Tafseer-e-Mazhari - At-Tur : 32
اَمْ تَاْمُرُهُمْ اَحْلَامُهُمْ بِهٰذَاۤ اَمْ هُمْ قَوْمٌ طَاغُوْنَۚ
اَمْ تَاْمُرُهُمْ : یا حکم دیتی ہیں ان کو اَحْلَامُهُمْ : ان کی عقلیں بِھٰذَآ : اس کا اَمْ هُمْ : یا وہ قَوْمٌ طَاغُوْنَ : لوگ ہیں سرکش
کیا ان کی عقلیں ان کو یہی سکھاتی ہیں۔ بلکہ یہ لوگ ہیں ہی شریر
ام تامرھم احلامھم بھٰذا ام ھم قوم طاغون . کیا انکی عقلیں انکو اس بات کی تعلیم دے رہی ہیں یا یہ شریر لوگ ہی ہیں آخر بدر کے دن اللہ کا عذاب کافروں پر بصورت قتل آگیا۔ اَمْ تَاْمُرُھُمْ اِحْلَامُھُمْ : کیا ان کی عقلیں ان متضاد اقوال کا حکم دے رہی ہیں ‘ کاہن تو بڑا زیرک اور دقیق النظر ہوتا ہے اور مجنون بےعقل ‘ خبط الحواس اور شاعر وہ ہوتا ہے جس کا کلام بلیغ ‘ موزوں اور تخیل کا حامل ہوتا ہے اور مجنون کے کلام میں نہ وزن ہوتا ہے ‘ نہ بلاغت ‘ نہ خیال کی پرواز۔ قریش کے بڑے لوگ بہت دانش مند مانے جاتے تھے۔ اللہ نے فرمایا : ان کو تو زیرک (دانا) اور پاگل میں بھی امتیاز نہیں ہے۔ حق و باطل میں بھی تمیز نہیں کرسکتے۔ پھر کیسے عقلمند ہیں ؟ کیا اس تضاد بیانی کا حکم ان کی عقلیں دے رہی ہیں ؟ ایسا نہیں ہے۔ اَمْ ھُمْ قُوْمٌ طَاغُوْنَ : بلکہ یہ لوگ عناد و عداوت میں حد سے بڑھے ہوئے ہیں۔ قرآن اور نبی کی صداقت کی دلیل روشن ہے اور برہان و اضح ہے اس لیے انکار کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ سوائے اس کے کہ متضاد باتیں بنائیں۔
Top