Tafseer-e-Mazhari - Al-Baqara : 6
اِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا سَوَآءٌ عَلَیْهِمْ ءَاَنْذَرْتَهُمْ اَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَ
إِنَّ : بیشک الَّذِينَ : جن لوگوں نے کَفَرُوا : کفر کیا سَوَاءٌ : برابر عَلَيْهِمْ : ان پر أَ أَنْذَرْتَهُمْ : خواہ آپ انہیں ڈرائیں أَمْ لَمْ : یا نہ تُنْذِرْهُمْ : ڈرائیں انہیں لَا يُؤْمِنُونَ : ایمان نہ لائیں گے
جو لوگ کافر ہیں انہیں تم نصیحت کرو یا نہ کرو ان کے لیے برابر ہے۔ وہ ایمان نہیں لانے کے
اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا ( اے پیغمبر جن لوگوں نے قبول اسلام سے انکار کیا) کفر کے لغوی معنی ہیں نعمت کا چھپانا اور شرع میں کفر کہتے ہیں ایمان کی ضد اور خداوندی نعمت کے چھپانے کو۔ سَوَآءٌ عَلَیْھِمْ ءَ اَنْذَرْتَھُمْ اَمْ لَمْ تُنْذِرْھُمْ ( ان کے حق میں یکساں ہے کہ تم ان کو عذاب الٰہی سے ڈراؤیا نہ ڈراؤ) یہ اِنَّ کی خبر ہے اور سَوَاء اسم ہے معنی میں اِسْتِوَآءٌ کے اس کا حمل مبتدا پر ویسا ہی ہوا ہے جیسا مصادر کا حمل اسماء پر ہوا کرتا ہے ءَ اَنْذَرْتَھُمْ اور اَمْ لَمْ تُنْذِرْھُمْ دونوں جملے بتاویل سواءٌ کے فاعل ہیں اور تقدیر عبارت یوں ہے مُسْتَوٍ عَلَیْھِم اِنْذَارُکَ وَ عَدَمُہٗ یا یوں کہو کہ سَوَاءٌ عَلَیْھِمْ خبر اور ءَاَنْذَرْتَھُمْ اور اَمْ لَمْ تُنْذِرْھُمْ مبتدا ہے اور عبارت کی تقدیر یوں ہے اِنْذَارُکَ وَ عَدمُہٗ سِیَّانِ عَلَیہم اور فعل ( اگرچہ بلحاظ قوانین نحو مبتدا واقع نہیں ہوسکتا کیونکہ اس میں مخبر عنہ ہونے کی صلاحیت نہیں ہے مگر صرف اس لحاظ سے کہ وہ) مصدر کے معنی کو متضمن ہے مجازاً مبتدا واقع ہوگیا ہے اور مصدر سے فعل کی طرف عدول کرنے کی وجہ ابہام تجدد ہے۔ ءَ اَنْذَرْتَھُمْ میں ہمزہ اور ام لَمْ تُنْذِرْھُمْ میں اَمْ یہ دونوں گو استفہام کے لیے آیا کرتے ہیں لیکن یہاں معنی استفہام سے مجرد ہیں اس جگہ ان کا ذکر معنی استواء کی تقریر و تاکید کے لیے ہوا ہے انذار کہتے ہیں عذاب الٰہی سے خوف دلانے کو۔ یہاں صرف اِنْذَار پر اکتفا کرنے اور اس کی ضد مذکور نہ کرنے کی وجہ یہ ہے کہ ضرر کا دفع کرنا نفع حاصل کرنے سے زیادہ مہتم بالشان ہوا کرتا ہے۔ ورش نے ءَ اَنْذَرْتَھُمْ کے دوسرے ہمزہ کو الف سے بدل کر پڑھا ہے اور قالون اور ابن کثیر اور ابو عمر و دوسرے ہمزہ کو تسہیل اور بین بین سے پڑھتے ہیں لیکن قالون باوجود تسہیل کے دو ہمزوں کے بیچ میں الف بھی داخل کرتا ہے اور ہشام 1 ؂ دونوں ہمزوں کے بیچ میں الف داخل کرنے میں تو قالون کے ساتھ متفق ہے مگر تسہیل میں اختلاف رکھتا ہے۔ ( یعنی دوسرے ہمزہ میں تسہیل جائز نہیں رکھتا) ان کے علاوہ باقی تمام قراء دونوں ہمزوں کو ثابت رکھتے اور ( ادخال سے انکار کرتے ہیں) یہی گفتگو ان دو مفتوح ہمزوں میں بھی جاری ہوسکتی ہے جو ایک کلمے میں واقع ہوں۔ تیسیر میں مذکور ہے کہ اس بارے میں ہشام کا مذہب بھی قالون کی رائے کے قریب قریب ہے لیکن جب دونوں ہمزے بلحاظ حرکت مختلف ہوں یعنی ایک مفتوح دوسرا مکسور ہو جیسے ءَ اِذَا کنَّا ترابًا میں تو حرمیان اور ابو عمرو دونوں دوسرے ہمزہ کو تسہیل سے پڑھنا تجویز کرتے ہیں اور قالون اور ابوعمرو دونوں میں الف داخل کرنا پسند کرتے ہیں۔ ان کے علاوہ باقی قراء دونوں ہمزوں کے تحقیق سے پڑھنے کے قائل ہیں۔ ہشام سے دونوں ہمزوں کے بیچ میں الف داخل کرنے کی جو روایت نقل کی جاتی ہے اس میں اختلاف ہے یعنی دو مختلف روایتیں ذکر کی جاتی ہیں ایک میں مطلقاً ہر جگہ داخل کرنا ثابت ہوتا ہے اور دوسری روایت سے صرف سات موقعوں کی تخصیص سمجھی جاتی ہے۔ سورة اعراف اور سورة فصلت میں ءَ اِنَّکُمْ اور اعراف و شعراء میں اَءِنَّ لَنَا لَاجْرًا اور مریم میں ءَ اِذَا مَا مِتُّ اور صٰفّٰت میں ءَ اِنَّکَ اور ءَ اِفْکًا لیکن جب دو ہمزہ کلمہ واحد میں مختلف بالحرکت اس طرح ہوں کہ ایک کو فتحہ دوسرے کو ضمہ ہو تو حرمیان اور ابو عمر و تو دوسرے ہمزہ کو تسہیل سے پڑھتے ہیں اور قالون دونوں میں الف داخل کرتا ہے رہا ہشام وہ سورة صٓ ءَ اُنْزِلَ عَلَیْہِ میں اور سورة قمر ءَ اُلْقِیَ میں تو قالون کی رائے کے ساتھ اتفاق رکھتا ہے اور سورة آل عمران قُلْ ءَ اُنَبِّءُکُمْ میں جمہور کا ساتھ دیتا ہے اور باقی قراءت حقیق سے پڑھنا پسند کرتے ہیں اور ان تین کے سوا چوتھا کوئی موقعہ نہیں ہے۔ لَا یُؤْمِنُوْنَ ( وہ تو ایمان لانے والے ہیں نہیں) اپنے ماقبل کے اجمال کی تفسیر کر رہا ہے (یعنی جملہ سَوَاءٌ عَلَیْہِمْ میں جو ایک طرح کا اجمال تھا لا یُوْمِنوُْنَ سے اس کی تفسیر ہوگئی) اس صورت میں اس جملہ کا کوئی محل اعراب نہ ہوگا اور یہ بھی ممکن ہے کہ حال مؤکدہ ہو یا بدل یا اِنَّ کی خبر اور اس تیسرے احتمال میں درمیانی عبارت بطریق جملہ معترضہ واقعہ ہوگی۔
Top