Tafseer-e-Mazhari - An-Nisaa : 103
وَ اَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَآءِ مَآءًۢ بِقَدَرٍ فَاَسْكَنّٰهُ فِی الْاَرْضِ١ۖۗ وَ اِنَّا عَلٰى ذَهَابٍۭ بِهٖ لَقٰدِرُوْنَۚ
وَاَنْزَلْنَا : اور ہم نے اتارا مِنَ السَّمَآءِ : آسمانوں سے مَآءً : پانی بِقَدَرٍ : اندازہ کے ساتھ فَاَسْكَنّٰهُ : ہم نے اسے ٹھہرایا فِي الْاَرْضِ : زمین میں وَاِنَّا : اور بیشک ہم عَلٰي : پر ذَهَابٍ : لے جانا بِهٖ : اس کا لَقٰدِرُوْنَ : البتہ قادر
اور ہم ہی نے آسمان سے ایک اندازے کے ساتھ پانی نازل کیا۔ پھر اس کو زمین میں ٹھہرا دیا اور ہم اس کے نابود کردینے پر بھی قادر ہیں
وانزلنا من السمآء مآء بقدر فاسکنہ فی الارض وانا علی ذہاب بہ لقدرون۔ اور ہم نے (مناسب) مقدار میں اوپر سے پانی برسایا پھر اس کو زمین میں ٹھہرایا اور اس کو (بالکل) معدوم کردینے پر بھی بلاشبہ قدرت رکھنے والے ہیں۔ پانی سے مراد بارش کا پانی۔ بِقَدَرٍیعنی مناسب مقدار کے ساتھ جتنا تقاضائے مصلحت تھا۔ زمین میں ٹھہرانے کا مطلب بعض اہل علم نے یہ بیان کیا کہ تالابوں اور حوضوں اور گڑھوں میں ہم نے پانی کو جمع کردیا تاکہ بارش نہ ہو تو لوگ اس سے کام چلائیں۔ بعض اہل تفسیر نے کہا کہ اس سے زمین کا پانی پینامراد ہے پانی کو زمین چوس لیتی ہے۔ زمین کے مسامات میں پانی گھس جاتا ہے پھر اس سے چشمے اور سوت پھوٹ نکلتے ہیں۔ زمین سے جتنا پانی برآمد ہوتا ہے وہ آسمان سے برسا ہوا ہی ہوتا ہے۔ ذَہَابٍ بِہٖاس کو لے جانا ‘ زائل کردینا۔ مراد یہ ہے کہ ہم اس کو خراب کرسکتے ہیں کہ کسی کام نہ آئے اور بھاپ بنا کر اڑا بھی سکتے ہیں اور زمین کے اندر انتہائی گہرائی تک بھی پہنچا سکتے ہیں کہ کسی کے ہاتھ نہ آئے۔ لَقٰدِرُوْنَبلاشبہ ہم پانی کو فناکر دینے پر بھی اسی طرح قادر ہیں جس طرح اس کو برسانے پر قادر ہیں اگر ہم پانی کو فنا کردیں تو تم پیاسے مرجاؤ تمہارے جانور بھی مرجائیں اور تمہاری زمینیں بنجر ہوجائیں۔ بغوی نے لکھا ہے حدیث میں آیا ہے کہ اللہ نے جنت سے چار دریا نازل کئے ہیں۔ سیحون ‘ جیحون ‘ دجلہ ‘ فرات۔ یہ بھی بغوی نے لکھا ہے کہ امام حسن بن سفیان نے سند کے ساتھ بوساطت عکرمہ حضرت ابن عباس کی روایت سے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ نے جنت کے ایک چشمہ سے جو جنت کے نچلے نشیبی حصہ میں تھا پانچ دریا جبرئیل کے دونوں بازوؤں پر نازل فرمائے۔ سیحون ‘ جیحون ‘ دجلہ ‘ فرات ‘ نیل۔ جبرئیل نے یہ دریا بطور امانت پہاڑوں کے سپرد کردیئے اور زمین میں بہا دیئے اور لوگوں کے لئے فائدہ بخش بنا دیئے آیت ( وَاَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَآءِ مَآءً بِقَدَرٍ فَاَسْکَنّٰہُ فِی الْاَرْض) ِسے اسی طرف اشارہ ہے پھر جب یاجوج و ماجوج کا زمانہ آئے گا تو اللہ جبرئیل کو بھیج کر زمین سے قرآن اور تمام (دینی) علم کو اور سنگ اسود کو اور مقام ابراہیم کو اور تابوت موسیٰ کو مع اس کی اندرونی چیزوں کے اور ان پانچوں دریاؤں کو آسمان کی طرف اٹھا لے گا۔ آیت (وَاِنَّا عَلٰی ذَہَابٍ بِہٖ لَقٰدِرُوْنَ ) کا یہی مطلب ہے۔ جب یہ چیزیں زمین سے اٹھا لی جائیں گی تو اہل ارض دنیا اور دین کی ہر بھلائی سے محروم ہوجائیں گے۔ میں کہتا ہوں شاید زمین کے سارے دریا جنت ہی سے آئے ہیں۔ حدیث میں صرف پانچ کا تذکرہ بطور تمثیل کیا ٖ گیا ہے۔
Top