Tafseer-e-Mazhari - Ash-Shu'araa : 22
اِنَّ هٰۤؤُلَآءِ مُتَبَّرٌ مَّا هُمْ فِیْهِ وَ بٰطِلٌ مَّا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ
اِنَّ : بیشک هٰٓؤُلَآءِ : یہ لوگ مُتَبَّرٌ : تباہو ہونیوالی مَّا : جو هُمْ : وہ فِيْهِ : اس میں وَبٰطِلٌ : اور باطل مَّا : جو كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ : وہ کر رہے ہیں
یہ لوگ جس (شغل) میں (پھنسے ہوئے) ہیں وہ برباد ہونے والا ہے اور جو کام یہ کرتے ہیں سب بیہودہ ہیں
ان ہولآء متبر ماہم فیہ وبطل ما کانوا یعملون۔ یہ لوگ جس (مذہب) میں ہیں وہ تباہ ہونے والا ہے اور جو کچھ کر رہے ہیں وہ بےحقیقت اور بیکار ہے۔ یعنی اللہ کا قرب اس سے نہیں ملے گا۔ اٰلہًا یعنی مورتی جس کی ہم پوجا کریں۔ بغوی نے لکھا ہے کہ بنی اسرائیل کی یہ درخواست اس بناء پر نہ تھی کہ ان کو اللہ کی وحدانیت میں کوئی شک تھا بلکہ وہ اپنی عقل کی کمزوری اور انتہائی جہالت سے یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ اس عمل سے دینداری میں کوئی خرابی نہیں آئے گی اور ہم مقرر کردہ مورتی کی تعظیم کر کے اللہ کے مقرب ہوجائیں گے۔ اتنی آیات قدرت دیکھنے کے بعد جب بنی اسرائیل نے ایسی جاہلانہ درخواست کی تو حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) نے بطور تعجب قالکہا کہ حقیقت میں تم جاہل ہو۔ مُتَبَّرتباہ و برباد یعنی اللہ ان کے دین کو تباہ کر دے گا اور ان کی مورتیوں کو ڈھا دے گا اور ریزہ ریزہ کر دے گا۔ ما کانوا یعملون یعنی یہ جو مورتیوں کی پوجا کرتے ہیں بےحقیقت اور باطل ہیں متبرّاور باطلٌ دونوں خبروں کو مبتدا سے پہلے ذکر کرنا یہ بتانے کے لئے ہے کہ ان کی بربادی ضرور ہوگی اور وہ ان کی گذشتہ عبادت گزاریاں نابود اور ناقابل اعتبار ہوں گی درحقیقت یہ بات بنی اسرائیل کو ان کی درخواست سے بازداشت کرنے اور روکنے کے لئے حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) نے فرمائی۔
Top