Maarif-ul-Quran - Al-Muminoon : 18
وَ اَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَآءِ مَآءًۢ بِقَدَرٍ فَاَسْكَنّٰهُ فِی الْاَرْضِ١ۖۗ وَ اِنَّا عَلٰى ذَهَابٍۭ بِهٖ لَقٰدِرُوْنَۚ
وَاَنْزَلْنَا : اور ہم نے اتارا مِنَ السَّمَآءِ : آسمانوں سے مَآءً : پانی بِقَدَرٍ : اندازہ کے ساتھ فَاَسْكَنّٰهُ : ہم نے اسے ٹھہرایا فِي الْاَرْضِ : زمین میں وَاِنَّا : اور بیشک ہم عَلٰي : پر ذَهَابٍ : لے جانا بِهٖ : اس کا لَقٰدِرُوْنَ : البتہ قادر
اور آسمان سے ہم نے ٹھیک حساب کے مطابق ایک خاص مقدار میں پانی اتارا اور اس کو زمین میں ٹھیرا دیا ہم اُسے جس طرح چاہیں غائب کر سکتے ہیں
وَاَنْزَلْنَا [ اور ہم نے اتارا ] مِنَ السَّمَاۗءِ [ آسمان سے ] مَاۗءًۢ [ کچھ پانی ] بِقَدَرٍ [ ایک اندازے سے ] فَاَسْكَنّٰهُ [ پھر ہم نے ٹھہرایا اس کو ] فِي الْاَرْضِ ڰ [ زمین میں ] وَ [ حالانکہ ] اِنَّا [ بیشک ہم ] عَلٰي ذَهَابٍۢ بِهٖ [ اس کو لے جانے پر ] لَقٰدِرُوْنَ [ یقینا قدرت رکھنے والے ہیں ] نوٹ ۔ 2: آسمان سے پانی اتارنے سے مراد اگرچہ موسمی بارش بھی ہوسکتی ہے لیکن آیت کے الفاظ پر غور کرنے سے ایک دوسرا مطلب بھی سمجھ میں آتا ہے ۔ اور وہ یہ ہے کہ آغاز آفرینش میں اللہ تعالیٰ نے بیک وقت اتنی مقدار میں پانی زمین پر نازل فرما دیا تھا جو قیامت تک اس کرہ ارض کی ضروریات کے لئے اس کے علم میں کافی تھا ۔ وہ پانی زمین کے نشیبی حصوں میں ٹھہر گیا جس سے سمندر وجود میں آئے اور زیر زمین پانی پیدا ہوا اب یہ اسی پانی کا الٹ پھیر ہے جو گرمی ، سردی اور ہواؤں کے ذریعے سے ہوتا رہتا ہے ۔ اسی پانی کو بارشیں ، برف پوش پہاڑ ، دریا ، چشمے اور کنویں زمین کے مختلف حصوں میں پھیلاتے رہتے ہیں ۔ شروع سے آج تک پانی کے اس ذخیرے میں ایک قطرے کی بھی کمی یا اضافہ کرنے ضرورت پیش نہیں آئی ۔ اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ پانی کی حقیقت آج ہر مدرسہ کے طالب علم کو معلوم ہے کہ وہ ہائیڈروجن اور آکسیجن ، دو گیسوں کے امتزاج سے بنا ہے ۔ ایک دفعہ اتنا بن گیا کہ اس سے سمندر بھر گئے اور اب اس کے ذخیرے میں ایک قطرے کا بھی اضافہ نہیں ہوتا ، وہ کون ہے جس نے ایک وقت میں اتنی ہائیڈروجن اور آکسیجن ملا کر اتنا پانی بنادیا ۔ وہ کون ہے جو اب انہی دو گیسوں کو اس خاص تناسب سے نہیں ملنے دیتا ، جس سے پانی بنتا ہے ۔ حالانکہ دونوں گیسیں اب بھی دنیا میں موجود ہیں ۔ اور جب پانی بھاپ بن کر ہوا میں اڑ جاتا ہے تو اس وقت کون ہے جو ہائیڈروجن اور آکسیجن کو الگ الگ ہونے سے روکے رکھتا ہے ۔ کیا دہریوں کے پاس اس کا کوئی جواب ہے ۔ (تفہیم القرآن) اس وضاحت سے انا علی ذھاب بہ لقدرون کا مطلب بھی پوری طرح واضح ہوجاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ پانی سے گیسوں کو الگ الگ کردے توگیسیں باقی رہ جائیں گی اور پانی ختم ہوجائے گا۔
Top