Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - At-Tawba : 123
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قَاتِلُوا الَّذِیْنَ یَلُوْنَكُمْ مِّنَ الْكُفَّارِ وَ لْیَجِدُوْا فِیْكُمْ غِلْظَةً١ؕ وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ مَعَ الْمُتَّقِیْنَ
يٰٓاَيُّھَا
: اے
الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا
: وہ جو ایمان لائے (مومن)
قَاتِلُوا
: لڑو
الَّذِيْنَ
: وہ جو
يَلُوْنَكُمْ
: نزدیک تمہارے
مِّنَ الْكُفَّارِ
: کفار سے (کافر)
وَلْيَجِدُوْا
: اور چاہیے کہ وہ پائیں
فِيْكُمْ
: تمہارے اندر
غِلْظَةً
: سختی
وَاعْلَمُوْٓا
: اور جان لو
اَنَّ
: کہ
اللّٰهَ
: اللہ
مَعَ الْمُتَّقِيْنَ
: پرہیزگاروں کے ساتھ
اے ایمان والو ! لڑتے رہو ان لوگوں سے جو تمہارے قریب ہیں کافروں میں سے ۔ اور چاہیے کہ وہ پائیں تم میں سختی۔ اور جان لو کہ بیشک اللہ تعالیٰ متقیوں کے ساتھ ہے
ربط آیات : اس سورة میں زیادہ تر قتال فی سبیل اللہ کا ذکر ہے ، اور اس سلسلے میں منافقین کی بہت سی مذمت بیان کی گئی ہے کیونکہ و ہ جہاد سے پیچھے رہتے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ ان اہل ایمان کو تنبیہ کی گئی ہے جو محض سستی کی وجہ سے غزوہ تبوک میں شریک نہیں ہوسکے۔ درمیان میں اللہ تعالیٰ نے جہاد اور حصول علم کی فرضیت کا زکر بھی کیا۔ عام حالات میں یہ دونوں چیزیں فرض کفایہ ہوتی ہیں۔ اگر مسلمانوں میں مجاہدین کی ایک ایسی جماعت موجود ہو جو جہاد کے لیے ہر وقت مستعد ہو تو باقی مسلمانوں کی طرف سے بھی یہ فریضہ اد اہو جائے گا ، اور اگر کوئی بھی مسلمان جہاد کے لیے تیار نہ ہو تو پھر سارے کے سارے مسلمان گنہگار ہوں گے۔ حصول علم بھی اسی طرح فرض کفایہ ہے اگر ان میں سے کچھ لوگ حصول علم دین کی طرف متوجہ ہوجائیں تو یہ فریضہ سب کی طرف سے ادا ہوجائے گا اور اگر کوئی بھی علم دین حاصل نہ کرے اور لوگ امور دین سے بےبہرہ ہی رہیں پھر تو سب گنہگار ہونگے مقصد یہ ہے کہ دنیا کا نظام بھی قائم رہے اور جہاد اور علم کے تقاضے بھی پورے ہوتے رہیں۔ جہاد اور تعلیم بعض اوقات فرض عین بھی بن جاتا ہیں۔ جب دشمن حملہ آور ہو تو ضرورت کے مطابق ہر مسلمان عورت مرد ، چھوٹے ، بڑے کو اپنی اپنی حیثیت اور استعداد کے مطابق جہاد میں حصہ لینا ضروری ہوجاتا ہے۔ اسی طرح علم کے بھی دو حصے ہیں۔ ایک فرض عین اور دوسرا فرض کفایہ ، انسان کے بنیادی عقائد اور اس کے ذمہ فرائض کا جاننا فرض عین ہے۔ جب کہ شریعت کی جزئیات کا علم فرض کفایہ میں داخل ہے۔ جہاد کی مختلف صورتیں : جہاد کی مختلف صورتیں ہیں جن میں علم کا حصول اور پھر اس کی تبلیغ بھی شامل ہے۔ تبلیغ زبان کے ذریعے بھی ہوتی ہے اور کتب کی اشاعت کے ذریعے بھی۔ اس کے علاوہ مال کے ذریعے بھی جہاد ہوتا ہے۔ اور سب سے اہم صورت جہاد میں بنفس نفیس شرکت ہے۔ جہاد کبھی دفاعی شکل میں ہوتا ہے اور کبھی اقدامی شکل میں۔ جب دشمن ہجوم کر جائے تو پھر ملکی دفاع کے لیے ہر چھوٹا بڑا فرض ادا کرتا ہے۔ جہاد کی یہ دونوں صورتیں روا ہیں اور اہل اسلام کے لیے ضروری ہیں۔ اگر اہل ایمان جہاد سے غفلت برتیں گے تو ملت پر زوال آئے گا اور قوم ترقی کی بجائے تنزل میں چلی جائے گی۔ مسلمان اور فریضہ جہاد : جب تک مسلمانوں میں جذبہ جہاد زندہ رہا ان کو ترقی نصیب ہوتی رہی ، مگر جب یہ جذبہ کمزور ہونا شروع ہوگیا تو ملت انحطاط کا شکا ہوگئی۔ اس وقت دنیا بھر میں مسلمانوں کا کوئی مرکز نہیں۔ دنیا میں پچاس کے قریب اسلامی ریاستیں ہیں مگر مرکزیت نہ ہونے کی وجہ سے باہمی ربط مفقود ہے اس کے برخلاف عیسائیوں ، یہودیوں اور دہریوں کے مضبوط مراکز موجود ہیں جو منظم طریقے سے مسلمانوں کے خلاف کام کر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمان ریاستیں اتنی کمزور ہوچکی ہیں کہ وہ کسی بڑی طاقت کے خلاف نبردآزما نہیں ہو سکتیں جہاد کی اہمیت کے متعلق حضور ﷺ کا ارشاد ہے (1۔ مسلم ، ص 141 ، ج 2) (فیاض) ” من مات ولم یغز ولم یحدث بہ نفسہ مات علی شعبۃ من النفاق “ جو شخص اس حالت میں مرگیا کہ نہ تو اس نے بالفعل جہاد کیا اور نہ اس کے بارے میں اپنے دل میں کوئی بات سوچی تو ایسا شخص نفاق کے شعبے پر مرا۔ ایک مقام پر ایسے شخص کے متعلق آتا ہے ” مات میتۃ الجاھلیۃ “ یعنی ایسا شخص جاہلیت کی موت مرا۔ کسی نہ کسی شکل میں ہر مسلمان پر جہاد کی تیاری کرنا فرض ہے۔ جس دن مکہ فتح ہوگیا ، فرمایا آج ہجرت تو ختم ہوگئی۔ البتہ جہاد اور اس کی نیت کا سلسلہ نزول مسیح تک جاری رہیگا۔ اگر کسی کو موقع نہیں مل سکا کہ وہ جہاد میں شریک ہو تو کم از کم اس کی نیت یہ ہونی چاہیے کہ جب بھی موقع ملا وہ بلا چون وچرا جہاد میں حصہ لے گا۔ مرکزیت اسلام : جیسا کہ پہلے عرض کیا کہ مسلمانوں کی مرکزیت نہ ہونے کی وجہ سے دنیا میں ان کی حالت بہت کمزور ہے۔ ایک امیدپیدا ہوئی تھی کہ پاکستان پوری دنیا کے لیے مرکز اسلام بن جاتا مگر افسوس کہ اب تک مسند اقتدار پر آنے والے سربراہاں میں سے کسی نے بھی اس کام کو اولیت نہیں دی۔ اسلام کا نام تو ہر آنے والے نے لیا کیونکہ پاکستا نے کے پچانویں فیصد باشندے نسلی طور پر مسلمان ہیں اور اسلام کے دعویدار ہیں۔ تقسیم ملکی کی وجہ سے مسلمان اس خطہ میں اکٹھے بھی ہوگئے ہیں۔ چناچہ حکمران اسلام کا نام لینے اس لیے مجبور ہیں کہ عوام کی غاب اکثریت اسلام کیک خلاف ایک لفظ تک سننا گورا نہیں کرتی۔ مگر حاکمان وقت نے نفاذ اسلام کی ذمہ داری آج تک پوری نہیں کی۔ اب ہمارے افکار بھی مستعار ہیں ، سیاست مغلوب ہے ، کوئی اشتراکیت جیسے لعنتی نظام سے متاثر ہے اور کوئی امریکی اور برطانوی سرمایہ داری نظام کا گرویدہ ہے۔ یہ نظام بھی ملعن ہے کیونکہ اس نظام میں صرف دولت اکٹھی کی جاتی ہے ، نہ تو ذرائع آمدنی کی حلت و حرمت کا خیال رکھا جاتا ہے اور نہ اخراجات پر کوئی پابندی ہوتی ہے ، یہی وجہ ہے کہ فلم انڈسٹری ، کھیلوں کے فروغ اور عمارت کی تعمیر پر بےدریغ روپیہ صرف کیا جاتا ہے۔ فرعون نے بڑے بڑے مینار تعمیر کر کے سرمایہ داری کا اظہار کیا تھا اور آج ہم بڑے بڑے سیکرٹیریٹ ، قصر صدارت اور اسمبلی حالوں پر کروڑوں روپے خرچ کر کے عوام کی غربت کا مذاق اڑا رہے ہیں۔ اس نظام کو تو اللہ نے اپنے آخری نبی کے ذریعے ختم کیا تھا ، مگر آج وہی نظام سرمایہ داری پھر عودکر آیا ہے۔ اسلامی نظام معیشت : نزول قرآن کے زمانے میں دو بنیادی نظامہائے معیشت رائج تھے اس وقت قیصر و کسری کی دو سپر طاقتوں میں سے کسریٰ ایشا اور یورپ کے کچھ حصے پر مسلط تھا جب کی قیصر کی ماتحتی میں یورپ کا اکثر حصہ اور مشرق وسطی کے علاقے تھے۔ اس زمانے میں نظام معیشت بھی دو طرح کے تھے ایک امریکہ اور برطانیہ جیسا نظام سرمایہ داری تھا جس کے ذریعے ہر جائز اور ناجائز ذرائع سے دولت اکٹھی کر کے اسے من مانے طریقے پر خرچ کیا جاتا تھا۔ دوسری طرف اشتراکیت کا نظام تھا جس میں خدا کا سرے سے انکار ہی کردیا گیا تھا۔ آج بھی دین کا تمسخر اڑایا جاتا ہے اور اسے افیون سے تعبیر کیا جاتا ہے اس نظام میں شخصی ملکیت کو ختم کر کے تمام ذرائع پیداوار حکومت کی تحویل میں لے لیے جاتے ہیں۔ امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی مشیت میں یہ بات تھی کی ان دو نظاموں کو نبی عربی کے ذریعے ختم کردیا جائے۔ شاہ صاحب کی اصطلاح میں اباحیت یعنی حلال و حرام کا امتیاز دونوں نظاموں میں نہیں ہے ، یہ صرف اسلامی نظام معیشت ہے جو حلال و حرام کی تمیز سکھاتا ہے۔ خدا تعالیٰ کی وحدانیت کا صحیح تصور پیش کرتا ہے ، انبیاء علیم السلام کی تعلیم کو واضح کرتا ہے۔ اشتراکیت کے برخلاف اسلام نے ذاتی ملکیت کو ختم نہیں کیا کیونکہ یہ فطرت کے خلاف ہے ، اسلام نے حق ملکیت کو تسلیم کیا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ تفاوت درجات کو بھی مانا ہے۔ اسلام میں کسی مسلمان یا غیر مسلم کو بنیادی حقوق سے محروم نہیں رکھا جاسکتا۔ اسلام کا یہ زریں اصول ہے کہ ہر شخص کو مکان ، لباس ، خوراک ، صحت اور تعلیم کی بنیادی سہولتیں ملنی چاہیں مگر یہ سب کچھ اسی وقت ممکن ہے۔ جب مسلمانوں کو دنیا میں کہیں اجتماعیت حاصل ہو۔ جب مسلمانوں کو اپنے وسائل پر مکمل کنٹرول نہ ہو اور انہیں استعمال کرنے کے استعداد نہ ہو ، اسلامی فلاح نظام کیسے قائم کیا جاسکتا ہے ؟ آج تو حالت یہ ہے کہ ہمارے تمام کے لیے سی کی میں بن رہی ہیں تو کہیں فلم انڈسٹری کو ترقی دی جا رہی ہے سیروسیاحت کی وزارتیں بنتی ہیں اور پھر ان پر کروڑوں روپے کے پلان غیر ملکی ماہرین تیار کرتے ہیں۔ اس انحاط کی وجہ یہ ہے کہ عرب وعجم میں کہیں بھی مسلمانوں کو مرکزیت حاصل نہیں۔ برسراقتدار لوگوں کو اپنے اقتدار کی فکر رہتی ہے کہ وہ قائم رہنا چاہیے نام نہاد جمہوریت کے نام پر ہو یا مارشل لاء کے ذریعے سے اسلام کا نام لینے سے اقتدار ملتا ہو یا سوشلزم کا پرچار کرنے سے۔ اسلام بہرحال ایسے تمام باطل نظاموں کے خلاف ہے۔ جہاد کی طبعی تربیت : درحقیقت ملت حنفیہ کا مرکز خانہ کعبہ تھا مگر وہاں پر مشرکوں کے غلبے کی وجہ سے حضور ﷺ کو ہجرت کرنا پڑی اور اس دوران اللہ نے اپنے نبی کے شہر مدینہ طیبہ کو مرکزی حیثیت دیدی۔ تمام احکام اسی مرکز سے جاری ہونے لگے۔ چناچہ جہاد کے متعلق جو حکم جاری ہوا وہ یہ تھا (آیت) ” یایھا الذین امنوا قاتلو الذین یلونکم من الکفار “ اے ایمان والو ! کفار میں سے ان لوگوں کی ساتھ جنگ کرو جو تمہارے نزدیک ہیں۔ اس آیت میں اللہ نے جہاد کا طبعی اصول بتایا ہے کہ دین کے غلبے کے لیے جنگ اپنے گھر سے شروع کرو جب تک تمہارے اپنے ملک کے لوگ ایمان نہیں لے آئیں گے یا مغلوب نہیں ہوجائیں گے اس وقت تک تمہارا پروگرام بیرون ملک کامیاب نہیں ہوسکتا۔ اگر قریب والوں کو چھوڑ کر دور والوں سے مقابلہ کردیا جائیگا تو یہ ایک غیر طبعی فعل ہوگا۔ چناچہ حضور ﷺ نے سب سے پہلے اپنے خاندان اور ملک کے لوگوں یعنی قریش مکہ سے جہاد کا آغاز کیا 2 ھ میں انہیں بدر کے مقام پر شکت دی۔ 3 ھ میں احد کے میدان میں اگرچہ مسلمانوں کو نقصان اٹھانا پڑا مگر قریش بھی اس سے کوئی سیاسی مفاد حاصل نہ کرسکے۔ اس کے بعد مسلمانوں کو پے درپے کامیابیاں حاصل ہوئیں اور بالآخر 8 ھ میں مکہ فتح ہوگیا۔ پھر اگلے سال یعنی 9 ھ میں حرم مکہ کو مکمل طور پر مشرکین سے پاک کردینے کا اعلان کردیا گیا ، مدینے کے اطراف میں یہودیوں اور عیسائیوں نے بڑی سازشیں کیں اور اسلام کو زک پہنچانے کی کوشش کی ، اہل اسلام نے ان کے خلاف بھی جہاد کیا ، پھر دیگر قبائل عرب کو شکست دی اور اس طرح پورا خطہ عرب کفر اور شرک سے پاک ہوگیا۔ جب قریب والوں سے معاملہ صاف ہوگیا تو پھر 9 ھ میں ہی آپ نے بیرون ملک رومی سلطنت کی طرف توجہ کی اور غزوہ تبوک کے لیے تشریف لے گئے جس کے تفصیلی حالات پہلے بیان ہوچکے ہیں غرضیکہ جہاد کی ابتداء اپنے قریب والوں سے کر کے اس کا دائرہ بتدریج وسیع کیا گیا اور پھر حضور ﷺ کے بعد خلفائے راشدین نے اس مشن کو جاری رکھا۔ جہاد بالنفس : صاحب تفسیر حقانی نے امام ابن عربی (رح) کے حوالے سے اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے کہ اگر انصاف سے دیکھا جائے تو انسان سے قریب ترین اس کا اپنا نفس ہے لہٰذا اس آیت کی رو سے سب سے پہلے اپنے نفس کے خلاف جہاد کرنا چاہیے۔ ” عدوک الذی بین جنبیک نفسک “ یعنی تمہارا دشمن تو تمہارے پہلو میں بیٹھاس ہے۔ یہ تمہارا نفس امارہ ہے سب سے پہلے اس کے خلاف جہاد کرو۔ ترمذی شریف کی روایت م (1۔ ترمذی ، ص 252) (فیاض) میں آتا ہے ” المجاھد من جاھد نفسہ “ یعنی مجاہد وہ ہے جس نے اپنے نفس کے ساتھ جہاد کیا۔ اگر تم نے اپنے نفس کو کنٹرول کرلیا تو تم شائستہ انسان بن جائو گے ، اور اگر تمہارا نفس ہی تمہارے بس میں نہیں تو پھر وہ کسی قانون کا پابند ہوگا۔ وہ تو بدمعاشی ، فحاشی ، ظلم ، زیادتی اور برائی پر ہی مائل ہوگا ، ایسا نفس انصاف کو قائم نہیں رکھ سکتا ، لہٰذا پہلے اپنے نفس کو ٹھیک کرو ، جو تمہارے لیے قریب ترین ہے ، پھر اس کے بعد دوسروں سے جہاد کرو۔ کفار کے ساتھ سختی : فرمایا کافروں کے ساتھ جہاد کا اثر یہ ہونا چاہیے (آیت) ” ولیجدوا فیکم غلظۃ “ کہ وہ تمہارے اندر سختی پائیں۔ جب دشمن کے ساتھ مڈبھیڑ ہوجائے تو پھر ان کے ساتھ نرمی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا بلکہ ان کے ساتھ ایسا سلوک کرو کہ وہ تم میں واضح طور پر سختی کو محسوس کریں۔ سورة فتح میں موجود ہے (آیت) ” محمد رسول اللہ والذین معہ اشدآء علی الکفار رحماء بینھم “ محمد رسول اللہ اور آپ کے ساتھی کافروں پر سخت ہیں اور آپس میں رحمدل ہیں۔ ایک دوسرے کے ساتھ شفقت ومہربانی سے پیش آتے ہیں۔ دوسرے مقام پر فرمایا (آیت) ” اذلۃ علی المومنیناعدۃ علی الکفرین “ (المائدۃ) مومنوں کے لیے بڑی نرم اور کافروں کے لیے سخت ہیں اسی سورة میں پیچھے گزر چکا ہے (آیت) ” یایھا النبی جاھد الکفار والمنفقین واغلظ علیھم “ اے نبی (علیہ السلام) ! کفار اور منافقین کے ساتھ جہاد کریں اور ان پر سختی کریں۔ کفار کے ساتھ مادی سختی اور منافقین کے ساتھ زبانی سختی کا حکم ہے۔ ایک حدیث میں حضور ﷺ کا یہ فرمان بھی ہے ” انا نبی الرحمۃ نبی الملحمۃ “ میں رحمت والا نبی ہوں اور میں جنگ ولا نبی ہوں۔ آپ نے یہ بھی فرمایا ” انا ضحوک القتال “ میں ہنس مکھ بھی ہوں لیکن لڑنے والا بھی ہوں۔ الغرض ! اللہ نے فرمایا کہ ایمان والوں میں سختی بھی ہونا چاہیے جسے کفار محسوس کریں۔ ارشاد باری تعالیٰ تو یہ ہے مگر آج ہم مسلمانوں کی حالت دیکھ رہے ہیں کہ یہ یہود ونصاریٰ اور کفار ومشرکین کے ساتھ نرمی اختیار کرتے ہیں مگر آپس میں ایک دوسرے کے حق میں بڑے سخت اور تند خو ہیں۔ اب تو سارا معاملہ ہی الٹ ہوچکا ہے۔ اگر آپس میں کوئی اختلاف بھی پیدا ہوجائے تو اسے احسن طریقے سے طے کرلینا چاہیے نہ کہ ایک دوسرے کے جانی دشمن بن جائیں۔ آپ کی دشمنی انفرادی طور پر پائی جاتی ہے اور حکومتی سطح پر بھی دو مسلمان ملک ایران اور عراق کئی سالوں سے ایک دوسرے کے خلاف برسرپیکار ہیں۔ ہزاروں جانیں ، اسلح اور جہاز تباہ ہوچکے ہیں جو بحیثیت مجموعی عالم اسلام کی کمزوری کا باعث بن رہے ہیں مگر دونوں فریق اپنی اپنی ضد پر اڑے ہوئے ہیں اور ساری دنیا کے مسلمان مل کر بھی ان کا تصفیہ نہیں کر اسکے۔ اس ضمن میں اللہ تعالیٰ کا واضح حکم موجود ہے کہ اگر دو مسلمان طاقتوں کے درمیان جنگ ہوجائے تو ان کے درمیان صلح کرا دو اور اگر ان میں سے کوئی فریق زیادتی کرتا ہے تو اس کے خلاف کاروائی کرو (آیت) ” حتی تفی الی امر اللہ “ (الحجرات) یہاں تک کہ وہ اللہ کی بات کی طرف لوٹ آئے۔ مگر یہاں کیا ہو رہا ہے میٹنگیں ہوتی ہیں ، مشورے ہوتے ہیں ، کمیٹیاں بنتی ہیں مگر نتیجہ کچھ نہیں نکلتا ناکامی کی وجہ یہ ہے کہ قرآنی پروگرام پر عمل نہیں ہورہا ہے۔ جب تک اس پروگرام پر عمل نہیں ہوگا۔ اصلاح احوال ممکن نہیں۔ بہر حال اللہ تعالیٰ نے کافروں کے ساتھ سختی کرنے کا حکم دیا ہے ان کے ساتھ ایسا سلوک ہونا چاہیے جس سے وہ سمجھ جائیں کہ مسلمان بڑے سخت ہیں اور ان کے خلاف ہماری کوئی سازش کامیاب نہیں ہوسکتی۔ اور پھر یہ بھی خیال رہے کہ یہ سختی کسی ذاتی غرض کے لیے نہیں بلکہ خالص اللہ کی رضا کے لیے ہو۔ تمہارے دل میں کوئی توسیع پسندانہ عزم یا ہوس ملک گیری نہیں ہونی چاہیے ، نہ ہی کسی سے مال چھیننا یا کسی کو ذلیل کرنا مقصود ہو۔ حضور ﷺ نے مجاہدین کو یہ دعا سکھائی تھی۔ ” اللھم ھازم الاحزاب ومنزل الکتب ومجری السحاب اھزمھم وانصرناعلیھم “ اے لشکروں کو شکست دینے ، کتاب کو نازل کرنے اور بادلوں کو چلانے والے خدا ، کافروں کو شکست دے اور ہمیں ان پر غلبہ عطا کر۔ ہم تو تیری نازل کردہ کتاب کے پروگرام کو جاری کرنا چاہتے ہیں۔ جب کہ یہ لوگ تیرے دین کو مٹانا چاہتے ہیں ، لہٰذا ان کے خلاف ہماری مدد فرما ہماری اس میں کوئی ذاتی غرض نہیں ہے۔ متقین کے لیے بشارت : فرمایا یاد رکھو ! (آیت) ” واعلموا ان اللہ مع المتقین “ بیشک اللہ تعالیٰ کی رفاقت ، معیت ، توجہ اور مہربانی متقیوں کے ساتھ ہے۔ اور متقی وہ شخص ہے جو سب سے پہلے اپنے آپ کو کفر ، شرک اور نفاق سے پاک کریگا۔ پھر شکوک و شبہات کو دور کریگا ، اللہ کی مہربانی اسی صورت میں اس کے شامل حال ہو سکتی ہے۔ اور اللہ کی مدد بھی جبھی ہوگیا جب کوئی شخص قرآن کے پروگرام کو صحیح طور پر چلائیگا۔ منافقوں کی طرح ظاہر و باطن میں تضاد کا حامل شخص نصرت الٰہی کا مستحق نہیں ہوگا۔ جس کے اپنے قول وفعل میں تضاد ہو ، وہ نہ تو اللہ کے احکام کو اس کے بندوں پر نافذ کرسکتا ہے اور نہ اللہ کی رحمت اور اس کی امداد کا مستحق بنتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں جہاد شروع کرنے کے لیے ترجیحات کا تعین فرمایا ہے کہ پہلے قریب والوں کو صاف کرو اور پھر قدم بقدم آگے بڑھتے جائو۔ تمہارے اندر واضح طور پر سختی ہونی چاہیے جسے دشمن محسوس کرے نیز تقوی کی راہ اختیار کرو کیونکہ خدا کی معیت متقیوں کو ہی حاصل ہوسکتی ہے۔
Top