Aasan Quran - At-Tawba : 12
وَ اِنْ نَّكَثُوْۤا اَیْمَانَهُمْ مِّنْۢ بَعْدِ عَهْدِهِمْ وَ طَعَنُوْا فِیْ دِیْنِكُمْ فَقَاتِلُوْۤا اَئِمَّةَ الْكُفْرِ١ۙ اِنَّهُمْ لَاۤ اَیْمَانَ لَهُمْ لَعَلَّهُمْ یَنْتَهُوْنَ
وَاِنْ : اور اگر نَّكَثُوْٓا : وہ توڑ دیں اَيْمَانَهُمْ : اپنی قسمیں مِّنْۢ بَعْدِ : کے بعد سے عَهْدِهِمْ : اپنا عہد وَطَعَنُوْا : اور عیب نکالیں فِيْ : میں دِيْنِكُمْ : تمہارا دین فَقَاتِلُوْٓا : تو جنگ کرو اَئِمَّةَ الْكُفْرِ : کفر کے سردار اِنَّهُمْ : بیشک وہ لَآ : نہیں اَيْمَانَ : قسم لَهُمْ : ان کی لَعَلَّهُمْ : شاید وہ يَنْتَهُوْنَ : باز آجائیں
اور اگر ان لوگوں نے اپنا عہد دے دینے کے بعد اپنی قسمیں توڑ ڈالی ہوں اور تمہارے دین کو طعنے دئیے ہوں، تو ایسے کفر کے سربراہوں سے اس نیت سے جنگ کرو کہ وہ باز آجائیں۔ (11) کیونکہ یہ ایسے لوگ ہیں کہ ان کی قسموں کی کوئی حقیقت نہیں۔
11۔ پچھلی آیت کی روشنی میں قسمیں توڑنے سے مراد یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ ایمان لانے کے بعد مرتد ہوجائیں، جیسا کہ آنحضرت ﷺ کے وصال کے بعد بعض قبائل مرتد ہوئے، اور حضرت صدیق اکبر ؓ نے ان سے جہاد کیا اور یہ بھی مطلب ہوسکتا ہے کہ جن لوگوں سے تمہارا معاہدہ تھا اور وہ پہلے ہی عہد توڑ چکے یا جن سے معاہدہ نو مہینے تک باقی ہے وہ اس دوران معاہدہ توڑیں، ان سے جہاد کرو اور یہ جو فرمایا گیا ہے کہ اس نیت سے جنگ کرو کہ وہ باز آجائیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ تمہاری طرف سے جنگ کا مقصد ملک گیری کے بجائے یہ ہونا چاہیے کہ تمہارا دشمن اپنے کفر اور ظلم سے باز آجائے۔
Top