Ruh-ul-Quran - Adh-Dhaariyat : 48
وَ الْاَرْضَ فَرَشْنٰهَا فَنِعْمَ الْمٰهِدُوْنَ
وَالْاَرْضَ : اور زمین کو فَرَشْنٰهَا : بچھایا ہم نے اس کو فَنِعْمَ الْمٰهِدُوْنَ : تو کتنے اچھے بچھانے والے ہیں۔ ہموار کرنے والے ہیں
اور زمین کو ہم نے بچھایا، پس کیا ہی خوب بچھانے والے ہیں
وَالْاَرْضَ فَرَشْنٰـھَا فَنِعْمَ الْمٰھِدُوْنَ ۔ (الذریٰت : 48) (اور زمین کو ہم نے بچھایا، پس کیا ہی خوب بچھانے والے ہیں۔ ) آسمان کے بعد زمین کا ذکر اپنی قدرت کے اظہار کے لیے اور دلائلِ آفاق کو بیان کرتے ہوئے آسمان کے بعد زمین کی طرف توجہ دلائی ہے کہ ذرا اس زمین کو دیکھو کہ ہم نے کس طرح اس کو بچھایا، کس طرح اس کو انسان کی سکونت کے قابل بنایا۔ یہ آگ کے گولے کی مانند تھی، ہم نے اس کو نہایت آرام دہ بنادیا۔ اس کو غیرمتوازن ہونے سے بچانے کے لیے پہاڑوں کی میخیں گاڑ دیں، میدانی علاقوں میں دریا رواں کردیئے اور پہاڑوں میں چشمے اور آبشاریں رواں کردیں، سردیوں میں پہاڑوں پر برف جمائی، گرمیوں میں اسے پگھلا کر زمین کی آبیاری کا سامان کیا، اس کے اوپر کی سطح پر ایک ایسا چھلکا چڑھا دیا جس میں قوت روئیدگی رکھی اور مخلوقات کی غذا کا سامان فراہم کیا، سورج سے زمین کو خاص فاصلے پر رکھا اور اس کو اس طرح 23 درجے ایک طرف جھکایا جس سے موسموں کے تغیرات پیدا ہوئے، سورج کی گرمی سے پانی کے ذخیروں سے بھاپ اٹھا کر بادل بنائے پھر ہَوائوں کے ذریعے ہر جگہ ان کے برسنے کا انتظام کیا۔ غرضیکہ زمین میں ایسی نشانیاں ہیں جو قدم قدم پر انسان کو آخرت کے تصور سے بہرہ ور کرتی ہیں۔ اور یہ تصور دیتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے یہ کارنامہ عبث نہیں پیدا کیا۔ اور یہ بات اس کی حکمت اور ربوبیت کیخلاف ہے کہ وہ کوئی عبث کام کرے۔ حکمت و ربوبیت کا لازمی تقاضا ہے کہ وہ ایک ایسا دن بھی لائے جس میں ہر شخص اس دنیا کی زندگی سے متعلق مسؤل ٹھہرے۔ اور اس کی مسؤلیت سے متعلق اس کا حساب لیا جائے۔ وہ اپنی شکرگزاری کا صلہ پائے اور اپنی ناشکری اور نافرمانی کی سزا بھگتے۔
Top