Maarif-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 133
الٓمّٓصٓۚ
الٓمّٓصٓ : المص
المص
قال اللہ تعالیٰ ۔ المص۔ کتاب انزل الیک۔۔۔ الی۔۔۔ بما کانو بایاتنا یظلمون (ربط) گذشتہ سورت کے آخری رکوع میں قرآن مجید کے اتباع کا حکم اور اس کی ترغیب تھی اور اس سے انحراف اور اعراض پر نزول عذاب کی وعید تھی اور اسی بناء پر گزشتہ سورت کے آخری رکوع کو ان ربک سریع العقاب وانہ لغفور رحیم پر ختم فرمایا اب اس سورت کے آغاز میں قرآن مجید کے اتباع کا حکم دیتے ہیں اور گزشتہ امتوں کے منکرین حق اور مکذبین حق کی ہلاکت اور بربادی کا ذکر کرتے ہیں تاکہ منکرین قرآن اس سے عبرت پکڑیں۔ چناچہ فرماتے ہیں۔ المص سورة بقرہ کے شروع ہی میں اس قسم کے حروف مقطعات کے متعلق مفسرین کے اقوال بسط اور تفصیل کے ساستھ گزر چکے ہیں ان اقوال میں سب سے زیادہ صحیح اور راجح قول یہ ہے کہ یہ متشابہات میں سے ہیں اس کے معنی سوائے اللہ تعالیٰ کے کسی کو معلوم نہیں یہ تمام حروف مقطعات اللہ تعالیٰ کے اسرار و رموز ہیں جن کا علم اللہ ہی کو ہے اور بعض مفسرین اس طرف گئے ہیں کہ المص اس سورت کا نام ہے جیسا کہ سورة بقرہ کے شروع میں گزر چکا ہے۔ شان نزول : آنحضرت ﷺ جب مکہ مکرمہ میں تشریف فرما تھے تو کافروں کا بہت زور تھا اور مسلمان تھوڑے اور کمزور تھے احکام الٰہی کا نزول زور وشور سے ہورہا تھا۔ توحید اور رسالت اور قیامت کے مسائل کو دلائل قاہرہ سے بیان کیا جاتا تھا جس سے مشرکین کی دشمنی اور عداوت دن بدن بڑھتی جاتی تھی اس سے آں حضرت ﷺ کو طبعی طور پر گرانی پیش آتی تھی تو اس پر یہ آیتیں نازل ہوئی۔ المص۔ یہ قرآن مجید ایک مبارک کتاب ہے جو من جانب اللہ آپ کی طرف اتاری گئی ہے پس جان لیجیے کہ اللہ کی توجہات اور عنایات آپ کے ساتھ ہیں کہ آپ پر ایسی مبارک کتاب نازل فرمائی پس چاہیے کہ آپ کے سینے میں اس سے یعنی اس کی تبلیغ سے کسی قسم کی کوئی تنگی نہ ہو یعنی لوگوں کے نہ ماننے کی وجہ سے آپ اس کی تبلیغ و دعوت میں تنگدل نہ ہوں اللہ تعالیٰ آپ کا محافظ ہے مطلب یہ ہے کہ آپ ان معاندین اور احمقوں کے طعن وتشنیع اور بےہودہ سوالات سے منقبض اور مکدر ہو کہ قرآن کریم کی تبلیغ میں تنگ دل نہ ہوں بلکہ پورے شرح صدر اور طمانیت اور قوت اور جرأت کے ساتھ فریضۂ تبلیغ وانذار میں ہمہ تن مشغول ہوجائیے اور یہ یقین رکھیے کہ اللہ تعالیٰ کی عنایتیں آپ کے ساتھ ہیں اور اللہ آپ کا محافظ اور نگہبان ہے۔ قوم کی تکلیف اور عداوت سے گھبرا کر تبلیغ اور دعوت حق میں کوئی کمی نہ کیجئے کما قال تعالیٰ فلعلک تارک بعض ما یوحی الیک وضائق بہ صدرک ان یقولوا لو لا انزل علیہ کنزل او جاء معہ ملک وقال تعالیٰ فاصبر کما صبر اولو الاعزم من الرسل۔ یعنی جیسا کہ رسل اولو العزم نے صبر اور تحمل سے کام لیا آپ بھی اسی طرح صبر اور تحمل سے کام لیں اور ان مغرورین اور متکبرین کی پرواہ نہ کریں جو اپنے مال وجاہ پر مغرور ہیں۔ بہت سی بستیوں کو ہم نے یکایک ہلاک کردیا کہ رات کو سوتے وقت یا دوپہر میں قیلولہ کے وقت ان متکبرین کو عذاب الٰہی نے آپکڑا بجز اس کے کہ اپنے جرم اور خطا کا اقرار کریں کچھ نہ بن پڑا لہٰذا آپ اس کتاب کی تبلیغ سے تنگ دل نہ ہوں یہ کتاب آپ پر اس لیے نازل کی گئی ہے تاکہ آپ اس کے ذریعے سے لوگوں کو عذاب الٰہی سے ڈرا میں اور تاکہ یہ کتاب ایمان والوں کے لیے ایک نصیحت ہو۔ پس آپ تنگ دل نہ ہوں اور لوگوں سے یہ کہئے کہ اے لوگو جو کتاب نصیحت وہدایت تمہارے پروردگار کی طرف سے تمہاری جانب اتاری گئی اس پر چلو اور اللہ کے سوا اور دوستوں کی راہ پر نہ چلو جو تم کو گمراہ کرتے ہیں جیسے شیاطین الانس والجن مگر باوجود اس مشفقانہ نصیحت کے تم لوگ بہت کم دھیان کرتے ہہو نبی جو تمہارا خیر خواہ ہے اس کی طرف کان نہیں لگاتے اور جو تمہارے دشمن ہیں اور تمہیں ہلاک اور برباد کرنا چاہتے ہیں ان کی سنتے ہو۔ اور کتنی ہی بستیاں تھیں جنہوں نے انبیاء کرام کی نصیحتوں سے اعراض کیا اور اپنے دوستوں کا اتباع کیا ہم نے ان کو یکایک ہلاک کیا۔ پس ان پر ہمارا عذاب آیا رات کو سوتے وقت یا دوپہر کے وقت جبکہ وہ قیلولہ کر رہے تھے۔ اس سے مقصود مشرکین کو ڈرانا ہے کہ دنیاوی امن و راحت وعیش و عشرت پر مغرور نہ ہوں ہم نے تم سے پہلے بہت سی بستیوں پر راحت و آرام کے وقت میں ان پر عذاب نازل کیا اور غفلت اور بیخبر ی میں ان کو ہمارے عذاب نے آپکڑا اگر تم کفر وشرک سے باز نہ آئے تو تمہارا بھی یہی حشر ہونا ہے سو جس وقت ان پر ہمارا عذاب آیا تو ان کا قول بجز اس کے کچھ نہ تھا کہ بیشک ہم ظالم تھے۔ انبیاء ورسل کی مخالفت کر کے ہم نے خود اپنی جانوں پر ظلم کیا مطلب یہ ہے کہ جب عذاب الٰہی نے آپکڑا تب اپنے جرم کا اقرار کیا مگر اس وقت کے اقرار سے کیا ہوتا تھا۔ وقت گزر چکا تھا جب وقت تھا تو دشمنوں کو دوست سمجھتے رہے اور انبیاء کو اپنا دشمن سمجھتے رہے۔ یہ ناگہانی عذاب تو دنیا میں آیا پھر اس عذاب کے بعد اخروی عذاب کا وقت آئے گا یعنی قیامت آئے گی۔ اس وقت ہم ان امتوں سے ضرور باز پرس کریں گے جن کی طرف رسول بھیجے گئے کہ تم نے پیغمبروں کی دعوت کو قبول کیا یا نہیں اور ہماری نازل کردہ ہدایت اور نصیحت کو مانا یا نہیں کما قال تعالیٰ ما ذا اجبتم المرسلین۔ اور ہم رسولوں سے بھی ضرور سوال کریں گے کہ تم نے اپنی امتوں کو ہمارا پیغام پہنچایا تھا یا نہیں اور تمہاری امتوں نے تمہارا کہنا مانا تھا یا نہیں کما قال تعالی۔ یوم یجمع اللہ الرسل فیقول ما ذا اجبتم۔ اور ان دونوں سوالون سے مقصود کافروں کی توبیخ اور سرزنش ہوگی تاکہ اس کے بعد کافر خود اپنے منہ سے حرم کا اقرار کر کے ذلیل و خوار ہوں اور ان پر انبیاء کرام کی عظمت وشان ظاہر ہو اور انبیاء کے جواب کے بعد ان پر اللہ کی حجت پوری ہو ورنہ خدا تعالیٰ عالم الغیب ہے اسے کسی سے پوچھنے کی ضرورت نہیں اور پھر ہم اپنے علم سے ان پر ان کے تمام اعمال کو تفصیل کے ساتھ بیان کریں گے اور ہم ان سے غائب نہ تھے۔ ہم سے ان کا کوئی قول وفعل مخفی نہیں تھا۔ انبیاء کرام کو ان کے اعمال کا تفصیلی نہیں اور انبیاء کرام ہر وقت ان کے ساتھ نہ تھے۔ وھو معکم این ما کنتم تو خدا تعالیٰ ہی کی شان ہے ہم تفصیل کے ساتھ ان کے تمام اعمال واحوال کو ان کے روبرو کردیں گے۔ اور پھر ان دونوں سوالوں کے بعد اتمام حجت کے لیے اس دن اعمال ظاہرہ اور باطنہ کا وزن حق ہے قیامت کے دن اول سوال و جواب ہوگا۔ پھر حساب و کتاب ہوگا اس کے بعد تمام اوعمال ظاہرہ و باطنہ کا وزن ہوگا تاکہ وزن سے ہر ایک کی حالت سب پر ظاہر اور عیاں ہوجائے اور اس امر کا مشاہدہ ہوجائے کہ حساب و کتاب کے بعد جو ثواب اور عقاب کا حکم دیا گیا ہے وہ عین حق اور عین صواب ہے پھر وزن کے بعد جس کی نیکیوں کے پلڑے بھاری ہونگے سو وہی لوگ فلاح پانے والے ہونگے اور جن کی نیکیوں کے پلڑے ہلکے ہونگے سو یہ وہی لوگ ہونگے جنہوں نے اپنی جانوں کو خسارہ میں ڈالا جس کا سبب یہ ہے کہ وہ ہماری آیتوں کے ساتھ بےانصافی کرتے تھے۔ آیتوں کا حق اور انصاف یہ تھا کہ ان پر ایمان لاتے اور ان کو قبول کرتے مگر ان لوگوں نے ہماری آیتوں کے ساتھ بےانصافی کرتے تھے۔ آیتوں کا حق اور انصاف یہ تھا کہ ان پر ایمان لاتے اور ان کو قبول کرتے مگر ان لوگوں نے ہماری آیتوں کا انکار کر کے اپنی ہی جانوں پر ظلم کیا۔ ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ اگر حسنات غالب ہوئے تو جنت ہے اور اگر سیئات غالب ہوئے تو دوزخ ہے اور اگر دونوں برابر ہوئے تو اس کے لیے سر دست اعراف تجویز ہوگی بعد میں سزا سے قبل یا بعد شفاعت سے مغفرت ہوجائے گی۔ یا خدا تعالیٰ کی رحمت سے۔ واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم۔ لطائف ومعارف 1 ۔ وزن اعمال کی کیفیت میں علماء کا اختلاف ہے جمہور علماء کا قول یہ ہے کہ نفس اعمال کا وزن ہوگا قیامت کے دن جو چیز ترازو میں رکھی جائے گی وہ اعمال ہونگے۔ اعمال اگرچہ اعراض ہیں اور غیر قائم بالذات ہیں مگر قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ان کو اجساد بنادے گا۔ یعنی قیامت کے دن اعمال کو قابل وزن جواہر بنادیا جائے گا۔ امام بغوی (رح) تعالیٰ فرماتے ہیں کہ یہ قول ابن عباس ؓ سے مروی ہے جیسا کہ حدیث صحیح میں آیا ہے کہ قیامت کے دن سورة بقرہ اور آل عمران دو بادل یا دو چھتری یا دو پرندوں کے پر کی طرح آویں گی اور حدیث میں ہے کہ مومن کے پاس قبر میں ایک خوبصورت اور خوشبو دار جوان سامنے آئیگا تو مومن اس سے پوچھے گا کہ تو کون ہے تو وہ کہے گا کہ میں تیرا عمل صالح ہوں اور کافر اور منافق کے حق میں اس کے برعکس ذکر فرمایا اور حدیث میں ہے کلمتان خفیفتان علی السان ثقیلتان فی المیزان حبیبتان الی الرحمن سبحان اللہ وبحمدہ سبحان اللہ العظیم۔ اس حدیث سے بھی نفس اعمال کا میزان میں تولا جانا ظاہر ہے۔ دوسرا قول : اور بعض علماء یہ کہتے ہیں کہ اعمال تو نہیں تولے جائیں گے بلکہ اعمال نامے تو لے جائیں گے یعنی وہ صحیفے جن میں فرشتوں نے بندہ کے اچھے اور برے اعمال لکھے ہیں وہ تولے جائیں گے جیسا کہ ترمذی اور مسند احمد کی حدیث میں آیا ہے کہ قیامت کے دن ایک شخص لایا جائے گا جس کے 99 سجل یعنی ننانوے طومار نامۂ اعمال میزان کے ایک پلے میں رکھے جائیں گے اور ہر سجل (طومار) مد بصر تک ہوگا اس کے بعد اسی شخص کا ایک بطاقہ یعنی ایک پرچۂ کاغذ لایا جائے گا جس میں لا الہ الا اللہ لکھا ہوگا وہ شخص یہ ہے کہے گا کہ اے پروردگار ان سجلات کے سامنے اس بطاقہ کی کیا ہستی ہے اللہ تعالیٰ فرمائے گا تجھ پر ظلم نہ وہ گا پھر اس بطاقہ کو ترازو کے دوسرے پلہ میں رکھ کر سب اعمال کا وزن کیا جائے گا آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں فطاشت السجلات وثقلت البطاقۃ یعنی اس وقت گناہوں کے وہ تمام طومار ہلکے ہوجائیں گے اور وہ پر چہ بھاری ہوجائیگا۔ یہ حدیث ترمذی میں ہے اور امام ترمذی (رح) تعالیٰ نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ معاملہ سب کے ساتھ نہ ہوگا بلکہ میدان حشر میں صرف ایک شخص کے ساتھ یہ معاملہ کیا جائیگا تاکہ لوگوں پر کلمہ توحید کا وزن اور ثقل ظاہر ہوجائے کہ یہ کلمہ کس قدر وزنی ہے کہ توحید کے مقابلہ میں کوئی چیز نہیں ٹھہر سکتی۔ مقصود نمونہ دکھلانا ہوگا لہذا نمونے کے لیے ایک ہی شخص کے ساتھ یہ معاملہ کیا جائیگا۔ تیسرا قول : اور بعض علماء کا قول یہ ہے کہ خود صاحب عمل کو تولا جائے گا جیسا کہ ایک حدیث میں آیا ہے کہ قیامت کے دن ایک بڑا موٹا شخص لایا جائیگا اور اس کو تولا جائے گا تو وہ ایک مچھر کے پر کے برابر بھی نہ نکلے گا بظاہر یہاں بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ معاملہ سب کافروں کے ساتھ نہ کیا جائیگا بلکہ صرف ایک کافر کے ساتھ کیا جائیگا تاکہ اہل محشر پر کافر کی خفت اور بےحقیق و بےوقعت ہونا سب کو آنکھوں سے نظر آجائے۔ حافظ ابن کثیر (رح) تعالیٰ اپنی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ ان اخبار وآثار میں توفیق اور تطبیق بھی ممکن ہے وہ یہ کہ یہ کہا جائے کہ یہ سب امور حق اور درست ہیں کبھی نفس اعمال کا وزن ہوگا اور کبھی صحائف اعمال یعنی نامہائے اعمال کا وزن ہوگا اور کبھی صاحب اعمال کا وزن ہوگا۔ ان اقوال میں سب سے زیادہ صحیح اور ارجح پہلا قول ہے کہ نفس اعمال کو تولا جائے گا اور سلف صالح اکثر اسی کے قائل ہیں اور اعمال اگرچہ بظاہر اس وقت اعراض معلوم ہوتے ہیں جو بظاہر ایسی چیز نہیں جو تولی جائے لیکن یہی اعمال جو اس دنیا میں اعراض ہیں قیامت کے دن ان کو اعیان اور اجسام کی صورت میں مجسم بنا دیا جائے گا اور خود نفس اعمال کو ترازوں میں رکھ کر تولا جائے گا جس نے عمل کو اخلاص اور بروقت اور برمحل کیا ہوگا اس کا عمل ثقیل اور وزنی ہوگا اور جس نے ریاکاری سے یا خلاف شرع کام کیا ہوگا وہ ہلکا ہوجائے گا اور عقلاً یہ جائز ہے کہ ایک ہی شئے ایک محل اور موطن میں جوہر ہو اور دوسرے موطن میں وہی عرض ہو ہر محل اور موطن کے احکام علیحدہ اور جدا ہیں آگ وجود خارجی میں محرق جلانے والی چیز ہے اور وجوز ذہنی آگ کی صورت ذہنیہ جلانے والی چیز نہیں۔ 2 ۔ احادیث صحیحہ اور متواترہ سے یہ ثابت ہے کہ قیامت کے دن ایک میزان لا کر رکھی جائے گی جس میں کفتین ( دوپلے) اور ایک لسان یعنی زبان ہوگی اس پر ایمان لانا اور اس کو حق سمجھنا ضروری ہے رہا یہ امر کہ اس میزان کے دونوں پلوں کی کیا نوعیت اور کیا کیفیت ہوگی اور اس سے وزن معلوم کرنے کا کیا طریقہ ہوگا۔ سو یہ چیزیں ہماری حیطۂ عقل اور دائرہ ادراک سے باہر ہیں اور نہ ہم اس کے جاننے کے مکل ہیں۔ عالم غیب کی چیزوں پر ایمان لانا فرض ہے اور ان کی نوعیت اور کیفیت کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کرنا چاہیے میزان کو اس حسی اور عرفی ترازو میں منحصر سمجھ لینا صحیح نہیں اسی دنیا میں دیکھ لو کہ ترازو کی کتنی قسمیں ہیں ایک میزان وہ ہے جو ریلوے اسٹیشن پر ہوتی ہے جس سے مسافروں کا سامان تلتا ہے۔۔ ان کے علاوہ ایک مقیاس الہواء اور مقیاس الحرارت ہے جس سے حرارت اور برودت کا درجہ معلوم ہوتا ہے اور ایک تھرما میٹر ہے جس سے اندرونی حرارت کا درجہ معلوم ہوتا ہے کہ کس درجہ کا بخار ہے۔ ایک میزان شعر ہے جس سے شعر کا وزن معلوم ہوتا ہے۔ پس جب دنیا میں مختلف قسم کی میزانیں موجود ہیں جن سے اعیان اور اعراض کے اوزان اور درجات کا تفاوت معلوم ہوجاتا ہے تو اس قادر مطلق کو کیا مشکل ہے کہ وہ قیامت کے دن ایک ایسی حسی اور مقداری میزان قائم کردے جس سے بندوں کے اعمال کے اوزان اور درجات اور مراتب کا تفاوت اور فرق صورۃ اور حسا ظاہر ہوجائے۔ وما ذلک علی اللہ بعزیز۔ بعض خام عقل لوگوں نے جیسے معتزلہ نے ایسی میزان کو بعید از عقل و قیاس سمجھ کر یہ کہ دیا کہ وزن سے حسی ترازو میں تولنا مراد نہیں بلکہ وزن سے عدل اور انصاف کے ساتھ فیصلہ کرنا مراد ہے یعنی اس دن نہایت جچے تلے فیصلے ہوں گے اور اس دن اعمال کا فیصلہ انصاف کے ساتھ ہوگا۔ حقیقۃً اس دن کوئی ترازو نہ ہوگی۔ مگر افسوس کہ یہ لوگ اپنی اس تاویل کے ثبوت میں سوائے اپنی عقلی استبعاد کے نہ کوئی عقلی دلیل پیش کرسکے اور نہ نقلی۔ صحابہ وتابعین سے بڑھ کر دنیا میں کون عقلمند ہوسکتا ہے جب انہوں نے اس کو تسلیم کرلیا تو عقل کا تقاضا یہ ہے کہ ہم بھی اس کو تسلیم کرلیں۔ 3 ۔ نیز اس میں بھی اختلاف ہے کہ ترازو ایک ہوگی یا متعدد ہوگی۔ صحیح قول یہ ہے کہ ترازو ایک ہوگی اور قرآن کریم میں جو بعض جگہ صیغۂ جمع آیا ہے وہ باعتبار کثرت اعمال کے ہے یا باعتبار کثرۃ اصحاب اعمال کے ہے اسی بناء پر بعض علماء نے کہا ہے کہ موازین جمع میزان کی نہیں بلکہ جمع موزون کی ہے اور مراد اعمال موزونہ ہیں۔ 4 ۔ حق تعالیٰ جل شانہ نے فاولئک ھم المفلحون سے متقین کا ذکر فرمایا اولئک الذین خسروا انفسھم میں میں کافروں کا ذکر فرمایا لیکن گنہ گار مسلمانوں کا حال ذکر نہیں فرمایا ان کا معاملہ اللہ کی مشیت کے تابع ہے جس پر چاہے رحمت فرمائے اور جس کو چاہے عذاب دے کما قال تعالیٰ ان اللہ لا یغفر ان یشرک بہ ویغفر مادون ذلک لمن یشاء 5 ۔ جس کے حسنات اور سیئات برابر ہوں گے آیت میں اس کا ذکر نہیں یہ لوگ اصحاب اعراف ہونگے ان کا مآل جنت ہوگا۔ جیسا کہ آئندہ آیت اعراف کے بیان میں آئیگا۔
Top