Al-Qurtubi - Al-Muminoon : 18
وَ اَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَآءِ مَآءًۢ بِقَدَرٍ فَاَسْكَنّٰهُ فِی الْاَرْضِ١ۖۗ وَ اِنَّا عَلٰى ذَهَابٍۭ بِهٖ لَقٰدِرُوْنَۚ
وَاَنْزَلْنَا : اور ہم نے اتارا مِنَ السَّمَآءِ : آسمانوں سے مَآءً : پانی بِقَدَرٍ : اندازہ کے ساتھ فَاَسْكَنّٰهُ : ہم نے اسے ٹھہرایا فِي الْاَرْضِ : زمین میں وَاِنَّا : اور بیشک ہم عَلٰي : پر ذَهَابٍ : لے جانا بِهٖ : اس کا لَقٰدِرُوْنَ : البتہ قادر
اور ہم ہی نے آسمان سے ایک اندازے کے ساتھ پانی نازل کیا پھر اس کو زمین میں ٹھہرا دیا اور ہم اس کے نابود کردینے پر قادر ہیں
آیت نمبر 18 اس میں چار مسائل ہیں۔ مسئلہ نمبر 1 ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق پر جو نعمتیں فرمائیں اور جو ان پر احسانات فرمائے ان میں سے ایک یہ آیت بھی ہے اس کے احسانات میں سے بڑا احسان پانی ہے جو انسانی بدن کی زندگی اور حیوان کی نمو کا باعث ہے۔ آسمان سے نازل ہونے والے پانی کی دو قسمیں ہیں۔ یہ جس کا اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا اور جس کے بارے خبر دی کہ اسے اس نے زمین کے اندر رکھا ہے اور اسے انسانوں کے پینے کے لئے خزانہ کیا ہے جس کو لوگ ضرورت کے وقت حاصل کرتے ہیں اور وہ نہروں، چشموں اور کنوئوں کا پانی ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ وغیرہ سے مروی ہے کہ یہاں چار پانیوں کا ارادہ فرمایا ہے۔ سیحان، جیحان، نیل اور فرات۔ مجاہد نے کہا : زمین میں کوئی پانی نہیں ہے مگر وہ آسمان سے آیا ہے۔ یہ مطلق نہیں ہے وگرنہ کھاری پانی زمین میں ثابت ہے۔ ممکن ہے یہ مجاہد کا قول میٹھے پانی سے مقید ہو۔ لا محالہ اللہ تعالیٰ نے زمین میں پانی رکھا ہے اور آسمان سے بھی پانی اتارا ہے۔ بعض نے کہا : وانزلنا من السماء ماء میٹھے پانی کی طرف اشارہ ہے اور اس کی اصل سمندر سے ہے۔ اللہ تعالیٰ اسے اپنے لطف اور حسن تقدیر سے سمندر سے آسمان کی طرف اٹھاتا ہے حتیٰ کہ وہ اس اٹھائے جانے کے ساتھ میٹھا ہوجاتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ اسے زمین کی طرف اتارتا ہے تاکہ اس سے نفع حاصل کیا جائے اگر معاملہ سمندر کے پانی تک ہوتا تو اس کی ملاحت کی وجہ سے اس سے نفع حاصل نہ کیا جاتا۔ مسئلہ نمبر 2 ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : بقدر، اس مقدار پر جو اصلاح کرنے والی ہے کیوں کہ اگر بارش زیادہ ہوتی تو نقصان کرتی اسی سے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے وان من شیء الا عندنا خزائنہ وما ننزلہ الا بقدر معلوم (الحجر) ۔ اور ارشاد ہے : وانا علیٰ ذھاب بہ لقدرون۔ یعنی اس خزانہ شدہ پانی کو لے جا نے پر بھی قادر ہیں۔ یہ تہدید اور وعید ہے یعنی اس کا نیچے لے جانا ہماری قدرت میں ہے اور لوگ پیاس کی وجہ سے ہلاک ہوجائیں گے اور مویشی مرجائیں گے یہ اس قول کی طرح ہے : قل ارئیتم ان اصبح مائوکم غورا فمن یاتیکم بماء معین۔ (الملک) مسئلہ نمبر 3 ۔ نحاس نے ذکر کیا ہے کہ ابویعقوب اسحاق بن ابراہیم بن یونس پر پڑھا گیا انہوں نے جامع بن سوارہ سے روایت کیا ہے فرمایا ہمیں سعید بن سابق نے بتایا فرمایا ہمیں مسلمہ بن علی نے بتایا انہوں نے مقاتل بن حیان سے انہوں نے عکرمہ سے انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے انہوں نے نبی کریم ﷺ سے روایت کیا ہے فرمایا : اللہ نے جنت سے زمین کی طرف پانچ نہریں اتاریں۔ (تاریخ بغداد، جلد 1، صفحہ 57) ۔ سیحون، یہ ہند کی نہر ہے۔ جیجون، یہ بلخ کی نہر ہے۔ دجلہ اور فرات، یہ عراق کے دریا ہیں۔ نیل مصر کی نہر ہے۔ اللہ نے جنت کے چشموں میں سے ایک چشمہ سے انہیں اتارا ہے۔ جنت کے درجات میں سے نچلے درجے سے جبریل کے دونوں پروں پر نکالیں پھر انہیں پہاڑوں میں ودیعت کیا اور زمین میں انکا اجرا فرمایا اور ذرائع معاش میں لوگوں کے لئے ان میں منافع رکھے۔ اللہ کا ارشاد ہے وانزلنا من السماء ماء بقدر فاسکنہ فی الارض جب یاجوج وماجوج کا خروج ہوگا تو اللہ جبریل کو بھیجے گا اور زمین سے قرآن، علم اور پانچوں نہریں اٹھا لے گا پھر وہ انہیں آسمان کی طرف لے جائے گا۔ اللہ کے ارشاد وانا علیٰ ذھاب بہ لقدرون۔ سے یہی مراد ہے۔ جب یہ تمام اشیاء زمین سے اٹھا لی جائیں گی تو زمین میں بسنے والے دین ودنیا کی خیر کو مقفود پائیں گے۔ مسئلہ نمبر 4 ۔ ہر پانی جو آسمان سے نازل ہوا خواہ وہ خزانہ شدہ ہے یا خزانہ شدہ نہیں ہے وہ پاک ہے اور پاک کرنے والا ہے۔ اس سے غسل اور وضو کیا جائے گا۔ جیسا کہ سورة الفرقان میں اس کا بیان ہوگا۔
Top