Tafseer-e-Mazhari - Al-Ankaboot : 48
وَ مَا كُنْتَ تَتْلُوْا مِنْ قَبْلِهٖ مِنْ كِتٰبٍ وَّ لَا تَخُطُّهٗ بِیَمِیْنِكَ اِذًا لَّارْتَابَ الْمُبْطِلُوْنَ
وَمَا : اور نہ كُنْتَ تَتْلُوْا : آپ پڑھتے تھے مِنْ قَبْلِهٖ : اس سے قبل مِنْ كِتٰبٍ : کوئی کتاب وَّلَا تَخُطُّهٗ : اور نہ اسے لکھتے تھے بِيَمِيْنِكَ : اپنے دائیں ہاتھ سے اِذًا : اس (صورت) میں لَّارْتَابَ : البتہ شک کرتے الْمُبْطِلُوْنَ : حق ناشناس
اور تم اس سے پہلے کوئی کتاب نہیں پڑھتے تھے اور نہ اُسے اپنے ہاتھ سے لکھ ہی سکتے تھے ایسا ہوتا تو اہلِ باطل ضرور شک کرتے
وما کنت تتلوا من قبلہ من کتب ولا تخطہ بیمینک اذا الارتاب المبطلون آپ اس سے پہلے نہ کوئی کتاب پڑھتے تھے ‘ نہ اپنے ہاتھ سے کوئی کتاب لکھتے تھے (اگر ایسا ہوتا تو) اس وقت باطل پرست (یہ کافر) شک میں پڑجاتے۔ مِنْ قَبْلِہٖ اس کتاب کے نزول سے پہلے۔ بِیَمِیْنِکَ اپنے سیدھے ہاتھ سے۔ لکھنا تو ہاتھ سے ہی ہوتا ہے پھر اس لفظ کی صراحت بتارہی ہے کہ مجازی معنی اس جگہ مراد نہیں ہے (لکھنے سے مراد ہے کبھی لکھوانا بھی مجازاً ہوتا ہے۔ ایک بادشاہ نے دوسرے بادشاہ کو لکھا ‘ یعنی اپنے وزیر پیشی سے لکھوایا) یمین کے لفظ سے عدم تحریر کی زیادہ تصور کشی ہے (بائیں ہاتھ سے تو شاید کوئی لکھ لیتا ہو ‘ دایاں ہاتھ ہی عام طور پر لکھنے کے کام آتا ہے) ۔ اِذًا یعنی اگر گزشتہ کتابوں کو پڑھ لکھ سکتے۔ تو مُبْطِلُوْنَ یعنی اہل مکہ شک میں پڑجاتے کہ شاید آپ نے متقدین کی کتابوں سے انتخاب کرلیا ہو۔ قتادہ نے یہی تفسیری مطلب بیان کیا ہے۔ کافروں کو اہل باطل کفر کی یا شک میں پڑنے کی وجہ سے کہا۔ بکثرت معجزات کی موجودگی میں کوئی وجہ نہ تھی کہ کفر میں یا شک میں پڑتے۔ مقاتل نے کہا کہ مُبْطِلُوْنَ سے مراد ہیں اہل کتاب یعنی اہل کتاب چونکہ اپنی کتاب میں نبی آخرالزمان کی صفت اُمّی پاتے ہیں اس لئے ان کو کوئی شک نہ تھا۔ اس مطلب پر اہل کتاب کا مبطل ہونا واقعی ہے کیونکہ رسول اللہ اُمّی تھے اور ان کی کتابوں میں آخری نبی کا اُمّی ہونا ہی لکھا ہے۔
Top