Urwatul-Wusqaa - At-Tawba : 85
وَ لَا تُعْجِبْكَ اَمْوَالُهُمْ وَ اَوْلَادُهُمْ١ؕ اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰهُ اَنْ یُّعَذِّبَهُمْ بِهَا فِی الدُّنْیَا وَ تَزْهَقَ اَنْفُسُهُمْ وَ هُمْ كٰفِرُوْنَ
وَلَا تُعْجِبْكَ : اور آپ کو تعجب میں نہ ڈالیں اَمْوَالُهُمْ : ان کے مال وَاَوْلَادُهُمْ : اور ان کی اولاد اِنَّمَا : صرف يُرِيْدُ : چاہتا ہے اللّٰهُ : اللہ اَنْ : کہ يُّعَذِّبَهُمْ : انہیں عذاب دے بِهَا : اس سے فِي الدُّنْيَا : دنیا میں وَتَزْهَقَ : اور نکلیں اَنْفُسُهُمْ : ان کی جانیں وَهُمْ : جبکہ وہ كٰفِرُوْنَ : کافر ہوں
اور ان کے مال اور ان کی اولاد پر تمہیں تعجب نہ ہو یہ اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ اللہ چاہتا ہے مال و اولاد کے ذریعے انہیں عذاب دے اور ان کی جان اس حالت میں نکلے کہ سچائی کے منکر ہوں
اے پیغمبر اسلام یا اے مخاطب ! ان کے مال و اولاد پر تم کو تعجب نہ ہو : 114: اس میں تعجب کی بات کیا ہے ؟ تعجب کی بات یہ کہ جب یہ لوگ مبغوض و مردود ہیں تو ان پر یہ نعمتیں کیوں ؟ فرمایا ان کی آزمائش کے لئے یہ مال ، اولاد ان کو مزید بےراہ کرتی ہے یا سیدھی راہ کی طرف رہنمائی کرتی ہے لیکن اکثر ہوتا ایسا ہی ہے کہ اللہ کے انعامات ان کے لئے ترقی و عروج کی کمندیں نہیں بلکہ غلامی ان کے پھندے ثابت ہوتے ہیں اور یہ لوگ اللہ کے انہی انعامات کے باعث دنیا میں بھی اللہ کے عذاب میں مبتلا ہوتے ہیں اور ان کی موت بھی کفر و نفاق ہی پر ہوتی ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ مال و اولاد کی قدر و قیمت بھی ایمان ہی کے ساتھ ہے۔ جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ مال بھی بخشے اور اولاد سے بھی نوازے وہ ملت کے لئے بڑی دولت ہیں اگر ان کو ایمان و اخلاص بھی نصیب ہوجائے تو ہر یہی خواہ ملت ایسے لوگوں کو ادر و قیمت کی نگاہ سے دیکھتا ہے اس لئے کہ جان و مال دونوں سے اسلام کی جو خدمت ان کے امکان میں ہوتی ہے دوسروں کے امکان میں نہیں ہوتی۔ ان منافقین میں بھی ایسے صاحب مال و اولاد موجود تھے جو اسلام کی بڑی خدمت اور آخرت میں بڑے مراتب حاصل کرسکتے تھے اور نبی اعظم و آخر ﷺ بھی دل سے متمنی تھے کہ وہ لوگ ایمان و اخلاص سے بہرہ ور ہوں کہ اپنی ان نعمتوں کا صحیح حق ادا کریں اور اللہ کے ہاں مراتب عالیہ حاصل کریں لیکن سارے جتن کرنے کے بعد بھی جب یہ لوگ راہ راست کی طرف نہ آئے تو اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر محمد رسول اللہ ﷺ سے فرامیا کہ متعجب نہ ہوں یہی انعامات الٰہی ان لوگوں کے لئے باعث رحمت ہونے کی بجائے باعث زحمت اور لعنت ہوں گے۔ مال و اولاد کا ذکر خاص طور پر اس لئے کیا گیا ہے کہ انسان زیادہ تر انہی کے مفاد کی خاطر ایمان کے تقاضوں سے منہ موڑ کر منافقت اور فسق و نافرمانی میں مبتلا ہوتا ہے اور کبھی یہی چیزیں اچھے بھلے انسانوں کو بھی بےعقل اور ناسمجھ بنا کر رکھ دیتی ہے اور پھر خاص ان لوگوں کا کیا حال ہوگا جو پہلے ہی راہ راست پر نہیں بلکہ فسق و فجور پر ہیں تو ظاہر ہے کہ یہ لوگ اس میں مزیدبڑھ جائیں گے اور اپنی آخرت کو برباد کرلیں گے اور بجائے ایک فائدہ مند چیز کے ان کے لئے نقصان ہی کا باعث ہوگی۔ زیر نظر آیت کے پیچھے اس سورت کی آیت 55 کے طور پر بھی گزر چکی ہے لہٰذا وہاں سے بھی ملاحظہ فرمالیں۔ یعنی حاشیہ 77 کو دیکھ لیں اور دوسری جگہ مسلمانوں کو چوکنا کیا گیا ہے کہ دیکھو : ” تم لوگوں کو تمہارے مال اور اولادیں اللہ کی یاد سے غافل نہ کردیں جو لوگ ایسا کریں گے وہی خسارے میں رہنے والے ہیں۔ “ (المنافقون 63 : 9) منافقین کے لئے مال و اولاد اللہ کے عذاب کا باعث ہیں : 115: ” اللہ یہ چاہتا ہے “ کہ مال و اولاد کے ذریعہ انہیں عذاب دے اور ان کی جان اس حالت میں نکلے کہ وہ سچائی کے منکر ہوں ۔ ظاہر ہے کہ اللہ کے اس ارادے اور چاہت سے مراد اس کی مشیت تکوینی ہی ہو سکتی ہے اس جگہ دنیا میں ان کے لئے جس عذاب کا حوالہ ہے اس سے مراد وہ عذاب ہے جو رسول اللہ ﷺ کے مکذبین کے لئے مقرد ہوچکا تھا کہ وہ ذلیل و خوار ہوں گے اور ان کو اس دنیا میں چھپنے کے لئے جگہ بھی نہیں ملے گی اور پھر انجام کار وہ وقت آیا کہ فی الواقعہ جو اللہ نے فرمایا تھا وہ ہو کر رہا اور انہی مالوں اور اولادوں کے باعث دنیا میں ذلیل و خوار ہوئے۔ اس جگہ یہ مضمون تاکید کے لئے آیا ہے ورنہ جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا پیچھے اس سورت کی آیت 55 میں گزر چکا ہے۔
Top