Ruh-ul-Quran - An-Nisaa : 50
وَ لَا تُعْجِبْكَ اَمْوَالُهُمْ وَ اَوْلَادُهُمْ١ؕ اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰهُ اَنْ یُّعَذِّبَهُمْ بِهَا فِی الدُّنْیَا وَ تَزْهَقَ اَنْفُسُهُمْ وَ هُمْ كٰفِرُوْنَ
وَلَا تُعْجِبْكَ : اور آپ کو تعجب میں نہ ڈالیں اَمْوَالُهُمْ : ان کے مال وَاَوْلَادُهُمْ : اور ان کی اولاد اِنَّمَا : صرف يُرِيْدُ : چاہتا ہے اللّٰهُ : اللہ اَنْ : کہ يُّعَذِّبَهُمْ : انہیں عذاب دے بِهَا : اس سے فِي الدُّنْيَا : دنیا میں وَتَزْهَقَ : اور نکلیں اَنْفُسُهُمْ : ان کی جانیں وَهُمْ : جبکہ وہ كٰفِرُوْنَ : کافر ہوں
اور تعجب میں نہ ڈالیں آپ کو ان کے مال اور ان کی اولاد۔ اللہ تو بس یہ چاہتا ہے کہ ان چیزوں کے سبب سے ان کو دنیا میں عذاب دے اور ان کی جانیں کفر کے حال میں نکلیں۔
وَلَا تُعْجِبْکَ اَمْوَالُھُمْ وَاَوْلَادُھُمْ ط اِنَّمَا یُرِیْدُاللّٰہُ اَنْ یُّعَذِّبَھُمْ بِھَافِی الدُّنْیَا وَتَزْھَقَ اَنْفُسُھُمْ وَھُمْ کٰفِرُوْنَ (التوبۃ : 85) (اور تعجب میں نہ ڈالیں آپ کو ان کے مال اور ان کی اولاد۔ اللہ تو بس یہ چاہتا ہے کہ ان چیزوں کے سبب سے ان کو دنیا میں عذاب دے اور ان کی جانیں کفر کے حال میں نکلیں۔ ) آنحضرت ﷺ سے خطاب اس آیت کی وضاحت آیت نمبر 55 میں بھی گزر چکی ہے۔ لیکن اس کی اہمیت کے پیش نظر اسے دوبارہ لایا گیا ہے۔ اس میں خطاب اگرچہ آنحضرت ﷺ کو ہے لیکن حقیقت میں مسلمان اس کے مخاطب ہیں۔ لیکن اس بات کا ایک پہلو چونکہ آنحضرت ﷺ سے متعلق تھا اس کی وجہ سے آنحضرت ﷺ سے خطاب فرمایا گیا ہے اور پھر ان کے واسطے سے مسلمانوں سے ارشاد فرمایا گیا ہے۔ آنحضرت ﷺ سے شاید یہ کہنا مقصود ہے کہ آپ اپنی کریم النفسی اور طبعی رحمت کے باعث جہاں سے اسلام اور مسلمانوں کو فائدہ پہنچ سکتا ہو۔ آپ اس کی نہ صرف قدر فرماتے ہیں بلکہ زیادہ سے زیادہ توجہ بھی فرماتے ہیں۔ قبائلی معاشرہ میں مال اور اولاد کی کثرت عزت اور اہمیت کی علامت سمجھی جاتی ہے۔ لوگ ایسے شخص کی بات توجہ سے سنتے اور قبول کرتے ہیں۔ جوان بیٹے اگر ایک معقول تعداد میں ہوں تو وہ قوت کا سامان ہوتے ہیں۔ اس لیے ایسے شخص کو لوگ یہ سمجھ کر احترام دیتے ہیں کہ اس کے ساتھ قوت کے کئی بازو بھی ہیں۔ مدینہ منورہ کے منافقین معلوم ہوتا ہے کہ مال دار بھی تھے اور کثرت اولاد بھی رکھتے تھے۔ آنحضرت ﷺ ان کے اثر ورسوخ کو اسلام کی طاقت کے طور پر استعمال کرنے کی غرض سے شدید خواہش دکھتے تھے کہ اللہ ان کو اخلاص کی دولت دے دے تاکہ یہ اسلام کی قوت ثابت ہوں۔ لیکن پروردگار نے آنحضرت ﷺ کو ایسے منافقین کو اہمیت دینے سے روک دیا۔ مسلمانوں سے خطاب مسلمانوں سے یہ کہنا مقصود ہے کہ تم منافقین کی کثرت مال اور کثرت اولاد کو دیکھ کر اس گمان میں مبتلا نہ ہونا کہ یہ لوگ چونکہ دنیا میں خوشحال بھی ہیں اور کثرت اولاد کی وجہ سے طاقتور بھی اور قبائلی معاشرہ میں یہ دونوں چیزیں بےحدا ہمیت کی حامل ہوتی ہیں۔ اگر یہ لوگ اللہ کی نگاہ میں قابل قبول نہ ہوتے تو یقینا پروردگار انھیں اہمیت کا حامل سروسامان نہ دیتا۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ اللہ کی نگاہ میں پسندیدہ ہیں اسی لیے ان کی دنیا اچھی ہے تو یقینا یہ آخرت میں بھی پسندیدہ ٹھہرائے جائیں گے اور انھیں جنت میں رکھا جائے گا۔ مسلمانوں کو بتایا جارہا ہے کہ کثرت مال اور کثرت اولاد یہ درحقیقت آزمائش ہیں۔ بیشتر لوگ اس آزمائش میں مبتلا ہو کر ایمان تک سے محروم ہوجاتے ہیں۔ دنیا طلبی کے اسیر ہو کر آخرت کو بھول جاتے ہیں۔ بیٹوں کی طاقت میسر ہونے کی وجہ سے ظالم بن جاتے ہیں۔ یہ منافق لوگ بھی اسی صورتحال سے دوچار ہیں اللہ تعالیٰ یہ چاہتا ہے کہ یہ اسی طلسم میں مبتلا رہیں اور اسی حال میں ان کی جانیں نکلیں اور یہ دنیا اور اس کے وسائل ان کے لیے راحت کا سامان بننے کی بجائے جہنم کا ایندھن بن جائیں۔
Top