Tafseer-e-Mazhari - Al-Anfaal : 73
وَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا بَعْضُهُمْ اَوْلِیَآءُ بَعْضٍ١ؕ اِلَّا تَفْعَلُوْهُ تَكُنْ فِتْنَةٌ فِی الْاَرْضِ وَ فَسَادٌ كَبِیْرٌؕ
وَالَّذِيْنَ : اور وہ لوگ جو كَفَرُوْا : انہوں نے کفر کیا بَعْضُهُمْ : ان کے بعض اَوْلِيَآءُ : رفیق بَعْضٍ : بعض (دوسرے) اِلَّا تَفْعَلُوْهُ : اگر تم ایسا نہ کروگے تَكُنْ : ہوگا فِتْنَةٌ : فتنہ فِي : میں الْاَرْضِ : زمین وَفَسَادٌ : اور فساد كَبِيْرٌ : بڑا
اور جو لوگ کافر ہیں (وہ بھی) ایک دوسرے کے رفیق ہیں۔ تو (مومنو) اگر تم یہ (کام) نہ کرو گے تو ملک میں فتنہ برپا ہو جائے گا اور بڑا فساد مچے گا
والذین کفروا بعضھم اولیاء بعض اور وہ جو کافر ہیں ‘ وہ باہم ایک دوسرے کے دوست ہیں۔ مقصد یہ ہے کہ کافروں سے دوستی کرنی اور (مسلمانوں کے خلاف) ان کی مدد کرنی مؤمنوں کیلئے جائز نہیں۔ حضرت اسامہ بن زید کی روایت سے بخاری و مسلم نے صحیحین میں اور اصحاب السنن نے اپنی اپنی کتابوں میں لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : نہ مسلمان ‘ کافر کا وارث ہوتا ہے اور نہ کافر ‘ مسلم کا۔ سورة النساء میں آیت میراث کی تفسیر میں ہم نے اس کی توضیح کردی ہے۔ مسئلہ : مبسوط میں ذکر کیا گیا ہے کہ اگر کچھ حربی کافر دارالحرب میں کسی کافر بستی پر حملہ کردیں اور اس بستی کے باشندوں کو لوٹیں اور وہاں کافر بھی رہتے ہوں اور مستامن مسلمان بھی ‘ تو مسلمانوں کیلئے بستی والے کافروں کی مدد کرنی جائز نہیں ‘ ہاں اگر اپنی جان و مال کا اندیشہ ہو تو حملہ کرنے والوں سے مقابلہ کرنا جائز ہے کیونکہ لڑائی میں مقابلہ کرنے کا معنی ہے اپنی جان دینے کیلئے تیار ہوجانا اور مسلمان کی جان صرف اللہ کا بول بالا کرنے اور دین کی عزت کو قائم رکھنے کیلئے دی جاسکتی ہے یا اپنے اوپر سے ضرر کو دفع کرنے کیلئے۔ اگر اپنی جان و مال کا اندیشہ نہ ہو تو کسی مسلمان کیلئے جائز نہیں کہ بستی کے کافروں کی حملہ کرنے والے کافروں کے مقابلہ میں مدد کرے۔ کافروں کی حمایت میں جان دینا درست نہیں۔ مسئلہ : اگر دارالحرب میں کافروں کے ساتھ کچھ مسلمان بھی امن کا معاہدہ کر کے رہتے ہوں اور یہ کافر دارالحرب سے باہر کسی مسلمان گروہ پر حملہ کر کے ان کے بیوی بچوں کو گرفتار کر لائیں اور قیدیوں کو لے کر بستی والے مسلمانوں کی طرف سے گذریں تو اس بستی کے مسلمان باشندوں کا فرض ہے کہ وہ اپنے ہم وطن لٹیروں سے لڑ کر مسلمان قیدیوں کو رہا کرائیں ‘ خواہ یہ قیدی خارجی ہی ہوں کیونکہ مسلمانوں کو قید کرنے سے یہ کافر ‘ مسلمانوں کے مالک نہیں بن جاتے۔ اب اگر کافروں کے قبضہ میں مسلمانوں کو رہنے دیا جائے گا تو یہ ظلم کی حمایت ہوگی۔ ہاں اگر مسلمانوں کا صرف مال لوٹ کر لائے ہوں تو چونکہ امام ابوحنیفہ کے نزدیک حربی کافر ‘ مسلمانوں سے لوٹے ہوئے مال کے مالک بن جاتے ہیں اور بستی میں رہنے والے مسلمانوں نے ان سے معاہدہ کرلیا ہے کہ جس مال پر تم قابض ہو گے ‘ اس سے تعرض نہیں کریں گے ‘ اسلئے دارالسلام سے لوٹے ہوئے مال کو چھڑانے کیلئے اپنے وطنی حربی کافروں سے جنگ جائز نہیں۔ الا تفعلوہ لکن فتنۃ فی الارض و فساد کبیر۔ اگر تم ایسا نہ کرو گے تو زمین میں فتنہ اور بگاڑ ہوجائے گا۔ یعنی تم کو جو باہمی امداد و حمایت کرنے اور کافروں سے تعلقات منقطع کرنے یہاں تک کہ میراثی سلسلہ توڑ دینے کا حکم دیا گیا ہے ‘ اگر اس کی تعمیل نہ کرو گے (اور باہم امداد نہ کرو گے ‘ یا کافروں کی حمایت کرو گے) تو ملک میں ایک فتنہ یعنی کفر کا غلبہ پیدا ہوجائے گا اور بڑا بگاڑ ہوجائے گا۔ یعنی جہاد ترک کرنے اور کافر و مؤمن کے اختلاط رکھنے کی وجہ سے اسلام کمزور ہوجائے گا۔
Top