک اے محمد ﷺ اگر آپ ﷺ : کفار سے پوچھیں کہ زمین و آسمان کس نے بنایا تو وہ ضرور یہی کہیں گے کہ اللہ نے) اور یا یہ وجہ ہے کہ یہ مضمون چونکہ ادنیٰ غور و تامل سے بھی معلوم ہوسکتا تھا اس لیے انہیں ایسا فرض کیا گیا کہ گویا وہ اس کے قائل ہی ہیں ( اور گویا اشارۃً یہ حکم ہے کہ یہ مضمون کس طرح بھی انکار کے قابل نہیں) ۔ لَعلکُم تتقون (شاید کہ تم بچو) یہ جملہ یا تو اُعْبُدُوْا کے فاعل سے حال ہے اس وقت یہ معنی ہونگے کہ عبادت کے وقت اس بات کی امید رکھو کہ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ہمیں نجات ہوگی اور امید کے ساتھ خوف بھی برابر ہی لگا ہوا ہو کہ اللہ تعالیٰ قادر مطلق ہے ‘ جو چاہے کرے کیونکہ ایمان ‘ خوف اور امید دونوں کو مقتضی ہے اور یا یہ معنی ہونگے کہ عبادت کے وقت یہ آرزو رکھو کہ ہم اہل تقویٰ کے پاک گروہ میں داخل ہوجائیں گے لیکن یہ اخیر معنی اس تقدیر پر ہونگے کہ تقویٰ کے معنی تمام خلاف شرع امور سے بچنے کے جو تمام واجبات ادا کرنے کو مستلزم ہے لیے جائیں بلکہ ذات باری تعالیٰ کے سوا ہر شے سے بیزاری کو تقویٰ کا مفہوم قرار دیا جائے اور یا خلقکم کے مفعول سے حال ہے اس تقدیر پر یہ معنی ہونگے کہ تمہیں ایسے حال میں پیدا فرمایا کہ تم سے تقویٰ کی امید ہوسکتی ہے یعنی چونکہ تم میں تقویٰ کے اسباب و دواعی بکثرت ہیں اس لیے ظاہراً تم سے تقویٰ کی امید ہوسکتی ہے بعض علماء نے کہا کہ یہ ما قبل کی علت ہے اس تقدیر پر یہ معنی ہونگے کہ تمہیں اس لیے پیدا کیا تاکہ تم بچو۔ قاضی بیضاوی نے کہا ہے کہ یہ توجیہ ضعیف ہے لعنت میں اس طرح کا استعمال کہیں ثابت نہیں سیبویہ نے کہا ہے کہ لَعَلَّ اور عَسٰی دونوں حرف ترجی ہیں مگر کلام باری تعالیٰ میں جہاں کہیں بھی یہ دو لفظ آئینگے اس سے یہ سمجھا جائے گا کہ ان کے مدخول کا واقع و موجود ہونا ضروری ہے میں کہتا ہوں کہ سیبویہ کا یہ قول صحیح نہیں کیونکہ یہ بات اگر ہوتی تو ساری مخلوق کا متقی ہونا ضروری تھا حالانکہ یہ صریح مشاہدہ کے خلاف ہے ہاں سیبویہ کے قول کی یہ توجیہ ہوسکتی ہے کہ آیت کے یہ معنی ہیں کہ تمہیں ایسی حالت میں پیدا کیا کہ تم سے تقوی کا فعل واقع ہونا ضروری ہے اگرچہ یہ وقوع بعض ہی سے ہو اور نعمتوں کو عبادت کا سبب قرار دینے سے دو باتیں معلوم ہوئیں ایک تو یہ کہ ثواب محض اللہ تعالیٰ کا فضل ہے۔ استحقاق ثواب کی وجہ عبادت نہیں کیونکہ عبادت اگر استحقاق ثواب کا باعث ہو تو اس صورت میں انسان ایک مزدور جیسا ہوگا کہ جس نے اپنی اجرت کام سے پہلے وصول کرلی اور احسان جتلانا بےموقع ہوگا دوسرے یہ کہ حق تعالیٰ کی معرفت کا طریق یہ ہے کہ مصنوعات میں فکر اور غور کرے اور معرفت سے مراد یہاں معرفت صفات ہے کیونکہ ذات کی معرفت ایک وہبی شئے ہے نہ کسبی۔
Top