Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Fi-Zilal-al-Quran - Al-Maaida : 24
قَالُوْا یٰمُوْسٰۤى اِنَّا لَنْ نَّدْخُلَهَاۤ اَبَدًا مَّا دَامُوْا فِیْهَا فَاذْهَبْ اَنْتَ وَ رَبُّكَ فَقَاتِلَاۤ اِنَّا هٰهُنَا قٰعِدُوْنَ
قَالُوْا
: انہوں نے کہا
يٰمُوْسٰٓى
: اے موسیٰ
اِنَّا
: بیشک ہم
لَنْ نَّدْخُلَهَآ
: ہرگز وہاں داخل نہ ہوں گے
اَبَدًا
: کبھی بھی
مَّا دَامُوْا
: جب تک وہ ہیں
فِيْهَا
: اس میں
فَاذْهَبْ
: سو تو جا
اَنْتَ
: تو
وَرَبُّكَ
: اور تیرا رب
فَقَاتِلَآ
: تم دونوں لڑو
اِنَّا
: ہم
ھٰهُنَا
: یہیں
قٰعِدُوْنَ
: بیٹھے ہیں
اس پر موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا ” اے میرے رب میرے اختیار میں کوئی نہیں ہے مگر میری اپنی ذات یا میرا بھائی ‘ پس تو ہمیں ان نافرمان لوگوں سے الگ کر دے ۔ “ اللہ نے جواب دیا : ” تو وہ ملک اب چالیس سال تک ان پر حرام ہے ۔ یہ زمین میں مارے مارے پھریں گے ‘ ان نافرمانوں کی حالت پر ہر گز ترس نہ کھاؤ ۔
(آیت) ” قَالُواْ یَا مُوسَی إِنَّا لَن نَّدْخُلَہَا أَبَداً مَّا دَامُواْ فِیْہَا فَاذْہَبْ أَنتَ وَرَبُّکَ فَقَاتِلا إِنَّا ہَاہُنَا قَاعِدُونَ (24) (لیکن انہوں نے پھر یہی کہا کہ ” اے موسیٰ ہم تو وہاں کبھی نہ جائیں گے ‘ جب تک وہ وہاں موجود ہیں ۔ بس تم اور تمہارا رب ‘ دونوں جاؤ اور لڑو ہم یہاں بیٹھے ہیں) یوں بزدل صفوں سے نکل جاتے ہیں اور شرمندہ ہوجاتے ہیں ۔ وہ خطرات سے ڈر کر پانبر نجیر ہوجاتے ہیں ‘ جس طرح گدھوں کے پاؤں باندھ دیئے جاتے ہیں اور پھر وہ کوئی اقدام نہیں کرتے ۔ بزدلی اور بےشرمی آپس میں متضاد نہیں ہیں نہ ایک دوسرے سے دور ہیں ۔ یہ اوصاف بعض اوقات اکٹھے ہوجاتے ہیں ۔ ایک بزدل جب اپنے فرائض کی طرف آگے بڑھتا ہے تو وہ بزدلی دکھا کر پیچھے ہٹ جاتا ہے ۔ وہ اس طرح نکل جاتا ہے جس طرح اس نے فرض کو ترک کردیا ۔ پھر وہ اس مقصد ہی کو برا کہتا ہے ‘ اس دعوت کو بھی برا بھلا کہتا ہے ‘ جو اس سے بات کا مطالبہ کرتی ہے جو وہ کرنا نہیں چاہتا ۔ (آیت) ” فاذھب انت وربک فقاتلا انا ھھنا قعدون “۔ (5 : 24) (بس تم اور تمہارا رب دونوں جاؤ اور لڑو ہم تو یہاں بیٹھے ہیں) یہ تھی ایک کمزور اور بزدل کی عاجزی اس کی زبان سے بہت ہی تیز ہے لیکن مقصد کی طرف بڑھنے کے لئے اس کے قدم بوجھ ہیں اور وہ تیروں کی چبھن محسوس کرتا ہے ۔ (آیت) ” فاذھب انت وربک “۔ (5 : 24) (جاؤ تم اور تمہارا رب) اگر وہ اب ہمیں جنگ پر مجبور کرتا ہے تو ہم اس کی الوہیت کو قبول نہیں کرتے ، یہ تمہارا رب ہے ۔ (آیت) ” انا ھھنا قعدون “۔ (5 : 24) (ہم تو یہاں ہی بیٹھے ہیں) ہمیں نہ تو مملکت کی ضرورت ہے ‘ نہ عزت کی ضرورت ہے ‘ نہ ارض موعودہ کی ضرورت ہے ۔ اس وقت تک اس میں جبار قوم موجود ہے ۔۔۔۔ یہ تھا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی عظیم جدوجہد کا انجام ۔۔۔۔ طویل سفر ‘ اس میں ذلت و خواری ‘ اور بنی اسرائیل کی جانب سے بار بار انحراف ‘ پہلوتہی اور قدم قدم پر نافرمانی ۔۔۔۔۔ یقینا یہ ان کا انجام ہے کہ وہ ارض مقدس کی فتح سے الٹے پھرتے ہیں ، حالانکہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ان کے ساتھ ہیں اور وہ اس سرزمین کی دہلیز پر ہیں ۔ وہ اس سرزمین کی دہلیز پر ہیں ۔ وہ اللہ کے ساتھ کئے ہوئے عہدوپیمان سے پھرتے ہیں ۔ حالانکہ اس عہد قدیم کا اس عہد یعنی فتح بیت المقدس سے گہرا ربط تھا ۔ اب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اس مایوسی کے عالم میں کریں تو کیا کریں ؟ (آیت) ” قال رب انی لا املک الا نفسی واخی فافرق بیننا وبین القوم الفسقین “۔ (5 : 25) (اس پر موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا ” اے میرے رب ‘ میرے اختیار میں کوئی نہیں مگر میری اپنی ذات یا میرا بھائی ‘ پس تو ہمیں ان نافرمان لوگوں سے الگ کر دے ۔ “ یہ ایک ایسی پکار ہے جو رنج والم سے بھری ہوئی ہے ۔ اس میں ایک طرف التجاء ہے تو دوسری جانب مکمل تسلیم ورضا ہے اور اس کے بعد فیصلہ کن پختگی اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو اچھی طرح علم تھا اور یقین تھا کہ اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ اب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا ان کے بھائی کے سوا اور کوئی کا حامی نہیں رہا ہے ۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ایک شرمندہ انسان کے ضعف اور ایک نبی جو کلیم اللہ ہے ‘ اس کے ایمان کے بیچ میں کھڑے ہیں اور ایک راست باز مومن کی طرح عزم صمیم کئے ہوئے ہیں ۔ ان کے سامنے اس کے سوا اور کوئی راہ نہیں ہے کہ صرف اللہ کی متوجہ ہوں اور اس کے سامنے اپنے درد و دکھ کا اظہار بشکل سرگوشی کریں اور یہ مطالبہ کریں کہ اے اللہ مجھے اجازت دے دے کہ میں اس فاسق قوم سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جدا ہوجاؤں اس لئے کہ جب انہوں نے اللہ کے ساتھ کئے ہوئے اپنے پختہ عہد سے روگردانی اختیار کرلی تو اب ان کے ساتھ نبی کلیم کا تعلق ہی کیا رہ گیا ہے ؟ وہ ان کے ساتھ بوجہ نسب نامہ مربوط نہ تھے ‘ نہ یہ کہ ان کی تاریخ ایک ہے ‘ نہ ان کا واسطہ ان کے ساتھ اس اساس پر تھا کہ انہوں نے ایک جگہ مل کر جدوجہد کی تھی اور رفیق کار تھے ۔ ان کے درمیان رابطہ تو دعوت الی الحق کی اساس پر ہی تھا ۔ ان کے درمیان رابطہ یہی عہد قدیم تھا اور یہ عہد انہوں نے توڑ ڈالا تھا ۔ اس لئے ان کے درمیان مکمل قطع تعلق ہوگیا اور نہایت ہی گہرائی تک چلا گیا ۔ اب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے درمیان کوئی رابطہ ہی نہیں رہا ہے ۔ حضرت اپنے عہد ومیثاق کے پابند ہیں اور قوم نے اس سے نافرمانی اختیار کرلی ہے ۔ وہ عہد پر پختہ جمے ہوئے ہیں اور قوم اس سے برگشتہ ہوگئی ہے ۔ یہ ہے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی جانب سے ادب اور احترام ۔ اور یہی ہے ان کی سنت اور یہی ہے ایک سچے مومن کا منصوبہ ۔ اور یہی ہے وہ اساس اور رابطہ جس پر لوگ جمع ہوتے ہیں اور ایک دوسرے سے جدا ہوجاتے ہیں ۔ اس راہ میں قوم ‘ نسب ‘ نسل اور مشترکہ تاریخ کچھ چیز نہیں ہے اس میں اس زمین کے تعلقات میں سے کوئی تعلق کام نہیں دیتا ۔ راہ میں جب نظریات کا تعلق ٹوٹ جائے تو تمام تعلقات ٹوٹ جاتے ہیں اور جب عقیدے جدا ہوجائیں تو راستے اور منہاج بھی جدا ہوجاتے ہیں ۔ اس مقام پر اللہ تعالیٰ اپنے نبی کی پکار کا جواب دیتے ہیں اور فاسقوں کو پوری پوری سزا دے دی جاتی ہے ۔ (آیت) ” قال فانھا محرمۃ علیھم اربعین سنۃ ، یتیھون فی الارض ، فلا تاس علی القوم الفسقین “۔ (26) ” اللہ نے جواب دیا ” اچھا تو وہ ملک چالیس سال تک ان پر حرام ہے ‘ یہ زمین میں مارے مارے پھریں گے ‘ ان نافرمانوں کی حالت پر ہر گز ترس نہ کھاؤ۔ ) اللہ تعالیٰ نے ان بدبختوں کو صحراؤں کے حوالے کردیا حالانکہ وہ ارض مقدس کی دہلیز پر تھے ، اللہ تعالیٰ نے ان پر وہ سرزمین حرام کردی جو ان کے لئے لکھ دی گئی تھی اور راجح قول یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی اس وقت موجود نسل پر اس سرزمین کو حرام کردیا تھا ‘ اور جب تک ان کے نطفوں سے جدید نسل تیار نہ ہوئی وہ اسی طرح مارے مارے پھرتے رہے ۔ چناچہ ان پر ازض موعود میں داخلہ اس وقت تک ممنوع رہا جب تک نئی نسل تیار نہ ہوگئی ‘ ایسی نسل جو نصیحت قبول کرتی ہو ‘ یہ نسل خالص صحرا نوروی کی حالت میں تیار ہوئی اور یہ بالکل آزاد منش اور حریت پسند تھی ۔ یہ وہ نسل نہ تھی جسے ذلت ‘ غلامی اور مصریوں کے مظالم نے کمزوری کا خوگر بنا دیا تھا ۔ اس لئے وہ نسل اس کام کے لئے موزوں نہ تھی جو اولو العزم لوگوں کا کام ہے ۔ ذلت ‘ غلامی اور ظلم انسان کی فطرت کو خراب کردیتے ہیں ۔ اسی طرح ان چیزوں سے قوموں کی فطرت بھی خراب ہوجاتی ہے ۔ اس لئے کہ غلامی اور ظلم انسان کی فطرت کو خراب کردیتے ہیں ، اسی طرح ان چیزوں سے قوموں کی فطرت بھی خبراب ہوجاتی ہے اس لئے کہ غلامی میں قوموں کے ضمیر بدل جاتے ہیں ۔ یہاں آکر بات ختم ہوجاتی ہے اور ان لوگوں کو صحرا کے حوالے کردیا جاتا ہے ۔ اس پر مزید ان کے بارے میں یہاں کچھ نہیں کہا جاتا ۔ یہ ایک ایسا انداز ہے جس میں نفسیاتی عبرت آموزی اور فنی خوبصورت دونوں ایک جگہ جمع ہوجاتے ہیں یہ قرآن کریم کا خاص انداز بیان ہے ۔ اس سبق کو مسلمانوں نے اچھی طرح سمجھ لیا تھا ‘ اللہ نے ان کے سامنے یہ پوری کہانی اسی انداز میں رکھ دی تھی جس طرح وہ پیش آئی تھی ۔ چناچہ انہوں نے اپنے نبی سے کہا : اے محمد ! آج ہم وہ بات نہ کہیں گے جو بنی اسرائیل نے اپنے نبی سے کہی تھی کہ جاؤ تم اور تمہارا خدا لڑو تم دونوں ‘ ہم تو یہاں ہی بیٹھے ہیں ۔ (فاذھب انت وربک فقاتلا انا ھھنا قعدون “ (5 : 24) (قرآن کریم کے اندازتربیت کے یہ بعض نمونے ہیں ۔ قرآن عام قصص کے انداز میں تربیت کرتا ہے ‘ یہ تھے قصہ بنی اسرائیل کے بیان کی حکمت کے بعض پہلو) ۔ درس نمبر 48 ایک نظر میں : اس سبق میں انسانی زندگی کے لئے بعض نہایت ہی اساسی قوانین وضع کئے گئے ہیں وہ احکام جو جان کی حفاظت کے لئے ہیں ۔ یہ احکام اس معاشرے کے لئے ہیں جس میں اسلامی زندگی رائج ہو ۔ ان قوانین کا مقصد اسلامی نظام زندگی کی حمایت اور اس نظام کے خلاف بغاوت کے راستوں کو بند کرتا ہے اور اس حکومت کو بچانا ہے جو اللہ کے حکم کے مطابق قائم ہو اور شریعت کے زیر سایہ کام کر رہی ہو ۔ نیز اس سے سوسائٹی کا تحفظ مطلوب ہے جو شریعت اسلامی کے زیر سایہ اور ایک اسلامی حکومت کے زیر سایہ کام کر رہی ہو ۔ ان احکام سے اسلامی حکومت کی رعایا کے مال اور جان دونوں کی حفاظت مطلوب ہے ‘ بشرطیکہ یہ معاشرہ ‘ یہ حکومت اور یہ نظام اسلامی شریعت کے مطابق چل رہے ہوں ۔ اس پورے سبق میں ‘ سوسائٹی کی اجتماعی زندگی کے بچاؤ کے سلسلے میں نہایت ہی اساسی احکام دیئے گئے ہیں لیکن اس سبق کا آغاز حضرت آدم (علیہ السلام) کے دو بیٹوں کے قصے سے کیا گیا ہے ۔ اس سے یہ بتلانا مقصود ہے کہ قتل و غارت کے اس جرم کے ارتکاب کے وقت مجرمین کی نفسیات کیا ہوتی ہیں ۔ وہ کیا اسباب اور فیکٹر ہوتے ہیں جن کی وجہ سے مجرم جرم کا ارتکاب کے وقت مجرمین کی نفسیات کیا ہوتی ہیں ۔ وہ کیا اسباب اور فیکٹر ہوتے ہیں جن کی وجہ سے مجرم جرم کا ارتکاب کرتا ہے نیز اس سبق میں بتایا جاتا ہے کہ یہ جرم نہایت ہی گھناؤنا ہے اور یہ کہ اس کا تدارک اور سدباب کرنا نہایت ہی ضروری ہے ۔ اس جرم کے مجرم کو سزا دینا بھی بہت ضروری ہے اور ان اسباب اور موثرات پر قابو پانا بھی ضروری ہے جس کی وجہ سے ایک شخص اس جرم کا ارتکاب کرتا ہے ۔ معلوم ہوتا ہے کہ اس قصے کے تمام اشارات مکمل طور پر ان احکام کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں جو اس قصے کے بعد آتے ہیں ۔ ایک غور وفکر سے پڑھنے والا اس بات کو بسہولت بسہولت محسوس کرسکتا ہے کہ اس سیاق کلام میں اس قصے کو لانے کا مقصد کیا ہے ؟ اور وہ کس قدر عمیق اور تشفی بخش اشارہ ہے ‘ جو یہ قصہ نفس انسانی پر انڈیلتا ہے اور اسے اس میں پیوست کردیتا ہے ۔ یہ قصہ انسان کے دل و دماغ کو ان احکام کو قبول کرنے کے لئے آمادہ کردیتا ہے کہ وہ ان سخت سزاؤں کو قبول کرے جو اسلام محاربت اور جان کے خلاف جرائم اور نظام ملکیت کے خلاف جرائم اور نظام مملکت میں اسلامی عدالتوں کی طرف سے نافذ ہوں گی جو اسلامی شریعت کے مطابق کام کرتی ہیں ۔ اسلامی معاشرے کا فرض ہے کہ وہ اپنی پوری زندگی کو اسلامی نظام کے مطابق شریعت محمدیہ کے تحت چلائے ۔ وہ اپنے معاملات ‘ اپنے روابط اور تعلقات اسلامی نظام اور اسلامی قانون شریعت کے مطابق منظم کرے ۔ یہی وہ طریقہ ہے جس کے مطابق یہ معاشرہ ایک فرد کا کفیل بھی ہوگا ‘ ایک جماعت کا بھی وہ کفیل ہوگا اور فرد اور سوسائٹی دونوں کو انصاف ‘ سیکورٹی ‘ اطمینان اور سکون عطا کرسکے گا ۔ وہ ان تمام عناصر کے فساد کے دروازے بند کرسکے گا جو افراتفری ‘ بےچینی ‘ دباؤ اور گھٹن پیدا کرتے ہیں اور وہ تمام اسباب ختم ہوجائیں گے جن کی وجہ سے معاشرے کے اندر ظلم و زیادتی ہوتی ہے ۔ اسی طرح لوگوں کی حاجات اور ضروریات بھی بڑی آسانی سے پوری ہو سکیں گی ۔ اسی طرح اس قسم کے باہم متکافل ‘ متوازن ‘ منصفانہ اور فاضلانہ معاشرے کے اندر کسی کی جان اور مال پر ‘ کسی کی انفرادی کی ملکیت پر یا نظام مملکت کے خلاف اس قسم کے جرائم کا ارتکاب نہایت ہی بری حرکت اور سخت جرم سمجھا جاتا ہے ۔ اس کے لئے کوئی وجہ جوا زیا عذر یا ایسے حالات نہیں ہوتے جو اس جرم کے لئے مخفف (Mit gAting) ہوں ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جرم اور مجرم کے خلاف اسلام کی جانب سے یہ سختی اس وقت کی جاتی ہے جب ایک فرد کے لئے صحیح راہ پر چلنے کے تمام مواقع فراہم کردیئے جائیں ‘ یعنی معتدل مزاج لوگوں کے لئے درست طور پر زندگی بسر کرنے کے حالات موجود ہوں اور ایسے حالات موجود ہوں کہ ایک فرد اور ایک جماعت اگر چاہیں تو پاکیزہ زندگی بسر کرسکتے ہوں ۔ ان تمام باتوں کے باوجود اسلامی نظام حکومت اور اسلامی نظام عدالت مجرم کو مکمل قانونی تحقیقات اور قانونی فیصلے کے حقوق دیتا ہے ۔ اگر ذرا بھی شبہ پیدا ہوجائے تو شبہات کی وجہ سے حدود ساقط کردیئے جاتے ہیں ۔ نیز اس کے لئے توبہ کا دروازہ بھی کھلا چھوڑا جاتا ہے جس کے مطابق بعض حالات میں اس کا جرم اس دنیا میں بھی معاف ہو سکتا ہے جبکہ آخرت میں اس کے تمام جرائم اور گناہوں کو بہرحال اللہ تعالیٰ معاف فرمائیں گے ۔۔۔۔ ۔۔ اس درس میں ہم اس کے تمام پہلو اور نمونے پائیں گے اور متعدد و احکام اور قوانین کا ذکر ہوگا ۔ لیکن آیات کی تفسیر اور براہ راست احکام پر کلام کرنے سے پہلے ‘ اس بات کی ضرورت ہے کہ ایک عام اور اہم بات یہاں نوٹ کرلی جائے یعنی وہ معاشرہ کیسا ہوگا جس میں یہ سخت قوانین نافذ ہوں گے اور قوت نافذہ کے لئے حدود وقیود کیا ہیں ؟ اس سبق میں جو احکام اور قوانین وارد ہیں ‘ چاہے ان کا تعلق ان جرائم سے ہو جو نفس کے خلاف ہوں یا ان احکام سے ہو جو نظام مملکت کے خلاف ہوں یا ان احکام سے جو کسی کے مال کے خلاف ہوں ؟ ان کی حیثیت ان دوسرے شرعی احکام جیسی ہی ہے جو جرائم حدود ‘ قصاص اور تعزیرات میں وارد ہیں ۔ یعنی یہ تمام احکام تب نافذ ہوں گے جب ان کی قوت نافذہ اسلامی معاشرے کی شکل میں ‘ دارالاسلام میں موجود ہو۔ لہذا ضروری ہے کہ شریعت کے مطابق دارالاسلام کی تعریف بھی کردی جائے ۔ اسلام اور مسلمانوں کے نزدیک پوری دنیا دو بلاکوں میں تقسیم ہے اور ہم کوئی تیسرا بلاک تسلیم نہیں کرتے ۔ پہلا بلاک دارالاسلام ہے اور اس سے مراد وہ ملکت ہے جس کے اندر اسلامی احکام نافذ ہوتے ہیں ۔ جس کا قانونی نظام شریعت پر مبنی ہو ‘ چاہے اس کے باشندے سب کے سب مسلمان ہوں یا مسلمانوں اور ذمیوں دونوں پر مشتمل ہوں یا اس کے لوگو سب کے سب غیر مسلم ہوں اور حکمران مسلمان ہو اور اسلامی ملک کا قانون ہو اور فیصلے شریعت کے مطابق ہوتے ہیں ۔ (اگرچہ ذمہ پر تمام احکام اسلامی شریعت لازمی نہیں ہیں ‘ اسلام کے صرف سول اور فوجداری احکام لازم ہیں) یا صورت یہ ہو کہ تمام آبادی مسلم ہے یا مسلم اور غیر مسلم مشترکہ آبادی ہو لیکن اس ملک پر حربی غیری مسلموں کا قبضہ ہوجائے لیکن ملک کا قانون نظام نہ بدلا گیا ہو اور ملک کے باشندے بدستور اسلامی قانون کے مطابق فیصلے کرتے ہوں ۔ اس لئے کسی ملک کے دارالاسلام ہونے کا مکمل دارومدار صرف اس بات پر ہے کہ اس کا قانونی نظام شریعت کے مطابق ہے یا نہیں اور یہ کہ اس کے اندر تنازعات کا فیصلہ شریعت پر ہوتا ہے یا کسی دوسرے قانون پر ۔ دوسرا دارالحرب ہے اور دارا الحرب ہر وہ ملک ہے جس میں اسلامی شریعت نافذ نہ ہو اور جس میں فیصلے شریعت کے مطابق نہ ہوتے ہوں ، رہے اس کے باشندے تو وہ جس مذہب وملت کے پیروکار ہوں ‘ چاہے وہ اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہوں ‘ چاہے وہ اپنے آپ کو اہل کتاب کہتے ہوں ‘ یا وہ دوسرے کفار ہوں وہ دارالحرب کے باشندے ہوں گے ۔ اس لئے کسی ملک کے دارالحرب ہونے کا مدار بھی مکمل طور پر صرف اس بات پر ہے کہ اس کے اندر اسلامی قوانین کا نفاذ نہ ہو اور اس کے اندر عدالتوں میں فیصلے اسلامی شریعت کے مطابق نہ ہوں ۔ ایسے مالک کو ایک مسلمان اور ایک اسلامی جماعت کے نقطہ نظر سے دارالحرب کہا جائے گا ۔ مسلم معاشرہ وہ ہوتا ہے جو دارالاسلام میں قائم ہو ‘ اپنے درج بالا مفہوم کے مطابق ۔۔۔۔۔ اور یہ اسلامی معاشرہ جو اسلامی منہاج کے مطابق ہو ‘ جس پر شریعت اسلامی کی حکمرانی ہو وہ اس بات کا حقدار ہے کہ اس میں لوگوں کی جانوں کو تحفظ دیا جائے ‘ اس میں لوگوں کے اموال کو تحفظ دیا جائے ‘ اس کے نظام مملکت کو بچایا جائے اور اس میں اور صرف اس میں ان مجرموں پر یہ منصوص سزائیں جاری کی جائیں جن کا ذکر ان آیات میں ہوگا اور جو ان لوگوں کے خلاف نافذ ہوں جو لوگوں کی جان ‘ مال اور مملکت میں خلل انداز ہو رہے ہوں ۔ اس درس اور اس کے علاوہ دوسری قرآنی تعلیمات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک نہایت ہی بلند اور صاحب فضیلت معاشرہ ہوگا ۔ اس میں عدل اور آزادیاں ہوں گی ۔ اس معاشرے میں روز گار اور ضروریات زندگی کی ضمانت ہوگی چاہے کوئی کام کرنے پر قادر ہو یامعذور ہو ۔ یہ ایک ایسا معاشرہ ہوگا جس میں بھلائی پر آمادہ کرنے والے عوامل زیادہ ہوں گے اور برائی پر آمادہ کرنے والے فیکٹر بہت ہی کم ہوں گے ۔ اس لئے ایسے معاشرے کا ان تمام لوگوں پر حق ہوگا جو اس کے اندر رہتے ہیں اور اس سے نفع اندوز ہوتے ہیں کہ وہ اس معاشرے کی دل و جان سے حفاظت کریں اور وہ دوسرے باشندگان ملک کے تمام مالی ‘ جانی ‘ عزت کے اور اخلاق کے حقوق کی رعایت و حفاظت کریں ۔ یہ تمام باشندے اس دارالاسلام کی حفاظت کریں جس میں وہ صحیح وسالم اور امن وامان سے زندگی بسر کرتے ہیں ۔ جس میں ان کو مکمل سیکورٹی حاصل ہے ‘ جس میں ان کو تمام بنیادی حقوق حاصل ہیں اور جس میں ان کو تمام خصائص انسانی کے مراتب حاصل ہیں ‘ جس میں ان کو تمام سوشل اور اجتماعی حقوق حاصل ہیں بلکہ تمام باشندوں کا فرض ہے کہ وہ ان تمام حقوق کی حفاظت کریں۔ اس کے بعد بھی اگر کوئی دارالاسلام کے اس نظام کے مقابلے میں بغاوت پر اتر آتا ہے تو وہ ظالم ‘ گناہ گار ‘ شرپسند اور تخریب کار ہے اور اس بات کا مستحق ہے کہ اسے سخت سے سخت سزا دی جائے ، لیکن اس میں بھی اسے یہ حقوق دیئے گئے ہیں کہ کسی کو محض ظن اور شب ہے کی بان پر نہ پکڑا جائے اور یہ اصول اس قانون پر بھی لاگو ہوگا کیونکہ شبہات کی وجہ سے حدود ساقط ہوجاتے ہین۔ رہا دارالحرب جس کی تعریف اوپر کردی گئی ہے تو وہ اور اس کے باشندے اس بات کے مستحق ہی نہیں ہیں کہ ان کو اسلامی شریعت کے اندر نافذ کردہ سزاؤں کا فائدہ دیا جائے ‘ اسلئے کہ وہاں تو سرے سے شریعت کا نفاذ ہی نہیں ہوتا۔ نہ یہ معاشرہ اسلام کی حاکمیت کو تسلیم کرتا ہے ۔ پھر یہ دارالحرب ان مسلمانوں کو بھی تحفظ فراہم نہیں کرتا جو دارالاسلام میں رہتے ہیں اور جو اپنے ہاں اسلامی شریعت کو نافذ کرتے ہیں ۔ ان دارالکفر اور دارالحرب والوں کے نزدیک مسلمانوں کی جان ومال مباح ہے ۔ اس لئے اسلام کے نزدیک ایسے لوگوں کا کوئی احترام نہیں ہے الا یہ کہ مسلمانوں کے ساتھ کسی کا کوئی عہد ہو ‘ اور ان کے اور دارالاسلام والوں کے نزدیک معاہدے طے ہوجائیں ۔ اسلامی شریعت یہ تمام سہولیتیں جو دارالاسلام میں مسلمانوں کو حاصل ہیں ان افراد کو بھی فراہم کرتی ہے جو دارالحرب سے دارالاسلام کو ہجرت یا سفر کرکے آتے ہیں ۔ جب وہ دارالاسلام میں معاہدہ امن کے ساتھ داخل ہوجائیں اور اس میں عہد کی مدت طے ہو اور وہ دارالاسلام کے حدود کے اندر آجائیں جس کا حاکم مسلمان ہو اور مسلمان حاکم وہی ہوتا ہے جو دارالاسلام میں شریعت حقہ کو نافذ کرے ۔
Top