Mualim-ul-Irfan - Al-Muminoon : 18
وَ اَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَآءِ مَآءًۢ بِقَدَرٍ فَاَسْكَنّٰهُ فِی الْاَرْضِ١ۖۗ وَ اِنَّا عَلٰى ذَهَابٍۭ بِهٖ لَقٰدِرُوْنَۚ
وَاَنْزَلْنَا : اور ہم نے اتارا مِنَ السَّمَآءِ : آسمانوں سے مَآءً : پانی بِقَدَرٍ : اندازہ کے ساتھ فَاَسْكَنّٰهُ : ہم نے اسے ٹھہرایا فِي الْاَرْضِ : زمین میں وَاِنَّا : اور بیشک ہم عَلٰي : پر ذَهَابٍ : لے جانا بِهٖ : اس کا لَقٰدِرُوْنَ : البتہ قادر
اور اتارا ہم نے آسمان کی طرف سے پانی ایک خاص اندازے کے ساتھ۔ پس ہم نے اس (پانی) کو ٹھہرا دیا زمین میں۔ اور بیشک ہم اس کو لے جانے پر بھی قادر ہیں
ربط آیات : اللہ تعالیٰ نے درس توحید کے سلسلے میں اپنی قدرت کے کچھ نمونے بیان فرمائے ہیں۔ پہلے انسان کی تخلیق کے مختلف مراحل کا ذکر کیا اور پھر انتہائے عمر تک کے حالات بیان کیے۔ درمیان میں اپنی کبریائی کا ذکر بھی کیا فتبرک اللہ احسن الخالقین یعنی اللہ تعالیٰ کی ذات بڑی ہی برکتوں والی اور بہترین خالق ہے وہی معبود برحق ہے اور اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ اس زندگی کے بعد اللہ نے انسان کی موت کا ذکر بھی کیا اور پھر قیامت کو دوبارہ اٹھائے جانے کی بات ہوئی۔ اللہ نے آسمان کے ساتھ طبقات کا ذکر بھی کیا اور یہ بھی کہ اللہ کے فرشتے آسمانوں کے مختلف مقامات پرچلتے ہیں اور اس مقصد کے لئے ان کے راستے مقرر ہیں۔ اللہ نے آخر میں فرمایا کہ ہم اپنی پیدا کردہ مخلوق سے غافل نہیں ہیں بلکہ ہم ان کی مصلحت کو خوب جانتے ہیں۔ پانی کی نعمت : اب اسی سلسلہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کی کچھ مزید نشانیوں کا ذکر کیا ہے ابتداء میں پانی کا ذکر ہے وانزلنا من السماء مآء اور ہم نے آسمان کی طرف سے پانی نازل کیا۔ عربی زبان میں ہر بلند چیز پر سما کا لفظ بولا جاتا ہے۔ جس میں آسمان ، فضا اور بادل وغیرہ شامل ہیں۔ بارش بادلوں کے ذریعے برستی ہے اور یہ بھی فضا میں ہوتے ہیں اس لئے یہاں بھی سما کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ سما سے مراد صرف بادل نہیں جو بارش کا ذریعہ بنتے ہیں ، بلکہ اس سے یہ بھی مراد ہے کہ بارش کے نزول کا حکم اوپر سے آتا ہے تو بارش برستی ہے ورانہ نہیں ، اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے اللہ نے فرمایا وفی السماء …………توعدون (الذریت 23) یعنی تمہاری روزی آسمان میں ہے۔ وہاں سے حکم آتا ہے تو روزی ملتی ہے اسی طرح جب اوپر سے اللہ تعالیٰ کا حکم آتا ہے تو بارش بھی ہوتی ہے۔ تو فرمایا ہم نے آسمان کی طرف سے پانی نازل کیا ، اور یہ نزول بھی بقدر ایک خاص اندازے کے ساتھ ہوتا ہے نہ کہ بےتحاشا۔ جس قدر اللہ کی مصلحت ہوتی ہے اس کے مطابق بارش ہوجاتی ہے ، بعض اوقات اللہ کی مصلحت میں ضرورت سے زیادہ بارش ہوتی ہے جس کی وجہ سے سیلاب آکر نقصان کا باعث بھی بنتے ہیں بہرحال بارش برسانے کے مقام ، وقت اور مقدار کا تعین اللہ تعالیٰ کی حکمت بالغہ پر موقوف ہوتا ہے ۔ دراصل ہر چیز کے خزانے اللہ تعالیٰ کے پاس ہیں جیسے فرمایا ، وان من……………معلوم (الحجر 21) ہر چیز کے خزانے ہمارے پاس ہیں اور ہم انہیں ایک خاص اندازے کے مطابق اتارتے ہیں۔ بارش کا خزانہ بھی اللہ تعالیٰ کے پاس ہے ، اور وہ اسے اپنی مشیت کے مطابق نازل فرماتا ہے۔ فرمایا ، ہم نے پانی اتارا فاسکنہ فی الارض اور پھر ہم نے اسے زمین میں ٹھہرا دیا یعنی اس کو زمین کے اندر جذب کرلیا۔ بارش کا کچھ پانی زمین کی سطح کے اوپر رہ جاتا ہے ، کچھ حصہ زمین جذب کرلیتی ہے اور کچھ حصہ زمین کی نچلی تہہ میں ذخیرہ کردیا جاتا ہے جو کہ عام طور پر پہاڑی علاقوں میں چشموں کی صورت میں بہ نکلتا ہے۔ دوسری جگہ فرمایا ، کیا تم نے نہیں دیکھا کہ ہم نے آسمان کی طرف سے پانی نازل کیا فسل کہ ینابیع فی الارض (الزمر 21) پھر اسے زمین میں چشموں کی صورت میں چلا دیا۔ جس سے انسان اور حیوان سیراب ہوتے ہیں۔ پانی کے زیر زمین ذخیرہ سے کنوئوں اور ٹیوب ویلوں کے ذریعے پانی نکالا جاتا ہے جو انسانوں ، حیوانوں اور نباتات کی آبیاری کرتا ہے۔ البتہ ریگستانی علاقوں میں پانی بہت گہرائ میں ہوتا ہے۔ اس لئے اسے نکالنے کے لئے بہت زیادہ محنت اور رقم درکار ہوتی ہے۔ بعض اوقات پانی میں تیل کی ملاوٹ بھی ہوتی ہے جسے بڑے بڑے پلانٹوں کے ذریعے صاف کرکے قابل استعمال بنایا جاتا ہے ، آگے پانی کی اسی نایابی کی طرف اشارہ ہے وانا علی ذھاب بہ لقدرون اور ہم اس پانی کو کہیں دور لے جانے پر بھی قادر ہیں۔ جب اللہ تعالیٰ کو اس پانی کے ذریعے انسان کی مصلحت منظور ہوتی ہے تو وہ اسے زرخیز زمین پر برساتا ہے۔ جس سے پھل ، پھول اور اناج پیدا ہوتے ہیں۔ پہاڑوں سے چشمے اور ندی نالی جاری ہوتے ہیں جو ساراسال پانی کی ضروریات پوری کرتے رہتے ہیں۔ اور جب اسے منظور نہیں ہوتا تو ایسی چٹانوں پر بارش برساتا ہے جس کا کچھ فائدہ نہیں ہوتا۔ یا وہ زمین کے اندر اتنی دور لے جاتا ہے کہ اس کا نکالنا مشکل ہوجاتا ہے ، بہرحال فرمایا کہ ہم آسمان کی طرف سے ایک اندازے کے مطابق باپنی نازل کیا اور پھر اسے زمین میں ٹھہرا دیا اور ہم اسے لے جانے پر بھی قادر ہیں۔ پھلوں کی پیداوار : آگے اللہ نے نازل کردہ پانی کی افادیت کا ذکر کیا فانشانا لکم بہ جنت من نخیل واعناب اس کے ذریعے ہم نے تمہارے لئے کھجوروں اور انگوروں کے باغات پیدا کیے۔ جب پانی میسر آتا ہے تو سبزہ ، درخت اور اناج پیدا ہوتا ہے۔ یہاں پر اللہ نے باغات کا ذکر کیا ہے اور ان میں بھی خاص طور پر کھجور اور انگور کا کیونکہ یہ دونوں پھل انسان کے لئے نہایت ہی کار آمد ہیں۔ کھجور ایک سدا بہار درخت ہے جس کا پھل جلدی خراب نہیں ہوتا اور یہ سارا سال بطور غذا استعمال ہوسکتا ہے۔ صحرائی علاقوں میں غذا کا سب سے بڑا ذریعہ کھجور ہی ہے۔ اسی طرح انگور بھی بڑی کار آمد چیز ہے۔ یہ پھل بیک وقت غذا اور مشروب کا کام دیتا ہے۔ اس کے استعمال سے خون کثرت سے پیدا ہوتا ہے جو انسانی زندگی کا لازمی جزو ہے۔ انسانی جسم کے لئے شکر بھی نہایت ضروری ہے اور انگور شکر کی بہترین قسم مہیا کرکے انسان کو تندرست و توانا رکھتا ہے۔ گرم ممالک کا انگور زیادہ میٹھا نہیں ہوتا ، البتہ سرد علاقوں کا انور بہت شیریں ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں یہ دونوں پھل نہایت مفید ہیں ، اس لئے ان کا یہاں پر خاص طور پر ذکر کیا گیا ہے۔ فرمایا لکھ فیھا فوالہ کثیرۃ ومنھا تاکلون۔ تمہارے لئے ان میں بہت سے پھل ہیں اور تم ان میں سے کھاتے ہو۔ جیسا کہ پہلے عرض کیا کہ یہ دونوں پھل نہایت لذیذ ، مقوی اور دیرپا ہیں ، اور یہ سارا سال استعمال ہوتے ہیں۔ حدیث شریف میں کھجور کو مرد مومن کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے۔ جس طرح ایک ایماندار آدمی عبادت و ریاضت میں مصروف رہتا ہے ، وہ مکارم اخلاق کا نمونہ ہوتا ، خدمت خلق اس کا وطیرہ ہوتا ہے اسی طرح کھجور کا درخت بھی ہمیشہ سرسبز رہتا ہے اور اس کا پھل ہمیشہ کار آمد رہتا ہے۔ زیتون کا درخت : آگے ایک اور درخت کا اللہ نے ذکر فرمایا ہے وشجرۃ تخرج من طور سینائ ، ہم نے پانی کے ذریعے ایک اور درخت پیدا فرمایا جو طور سینا سے بکثرت نکلتا ہے۔ اس سے مراد زیتون کا درخت ہے یہ اگرچہ دوسرے مقامات پر بھی ملتا ہے مگر اس کا اصل وطن طور سینا یعنی سرزمین شام و فلسطین ہے۔ اس خطہ کی زمین اس درخت کے لئے زیادہ موزوں ہے اسی لئے یہ درخت وہاں پر پھل بھی زیادہ دیتا ہے۔ اس درخت کی خصوصیت یہ ہے تنبت باالدھن یہ تیل یار وغن اگاتا ہے۔ زیتون میں تیل کا مقدار بکثرت موجود ہوتی ہے جو کہ دوائی اور غذائی لحاظ سے استعمال کیا جاتا ہے۔ کئی ایک بیماریوں میں اس تیل کی مالش بہت مفید ہے ، اور مشرق وسطیٰ کے اکثر ممالک میں کھانا پکانے کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے گویا یہ تیل گھی کا کام بھی دیتا ہے۔ اس کے علاوہ وصبغ لاکلین یہ کھانے والوں کے لئے سالن کا کام بھی دیتا ہے عام طور پر لوگ سالن میں روٹی کا لقمہ ڈبو کر کھاتے ہیں۔ تاہم جن علاقوں میں زیتون بکثرت ہوتا ہے وہاں اس کے ساتھ روٹی بھی کھاتے ہیں ۔ غرضیکہ اللہ تعالیٰ نے یہ عجیب و غریب قسم کا درخت پیدا کیا ہے جس کا پھل بھی کھایا جاتا ہے اور اس کا روغن بھی مختلف طریقوں سے استعمال ہوتا ہے ، اس درخت کی طویل العمری کے متعلق شاہ عبدالعزیز محدث (رح) فرماتے (تفسیر عزیزی فارسی ص 298 پ 30 (فیاض) ہیں کہ شام و فلسطین کے علاقے میں زیتون کے بعض درخت دو ہزار سال پرانے ہیں اور یہ یونانیوں کے زمانے سے پھل دیتے آرہے ہیں۔ اس کا چھلکا اور پتے بھی کار آمد ہوتے ہیں۔ ترمذی شریف کی روایت میں آتا ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا کلوا الزیت وادھنوا بہ فانہ من شجرۃ مبارکۃ زیتون کا تیل بھی کھائو اور اس کی مالش بھی کرو کیونکہ یہ مبارک درخت کی پیداوا رہے۔ بعض فرماتے ہیں کہ بعض نبیوں نے اس کی برکت کے لئے دعائیں کیں ، اس لئے اللہ نے اس کو بابرکت بنایا ہے۔ مویشیوں کا دودھ : زمبنی پیداوار کے تذکرے کے بعد اللہ نے فرمایا وان لکم فی الانعام لعبرۃ بیشک تمہارے لئے چوپائوں میں عبرت کا سامان ہے یہ جانور مختلف طریقوں سے تمہاری خدمت کرتے ہیں۔ تم نہ صرف ان کے بال ، کھال ، اون اور گوشت استعمال کرتے ہو ، اور بعض سواری اور باربرداری کے کام بھی آتے ہیں ، بلکہ نسقیکم مما فی بطونھا ہم تمہیں پلاتے ہیں اس میں جو ان کے پیٹوں میں ہے۔ ظاہر ہے کہ اس سے دودھ مراد ہے جس کے متعلق سورة النحل میں وضاحت کے ساتھ موجود ہے نسقیکم……………للشربین (آیت 66) ہم تمہیں مویشیوں کے پیٹوں کی چیز پلاتے ہیں جو گوبر اور خون کے درمیان سے گزرتی ہے اور یہ خالص دودھ ہے جو نہایت خوشگوار ہے۔ اللہ نے جانوروں کے پیٹ کے اندر ایسا ملک پلانٹ لگادیا ہے جس کے متعلق حضور ﷺ کا فرمان بھی ہے کہ لیس شیء یجزء مکان الطعام والشرب غیر اللبن (ترمذی ص 582) یعنی دودھ کے قائم مقام دنیا میں کوئی چیز نہیں ہے۔ جو کھانے اور پینے دونوں کے لئے کفایت کرے۔ یہ ایسی بےمثال چیز ہے جو بیک وقت غذا اور مشروب کا کام دیتی ہے۔ خود جانوروں کے بچے کچھ عرصہ تک اسی دودھ پر گزارہ کرتے ہیں اور انسانوں کے بچے تو دواڑھائی سال تک دودھ پیتے رہتے ہیں۔ حضور ﷺ نے فرمایا کہ جس شخص کو اللہ دودھ کی نعمت عطا کرے اسے یوں دعا کرنا چاہیے اللھم زدنا منہ اے اللہ ! اس میں ہمارے لئے اضافہ فرما۔ دیگر نعمتوں کے متعلق حکم ہے کہ اس کا شکریہ ادا کرو اور ساتھ دعا کرو کہ اے اللہ ! ہمیں اس سے بہتر نعمت عطا فرما ، مگر دودھ میں صرف اضافہ کی دعا ہے کیونکہ اس سے بہتر کوئی چیز نہیں۔ اس میں انسانی غذا کے تمام عناصر من جملہ شکر ، پروٹین ، کیلشیم نمکیات ، نشاستہ ، وٹامن اور روغنیات پائے جاتے ہیں۔ جس طرح مصنوعی گھی اصلی گھی کا بدل نہیں اسی طرح مصنوعی دودھ بھی خدا کے پیدا کردہ دودھ کا کسی طور مقابلہ نہیں کرسکتا۔ مویشیوں کے دیگر فوائد : فرمایا ، ولکم فیھا منافع کثیرۃ ، تمہارے لئے ان جانوروں میں اور بھی بہت سے فوائد ہیں۔ ان کی کھال ، اون ، پشم ، ہڈیاں ، چربی اور سینگ وغیرہ سب مفید چیزیں ہیں اور انسانوں کے کام آتی ہیں۔ نیز ومنھا تاکلون تم ان میں سے کھاتے بھی ہو ، یعنی ان کا گوشت تمہاری خوراک کا حصہ ہے۔ یہ وہی چار قسم کے حلال جانور اونٹ ، گائے ، بھیڑ اور بکری ہیں جن کو اللہ نے حلال قرار دیا ہے اور جنہیں انسانی صحت کے ساتھ خصوصی مناسبت ہے۔ اسی لئے یہ جانور روحانی اور جسمانی لحاظ سے انسان کے لئے مفید ہیں۔ برخلاف اس کے انسانی صحت پر منفی اثرات ڈالنے والے جانوروں کو اللہ نے حرام قرار دیا ہے۔ امام شاہ ولی اللہ (رح) فرماتے ہیں کہ حرام جانور کھانے سے اخلاق پر بھی برے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ مثلاً خونخوار جانوروں کا گوشت کھانے سے انسان میں بھی درندگی والی صفت پیدا ہوتی ہے۔ کتا ، بلی ، شکرا ، باز وغیرہ کھانے سے چھینا جھپٹی کی خصلت پیدا ہوتی ہے اور خنزیر کا گوشت استعمال کرنے سے بےغیرتی کا مادہ پیدا ہوتا ہے۔ سواری کے ذرائع : فرمایا وعلیھا وعلی الفلک تحملون اور بعض جانور ایسے ہیں جو سواری کا کام دیتے ہیں۔ اسی طرح کشتیاں بھی تمہارے لئے نقل وحمل کا ذریعہ ہیں۔ جانوروں میں اونٹ ، گھوڑا ، خچر ، گدھا ، بیل وغیرہ ایسے جانور ہیں جو قدیم زمانے سے نقلوحمل کے لئے استعمال ہو رہے ہیں۔ اگرچہ سائنسی دور میں اب تیز ترین سواریاں بھی ایجاد ہوچکی ہیں مگر قرآن پاک کے نزول کے زمانے میں یہی سواریاں تھیں جن کا ذکر کیا گیا ہے۔ بعض دور افتاوہ مقامات میں اب بھی یہی سواریاں کام دیتی ہیں۔ سورة النحل میں اللہ کا ارشاد ہے کہ اونٹ ، گھوڑے اور گدھے تمہاری سواری اور زینت کا سامان ہیں ویخلق……تعلمون (آیت 8) ان کے علاوہ اللہ ایسی چیزیں بھی پیدا کرتا ہے جن کو تم نہیں جانتے۔ ظاہر ہے کہ اس حملے میں وہ تمام سواریاں آجاتی ہیں جو اس زمانے میں نہیں تھیں مگر قیامت تک ایجاد ہوتی رہیں گی۔ اس وقت ہمارے سامنے سائیکل ، موٹر سائیکل ، موٹر کار ، ریل گاڑی ، بحری جہاز اور ہوائی جہاز جیسی سواریاں موجود ہیں ، جو آج تیز ترین سواریاں سمجھی جاتی ہیں۔ آج یہ ہوائی جہاز ہی ہے جس کی بدولت پاکستان کے ساٹھ ستر ہزار حاجی ہزاروں میل کا سفر طے کرتے ہیں اور چار ہفتے میں حج کرکے واپس آجاتے ہیں۔ اس زمانے میں بادبانی کشتیاں ہوتی تھیں جو سواری اور باربرداری کا کام دیتی تھیں یہ کشتیاں ہوا کے رخ پر چپوئوں کے ذریعے چلتی تھیں۔ ان پر بڑے بڑے بادبان باندھ دیے جاتے تھے۔ مگر اب بحری سواریوں کے لئے موٹر لانچیں اور بڑے بڑے بحری جہاز ایجاد ہوچکے ہیں جو تیز رفتار بھی ہیں اور لاکھوں ٹن سامان ایک ملک سے دوسرے ملک میں لے جاتے ہیں۔ یہ تو اس زمانے کی بات ہے ، ہوسکتا ہے کہ آمدہ زمانے میں اس سے بھی مفید سواریاں ایجاد ہوجائیں جن سے آج ہم بےبہرہ ہیں۔ بہرحال اللہ نے فرمایا کہ جن جانوروں اور کشتیوں کے ذریعے تم اپنی ضروریات پوری کر رہے ہو۔ یہ خدا کی قدرت کے نمونے ہیں۔ اگر اب بھی تم اللہ کی وحدانیت کو تسلیم نہیں کرتے ، بلکہ مخلوق کو خدا کی کرسی پر بٹھاتے ہو ، تو اس کا نتیجہ ذلت ورسوائی کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔ یہاں پر کشتی کے ذکر کی مناسبت سے اگلی آیات میں حضرت نوح (علیہ السلام) کی تبلیغ ، قیامت ، توحید اور دلائل قدرت کا ذکر آرہا ہے۔
Top