Mualim-ul-Irfan - Al-Maaida : 24
قَالُوْا یٰمُوْسٰۤى اِنَّا لَنْ نَّدْخُلَهَاۤ اَبَدًا مَّا دَامُوْا فِیْهَا فَاذْهَبْ اَنْتَ وَ رَبُّكَ فَقَاتِلَاۤ اِنَّا هٰهُنَا قٰعِدُوْنَ
قَالُوْا : انہوں نے کہا يٰمُوْسٰٓى : اے موسیٰ اِنَّا : بیشک ہم لَنْ نَّدْخُلَهَآ : ہرگز وہاں داخل نہ ہوں گے اَبَدًا : کبھی بھی مَّا دَامُوْا : جب تک وہ ہیں فِيْهَا : اس میں فَاذْهَبْ : سو تو جا اَنْتَ : تو وَرَبُّكَ : اور تیرا رب فَقَاتِلَآ : تم دونوں لڑو اِنَّا : ہم ھٰهُنَا : یہیں قٰعِدُوْنَ : بیٹھے ہیں
ان لوگوں نے کہا ‘ اے موسیٰ ! بیشک ہم ہرگز داخل نہیں ہوں گے اس ملک میں کبھی بھی جب تک کہ وہ جبار لوگ اس میں ہوں گے ۔ پس جا تو اور تیرا پروردگار دونوں جا کر لڑو۔ بیشک ہم تو یہاں بیٹھنے والے ہیں
ربطہ آیات : گذشتہ درس میں بیان ہوچکا ہے ۔ کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو اللہ تعالیٰ کے انعامات یاد دلانے کہ اس نے تمہارے اندر انبیاء مبعوث فرمائے عظیم السطنت بادشاہ مقرر فرمائے اور تمہیں دنیا بھر میں فضیلت عطا کی۔ اس کے بعد موسیٰ (علیہ السلام) نے قوم کو بتلایا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے وعدہ کر رکھا ہے کہ ۔۔ مقدس میں تیری اولاد کو آباد کروں گا لہٰذا اس پر قبضہ کرنے کے لیے جہاد کرو ‘ مگر قوم نے کہا کہ وہاں بڑے جبار لوگ رہتے ہیں۔ جب تک وہ وہاں سے چلے نہ جائیں۔ ہم وہاں داخل نہیں ہوں گے۔ البتہ ان میں سے دو آدمی ایسے تھے جن کے دلوں میں اللہ نے ایمان راسخ کیا تھا۔ اور ان میں انبیاء کی اطاعت و فرمانبرداری کا جذبہ موجود تھا۔ انہوں نے بھی قوم سے کہا کہ تم اس ملک کے دروازے میں داخل ہو جائو۔ اللہ تعالیٰ تمہیں فتح عطاکریں گے اور اس طرح اللہ کا وعدہ پورا ہوجائیگا۔ یہ دو حضرات کالب اور پوشع تھے۔ مئوخرالذکر کو اللہ تعالیٰ نے بعد میں نبوت بھی عطا فرمائی۔ قوم کا ۔۔۔۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے بارہ آدمیوں کو دشمن کے حالات معلوم کرنے کے لیے بھیجا تھا۔ جن میں سے دو نے تو اللہ پر بھروسہ رکھتے ہوئے بنی اسرائیل کو جہاد کی ترغیب دی۔ البتہ باقی دس آدمیوں نے قوم عمالقہ کی شہ زوری کے قصے سنائے جس کی وجہ سے بنی اسرائیل میں بزدلی پیدا ہوئی اور انہوں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا قالوا یموسی انا لن ندخلھآ ابد ما داموا فیھا اے موسیٰ (علیہ السلام) ! ہم اس سرزمین میں اس وقت تک داخل نہیں ہوں گے جب تک یہ جبار قوم وہاں موجود ہے۔ تورات کے باب گنتی میں اس طرح آتا ہے ۔ کہ جب دو ایمان والوں نے قوم کو جہاد کی ترغیب دی اور کہا کہ خدا تعالیٰ پر بھروسہ کرتے ہوئے اس سرزمین میں داخل ہو جائو تو وہ لوگ سخت غصے میں آگئے اور رونا چلانا شروع کردیا ‘ انہوں نے حضرت موسیٰ اور ہارون (علیہما السلام) سے سخت نارضگی کا اظہار کیا اور کہنے لگے کہ اس سے تو بہتر تھا کہ ہم مصر میں ہی مرجاتے یا صحرانوردی کے دوران ہی ہلاک ہوجاتے تاکہ اس وقت تلوار کی زد میں تو نہ آتے۔ انہوں نے کہا کہ اگر ہم قوم عمالقہ کے مقابلے میں گئے تو مارے جائیں گے۔ ہماری عورتیں بیوہ اور بچے یتیم ہو کر دشمن کے قبضے میں چلے جائیں۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے دو نصیحت کنندگان پر سنگ بار ی کر نیکی بھی کوشش کی کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ یہی لوگ انہیں ہلاکت میں ڈالنا چاہتے ہیں۔ مذکورہ دو آدمیوں کے علاوہ پوری قوم نے جہاد کرنے سے انکار کردیا جس کی وجہ سے اللہ کے انبیاء حضرات موسیٰ (علیہ السلام) اور ہارون (علیہ السلام) کو سخت کوفت ہوئی۔ وہ لوگ اپنے رسولوں کے ساتھ نہایت گستاخی سے پیش آنے اور کہنے لگے فاذھب انت وربک فقاتلا “ اے موسیٰ (علیہ السلام) ! تم اور تمہارا خدا جاکر لڑو۔ انا ھھنا قعدون ہم تو یہیں بیٹھیں گے۔ ہم تمہارے ساتھ لڑائی میں شریک نہیں ہو سکتے۔ مفسرین کرام بیان فرماتے ہیں کہ بنی اسرائیل کے اس جواب کو مجازی اور حقیقی دونوں معنوں پر محمول کیا جاسکتا ہے۔ اگر اس جملے کو مجازی معنوں میں لیاجائے تو اس کا معنی یہ ہوگا کہ اے موسیٰ (علیہ السلام) ہم میں تو لڑائی کرنے کی ہمت نہیں ہے ‘ لہٰذا آپ جانیں۔ خدا تعالیٰ آپ کا مدد گار ہوگا۔ فرماتے ہیں کہ یہ معانی تو کسی حدت ک قابل برداشت ہیں۔ اس سے کفر لازم نہیں آتا۔ اور اگر ان الفاظ کو حقیقی معنوں پر محمول کیا جائے تو مطلب یہ ہوگا کہ اے موسیٰ (علیہ السلام) ! تم خود جہاد پر نکلو اور اپنے رب کو بھی ساتھ لے لو جس طرح دوسرے لوگوں کو امداد کے لیے شریک کیا جاتا ہے۔ مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ یہ نہایت بےادبی ‘ گستاخی اور کفر کا کلمہ ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کو انسانی سطح پر لے آنا کفر کے مترادف ہے۔ بنی اسرائیل کی ایسی ہی گستاخی کا ذکر سورة بقرہ میں بھی ہوچکا ہے جب انہوں نے موسیٰ (علیہ السلام) سے صاف کردیا تھا ” لن نئو من لک حتی نری اللہ جھرۃ “ ہم تیری بات کو ہرگز نہیں مانیں گے جب تک اللہ تعالیٰ کو اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ لیں۔ پس بےادبی کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایک بجلی آئی اور سب کو جلا کر خاکستر کردیا۔ یہاں پر بھی بنی اسرائیل نے اسی قسم کی گستاخی کی ‘ خدا کی نعمتوں کی ناقدری کی اور اللہ کے عظیم المرتبت رسولوں کا کچھ لحاظ نہ رکھا اور ان کے حکم کا صاف انکار کردیا۔ صحابہ کرام ؓ کی جان نثاری برخلاف اس کے حضور خاتم النبیین ﷺ کے صحابہ کرام ؓ کی جان نثاری کے واقعات زبان زد عام ہیں۔ منجملہ ان کے جنگ بدر کی تیاری کا واقعہ ہے۔ جب قریش مکہ کی طرف سے جنگی تیاری کی خبر پہنچی تو حضور ﷺ نے صحابہ کرام ؓ کو جمع فرمایا اور جنگ کی تیاری کے لیے ان کی رائے طلب کی چناچہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کھڑے ہوئے اور انہوں نے دشمن سے ٹکراجانے کا مشورہ دیا ‘ اس پر آپ خاموش رہے۔ پھر حضرت عمر ؓ نے کھڑے ہو کر اپنی جاں نثاری کا یقین دلایا مگر آپ پھر بھی خاموش رہے۔ حضرت عمر ؓ سمجھ گئے کہ آپ انصار مدینہ کی طرف سے یقین دہانی چاہتے ہیں چناچہ آپ نے انصار کی طرف اشارہ کیا کہ اب تمہارے بولنے کا وقت ہے۔ چناچہ انصار میں سے حضرت سعد بن معاذ ؓ نے عرض کیا کہ حضور اگر آپ کا روئے سخن ہماری طرف ہے تو ہم آپ کو قسم اٹھا کر یقین دلاتے ہیں۔ کہ اگر آپ حکم دیں گے تو اپنے گھوڑوں کو برک الغماد تک لے جائیں گے اور انہیں سمندر میں دوڑانے سے بھی دریغ نہیں کریں گے ہم آپ کے اشارے پر ہر طرح کی قربانی دینے پر تیار ہیں۔ عرض کیا ‘ حضور ! آپ ہمیں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم کی مانند نہیں پائیں گے جنہوں نے اپنے نبی سے یوں کہا تھا کہ فاذھب انت وربک فقاتلا اس کے بعد مہاجرین میں سے حضرت مقداد بن اسود ؓ کھڑے ہوئے اور عرض کیا ‘ حضور ! آپ یقین جانیں کہ ہم آپ کے دائیں ‘ بائیں ‘ آگے اور پیچھے غرضیکہ ہر طرف سے دشمن کا مقابلہ کریں گے ہم جان کی بازی لگادیں گے ‘ آپ ہمیں موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم جیسا نہیں پائیں گے۔ انصار و مہاجرین کے اس جوش و جذبہ سے حضور ﷺ بہت خوش ہوئے آپ کا چہرہ مبارک چمکنے لگا اور آپ نے اللہ کا نام لے کر کوچ کا حکم دے دیا۔ بہر حال حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضور خاتم النبیین کی اقوام کے نظر یات کا یہ ایک تقابلی جائزہ ہے۔ دعائے افتراق الغرض ! جب قوم موسیٰ نے جہاد سے صاف انکار کردیا تو اللہ کے نبیوں کے دل پریشان ہوگئے۔ چناچہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے نہایت عاجزی کے ساتھ بار گاہ رب العزت میں دعا کی قال رب انی لا املک الا نفسی واخی “ اے پروردگار ! میں کچھ اختیار نہیں رکھتا سوائے اپنی اور اپنے بھائی کی جان کے یعنی میں تو ہر حالت میں تیرا فرمانبردار ہوں اور میرا بھائی بھی میری بات مانتا ہے۔ مگر اس قوم پر میرا کچھ بس نہیں چلتا یہ میری بات ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اب ان کے ساتھ میرانباہ نہیں ہو سکتا۔ لہٰذا فافرق بیننا و بین القوم الفسقین ہمارے اور فاسق قوم کے درمیان تفریق ڈال دے۔ اے مولا کریم ! اس قوم نے تیرے حکم کو ٹھکرادیا ہے ‘ یہ فسق و معصیت میں مبتلا ہیں ‘ تیرے حکم کو ٹھکرا دیا ہے ‘ یہ فسق و معصیت میں مبتلا ہیں ‘ تیرے انعام کو قبول کرنے کی بجائے بزدلی کا مظاہرہ کر رہے ہیں ‘ اس لیے تو ہمارے درمیان اب اپنا فیصلہ ہی صادر فرمادے۔ چناچہ ایسا ہی ہوا۔ ان کو دنیاوی سزا بھی ملی کہ فی الوقت ایک نعمت سے محروم ہوگئے۔ اس واقعہ کے تین سال بعد حضرت ہارون (علیہ السلام) اللہ کو پیارے ہوگئے اور پھر مزید ایک سال بعد حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بھی ان سے جاملے اور اس طرح اللہ کے نبیوں اور قوم کے درمیان جدائی پیدا ہوگئی جدائی کا یہ مطلب نہیں کہ دونوں انبیاء قوم کو چھوڑ کر کسی دوسرے علاقے میں چلے جاتے یہ بات ان کے شایان شان نہ تھی اور وہ اپنی قوم کے ساتھ رہنا بھی پسند نہ کرتے تھے ‘ لہٰذا اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول کی اور دونوں انبیاء کی فوئیدگی سے مطلوبہ افتراق عمل میں آگیا۔ یہاں پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے۔ کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنا اور اپنے بھائی کا ذکر تو کیا ہے مگر ان دو کامل الایمان لوگوں حضرات کا لب اور یوشع کا ذکر اپنے ساتھ کیوں نہیں کیا۔ مفسرین کرام بیان فرماتے ہیں کہ قوم سے افتراق میں ان دوحضرات کو اپنے ساتھ شامل نہ کر نیکی دو وجوہات ہو سکتی ہیں۔ پہلی وجہ یہ ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے یہ دعا نہایت اضطراب اور تنگدلی کی عالت میں کی تھی۔ اور ایسی حالت میں بعض اوقات آدمی کلام کو مختصر کرنے کے لیے کسی چیز کو نظر انداز کردیتا ہے۔ اس کی دوسری وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ ہارون (علیہ السلام) تو آپ کے بھائی اور نبی تھے۔ ان کے متعلق آپ کو یقین تھا کہ یہ میرے ساتھ ہے لہٰذا اس کا نام اپنے ساتھ شامل کرلیا مگر باقی دو حضرات کے متعلق انہیں مکمل یقین نہیں تھا۔ آپ کا خیال تھا کہ ہو سکتا ہے آزمائش آنے پر وہ بھی ثابت قدم نہ رہ سکیں گے ‘ لہذا آپ نے قوم سے افتراق میں ان کو اپنے ساتھ شامل نہ کیا ‘ یاد رہے کہ حضرت یوشع (علیہ السلام) کو اس وقت نبوت نہیں ملی تھی جس کی وجہ سے موسیٰ (علیہ السلام) ان سے پوری طرح مطمئن نہیں تھے۔ ان کو نبوت موسیٰ (علیہ السلام) کی وفات کے بعد عطا ہوئی۔ مفسرِ قرآن مولانا شاہ اشرف علی تھانوی اسی آیت سے متدلال کرتے ہیں۔ کہ جس طرح موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے بھائی ہارون (علیہ السلام) کو پورے وثوق کے ساتھ اپنے ساتھ شریک کرلیا۔ اسی طرح شیخ و بزرگ کو اپنے مرید شاگرد پر تصرف حاصل ہوتا ہے اور وہ یقین کے ساتھ کہ سکتا ہے کہ میرا فلاں شاگرد یا مرید فلاں کا م میں میرے ساتھ شریک ہوگا۔ گویا شیخ کو اختیار حاصل ہے کہ وہ اپنے مرید کو اپنے ساتھ شامل کرے۔ چالیس سالہ۔۔۔ بنی اسرائیل کی بےادبی ‘ گستاخی اور حکم عدولی کی بنا پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا قال فانھا محرمۃ علیھم اربعین سنۃ “ (صفحہ 166) ۔۔۔۔۔۔۔۔ دے دی گئی۔ اگر وہ لوگ جہاد پر آمادہ ہوجاتے تو اللہ تعالیٰ اسی وقت انہیں وہ نعمت عطا کردیتا مگر ان کی بزدلی کی وجہ سے انہیں یہ سزا ملی کہ وہ ارض مقدس سے چالیس سال تک کے لیے محروم ہوگئے۔ حدیث شریف میں آتا ہے ان انعبد یحرم من الرزق بالذنب یعنی بندہ اپنی معصیت کی وجہ سے رزق سے محروم ہوجاتا ہے۔ یعنی جب کوئی گناہ کرتا ہے تو اسے ملنے والی نعمت بھی روک لی جاتی ہے چناچہ اللہ نے حکم دے دیا کہ اب یہ قوم چالیس سال تک اس مقدس میں میں داخل نہیں ہو سکتی۔ مفسرین کرام بیان فرماتے ہیں کہ اس چالیس سالہ دور میں تمام بوڑھے بنی اسرائیلی ختم ہوگئے اور ان میں سے کوئی بھی سرزمین مقدس میں نہ پہنچ سکا۔ اس دوران نئی نسل پیدا ہوئی۔ انہوں نے اپنے اندر تنظیم پیدا کی۔ پھر حضرت یوشع (علیہ السلام) کی قیادت میں انہوں نے جہاد کیا تو وہ ارض مقدس کو فتح کرنے میں کامیاب ہوئے وگرنہ چالیس سال تک ان کی حالت یہ رہی یتیھون فی الارض وہ سزا کے طور پر اسی صحرائے سینا (میدان تیہ میں دیوانوں کی طرح سرگردان پھرتے رہے۔ سورة بقرہ میں گزر چکا ہے۔ کہ وہ اس میدان میں مارے مارے پھر تے رہے۔ ان کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا کہ کیا کریں۔ مگر اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے بھی پر اپنی مہربانی جاری رکھی۔ جب ان کے خیمے پھٹ گئے تو فرمایا ۔۔ ضلک علیکم الغمام “ ہم نے تم پر بادلوں کے سایے کردیے اور جب بھوکوں مرنے لگے تو ونزلنا علیکم لمن وسلوی تو من وسلوی جیسی نذیر اور شیریں خوراک بہم پہنچائی۔ غلامی بہت بُری چیز ہے ۔ اس کی وجہ سے لوگوں میں قبیح صفات پید ہوتی ہیں۔ کمینگی اور بخلی جیسی بری خصلتیں جنم لیتی ہیں۔ ان سے دشمنی و غیروں سے وفادری کے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔ بنی اسرائیل بھی لمبے عرصہ تک غلامی میں رہنے کی وجہ سے اچھی خصلتوں سے محروم ہوچکے تھے لہذا انہوں نے اللہ کا حکم ماننے سے انکار کردیا ۔ پھر جب نئی نسل آئی غلامی کے اثرات ختم ہوئے تو ان میں ملی جوش و جذبہ عود کر آیا۔ پھر انہوں نے جہاد کر کے اپنا وطن حاصل کرلیا۔ موسیٰ (علیہ السلام) کو تسلی چونکہ موسیٰ (علیہ السلام) اپنی قوم سے سخت مایوس ہوچکے تھے۔ ان کی مسلسل نافرمانی اور معصیت کی وجہ سے آپ کو امید کی کوئی کرن نظر نہیں آرہی تھی ‘ ان حالات میں اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو تسلی دی فلا تاس علی القوم الفسقین آپ اس فاسق قوم پر افسوس کا اظہار نہ کریں۔ یہ نعمت خداوندی سے محروم ہوچکے ہیں اب ارض مقدس کی نعمت ان کی آئندہ نسل کو ملے گی۔ اس قسم کی تشقی کی مثالیں دیگر انبیاء کے پیغام اور نصیحت کو قبول نہ کیا تو فرمایا فکیف اسی علی قوم کفرین “ اس کافر قوم پر کس طرح اظہار افسوس کیا جائے۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) کی قوم کو کافر کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے مگر یہاں پر بنی اسرائیل کے متعلق ایسا نہیں کہا گیا کیونکہ وہ لوگ نافرمان اور گنہگار تھے مگر نبی کی ملت میں ہی تھے۔ حضرات موسیٰ اور ہارون (علیہما السلام) کو اللہ کے نبی تسلیم کرتے تھے مگر اپنی گستاخی ‘ بےادبی اور بد اعمالیوں کی وجہ سے سزا بھی پاتے تھے۔
Top