Anwar-ul-Bayan - Al-Ankaboot : 48
وَ مَا كُنْتَ تَتْلُوْا مِنْ قَبْلِهٖ مِنْ كِتٰبٍ وَّ لَا تَخُطُّهٗ بِیَمِیْنِكَ اِذًا لَّارْتَابَ الْمُبْطِلُوْنَ
وَمَا : اور نہ كُنْتَ تَتْلُوْا : آپ پڑھتے تھے مِنْ قَبْلِهٖ : اس سے قبل مِنْ كِتٰبٍ : کوئی کتاب وَّلَا تَخُطُّهٗ : اور نہ اسے لکھتے تھے بِيَمِيْنِكَ : اپنے دائیں ہاتھ سے اِذًا : اس (صورت) میں لَّارْتَابَ : البتہ شک کرتے الْمُبْطِلُوْنَ : حق ناشناس
اور اس سے پہلے آپ کوئی کتاب نہیں پڑھتے تھے اور نہ اپنے داہنے ہاتھ سے لکھتے تھے، اگر ایسا ہوتا تو اہل باطل شک میں پڑجاتے۔
رسالت محمدیہ پر ایک واضح دلیل : اس کے بعد رسول اللہ ﷺ کی رسالت پر ایک واضح دلیل بیان فرمائی اور وہ یہ کہ آپ مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے، اہل مکہ میں آپ نے پورے چالیس سال گزارے، اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے آپ کو نبوت سے سرفراز فرمایا، مکہ والے جانتے تھے کہ آپ بالکل امی ہیں کسی سے آپ نے کچھ بھی نہیں پڑھا، آپ نہ پڑھنا جانتے تھے نہ لکھنا۔ اہل کتاب بھی اپنی کتابوں میں جو آپ کی صفات پاتے ان میں یہ واضح طور پر موجود تھا کہ آپ امی ہوں گے۔ مکہ معظمہ میں آپ نے نبوت کے بعد تیرہ سال گزارے اور ان کو اللہ تعالیٰ کی کتاب سنائی تو انہوں نے ضد اور عناد کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی کتاب ہونے سے انکار کردیا اور یوں کہنے لگے کہ (اٍنَّمَا یُعَلِّمُہٗ بَشَرٌ) (انہیں ایک آدمی سکھاتا ہے) جب ان سے کہا گیا کہ تم اس جیسی ایک سورت بنا کر لاؤ تو بالکل عاجز رہ گئے حالانکہ وہ فصحاء اور بلغاء تھے، جس سے صاف ظاہر ہوگیا کہ یہ کتاب آپ کی بنائی ہوئی نہیں ہے، آپ نے کسی سے پڑھا نہیں اور یہ کسی دوسرے بشر کی سکھائی اور پڑھائی ہوئی کتاب نہیں ہے، اگر ایسا ہوتا تو لوگ اس جیسا کلام بنا کرلے آتے، خصوصاً جبکہ وہ شخص عجمی ہے جس کے بارے میں کہتے ہو کہ وہ آپ کو سکھاتا ہے ایک امی شخص جس نے کسی سے بھی نہیں پڑھا اس کا ایسی فصیح وبلیغ کتاب پیش کردینا جس کے مقابلہ سے بڑے بڑے فصحاء عاجز رہ گئے، اس کی نبوت کی صاف صریح اور واضح دلیل ہے۔ پھر جب آپ مدینہ منورہ تشریف لائے تو یہاں پہلے سے اہل علم یعنی یہود موجود تھے انہوں نے آپ کو پہچان لیا کہ یہ وہی نبی ہیں جن کی تشریف آوری کا ہمیں انتظار تھا، وہ لوگ آپ کی نشانیاں جانتے تھے اور اپنے اسلاف سے سنتے آ رہے تھے، ان نشانیوں میں یہ بھی تھا کہ آپ امی ہوں گے، امی ہوتے ہوئے آپ نے حضرات انبیاء سابقین اور ان کی امتوں کے واقعات بتائے اور جامع شریعت پیش کی، عقائد صحیحہ سے واقف کیا، یہود و نصاریٰ کی تحریفات سے آگاہ فرمایا، ان کی گمراہیوں پر مطلع کیا، یہ سب اس بات کی دلیل ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ کے سچے رسول ہیں، اللہ تعالیٰ نے آپ کو وہ وہ علوم دے دئیے جو کسی کو نہیں دئیے۔ اس تمہید کے بعد اب آیت کا مفہوم سمجھیں، ارشاد فرمایا : (وَ مَا کُنْتَ تَتْلُوْا مِنْ قَبْلِہٖ مِنْ کِتٰبٍ وَّ لَا تَخُطُّہٗ بِیَمِیْنِکَ اِذًا لَّارْتَابَ الْمُبْطِلُوْنَ ) (اور اس سے پہلے آپ کوئی کتاب نہیں پڑھتے تھے اور نہ اپنے داہنے ہاتھ سے کتاب کو لکھتے تھے اگر ایسا ہوتا تو باطل والے شک کرتے) یعنی انہیں شک کرنے اور یوں بات بنانے کا موقع مل جاتا کہ یہ تو پڑھے لکھے آدمی ہیں، اپنے پاس سے لکھ لیتے ہیں پھر یوں کہہ دیتے کہ یہ اللہ کی کتاب ہے، لیکن جب آپ پڑھنا لکھنا جانتے ہی نہیں تو خود سے لکھنے کا احتمال ہی نہیں، لہٰذا اب یہ بات کہنے کا موقع نہیں رہا کہ انہوں نے یہ کتاب لکھ لی ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کردی ہے۔ (العیاذ باللہ)
Top