Ashraf-ul-Hawashi - Al-Ankaboot : 48
وَ مَا كُنْتَ تَتْلُوْا مِنْ قَبْلِهٖ مِنْ كِتٰبٍ وَّ لَا تَخُطُّهٗ بِیَمِیْنِكَ اِذًا لَّارْتَابَ الْمُبْطِلُوْنَ
وَمَا : اور نہ كُنْتَ تَتْلُوْا : آپ پڑھتے تھے مِنْ قَبْلِهٖ : اس سے قبل مِنْ كِتٰبٍ : کوئی کتاب وَّلَا تَخُطُّهٗ : اور نہ اسے لکھتے تھے بِيَمِيْنِكَ : اپنے دائیں ہاتھ سے اِذًا : اس (صورت) میں لَّارْتَابَ : البتہ شک کرتے الْمُبْطِلُوْنَ : حق ناشناس
اور اے پیغمبر قرآن (اترنے) سے پہلے نہ تو تو کوئی کتاب پڑھ سکتا تھا اور نہ اپنے ہاتھ سے اس کو لکھ سکتا تھا (کیونکہ تو المی تھا نہ پڑھا نہ لکھا) اگر پڑھا لکھا ہوتا تو یہ جھوٹے دغا باز ضرور شبہ کرتے8
8 ۔ کہ پچھلی کتابوں کو دیکھ کر آپ نے پیغمبر کا دعویٰ کردیا ہے۔ اس آیت میں آنحضرت ﷺ کے امی ہونے کو آپ ﷺ کے دعوائے نبوت میں سچا ہونے پر دلیل ٹھہرایا ہے۔ (دیکھئے سورة قصص آیت 86 و سورة یونس آیت 16) بعض لوگوں نے صحیح بخاری میں صلح حدیبیہ والی روایت میں ” اخذ لکتب “ کہ قلم پکڑا اور لکھا سے استدلال کیا ہے کہ آنحضرت ﷺ لکھنا پڑھنا جانتے تھے مگر یہ استدلال بچند وجوہ مخدوش ہے۔ اولاً تو صحیح بخاری کی دوسری روایت میں ” امر لکتب “ کے الفاظ ہیں جو وضاحت کے لئے کافی ہیں یعنی کہ ” اپ نے حکم دیا تو کاتب نے لکھا “ اور پھر اسی روایت میں :” ولایحن ان لکتب “ کے الفاظ ہیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کا اس موقع پر لکھنا بھی اعجازی حیثیت کا حال ہے جو بجائے خود آپ ﷺ کے سچا نبی ہونے کی دلیل ہے۔ (قرطبی۔ ابن کثیر)
Top