Asrar-ut-Tanzil - Hud : 112
فَوَرَبِّكَ لَنَسْئَلَنَّهُمْ اَجْمَعِیْنَۙ
فَوَرَبِّكَ : سو تیرے رب کی قسم لَنَسْئَلَنَّهُمْ : ہم ضرور پوچھیں گے ان سے اَجْمَعِيْنَ : سب
تمہارے پروردگار کی قسم ہم ان سے ضرور پرسش کریں گے۔
آیت نمبر 92 تا 93 قولہ تعالیٰ : فو ربک لنسئلنھم اجمعین یعنی ہم ضرور ان کے بارے پوچھیں گے جن کا ذکر جاری ہے ان اعمال کے بارے میں جو انہوں نے دنیا میں کئے۔ اور امام بخاری میں ہے : متعدد اہل علم نے قول باری تعالیٰ : فو ربک لنسئلنھم اجمعین۔ عما کانوا یعملون۔ کے بارے کہا ہے (کہ مراد یہ ہے) کہ ہم لا الہ الا اللہ کے بارے پوچھیں گے۔ میں (مفسر) کہتا ہوں : یہ حدیث مرفوعا روایت کی گئی ہے، ترمذی حکیم نے بیان کیا ہے : ہمیں جارود بن معاذ نے بیان کیا۔ انہوں نے کہا ہمیں فضل بن موسیٰ نے شریک سے انہوں نے لیث سے انہوں نے بشیر بن نھیک سے انہوں نے حضرت انس بن مالک ؓ سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے قول باری تعالیٰ : فوربک لنسئلنھم اجمعین۔ عما کانوا یعملون۔ کے بارے میں فرمایا : لا الہ الا اللہ کے قول (کے بارے ہم ان سے پوچھیں گے) ۔ ابو عبد اللہ نے کہا : ہمارے نزدیک اس کا معنی ہے لا الہ الا اللہ کی سچائی اور اسے پورا کرنے کے متعلق سوال ہوگا، وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں عمل کا ذکر کیا ہے اور کہا ہے عما کانوا یعملون اور یہ نہیں فرمایا عما کانوا یقولون (یعنی اس کے بارے میں جو وہ کہتے ہیں) اگرچہ یہ جائز ہے کہ قول بھی زبان کا عمل ہوتا ہے، بیشک اس سے مراد وہ معنی ہے جسے اہل لغت پہچانتے ہیں کہ قول قول ہے اور عمل عمل ہے۔ اور بیشک رسول اللہ ﷺ نے فرمایا عن قول لا الہ الا اللہ یعنی اس کے ساتھ وفا کرنے اور اس کے قول کی سچائی کے بارے سوال ہوگا، جیسا کہ امام حسن بصری ؓ نے کہا ہے : ایمان آراستہ اور مزین ہونے کے ساتھ نہیں اور نہ دین تمنی کے ساتھ ہے لیکن یہ وہ ہے جو دلوں میں راسخ اور ثابت ہو اور اعمال اس کی تصدیق کریں، اس وجہ سے رسول اللہ ﷺ نے یہ فرمایا ہے : ” جس نے اخلاص کے ساتھ لا الہ الا اللہ کہا وہ جنت میں داخل ہوگا “۔ عرض کی گئی : یا رسول اللہ ! ﷺ اس کا اخلاص کیا ہے ؟ فرمایا : ” وہ اسے اللہ تعالیٰ کے محارم سے روکے رکھے “۔ اسے حضرت زید بن ارقم ؓ نھے روایت کیا ہے۔ اور آپ ہی سے یہ بھی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” بیشک اللہ تعالیٰ نے میرے ساتھ عہد کیا ہے کہ میری امت کا کوئی آدمی جو لا الہ الا اللہ کہے گا اور اس کے ساتھ کسی اور شے کی آمیزش نہیں کرے گا اس کے لئے جنت واجب ہے “۔ صحابہ کرام نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! ﷺ کون سے شے ہے جسے لا الہ الا اللہ کے ساتھ ملایا جاسکتا ہے ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : ” دنیا پر حریص ہونا، اس کو جمع کرنا اور پھر اسے روک کر رکھنا، وہ قول انبیاء کا کہتے ہیں اور عمل جابروں اور ظالموں کا کرتے ہیں “۔ اور حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : لا الہ الا اللہ بندوں کو اللہ تعالیٰ کی ناراضگی سے باز رکھتا ہے جب تک وہ اپنے دنیا کے معاملہ کو اپنے دین پر ترجیح نہ دیں پس جب اپنی دنیا کے معاملہ کو اپنے دین پر ترجیح دیں اور پھر کہیں لا الہ الا اللہ تو اسے ان پر لوٹا دیا جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تم نے جھوٹ کہا ہے “۔ اس کی اسانید نوادر الاصول میں ہیں۔ میں (مفسر) کہتا ہوں : آیت اپنے عموم کے اعتبار سے تمام کے سوال اور ان کے محاسبے پر دلالت کرتی ہے جو ان میں سے کافر ہیں اور جو ان میں سے مومن ہیں، سوائے ان کے جو بغیر حساب کے جنت میں داخل ہوں گے جیسا کہ ہم نے اسے کتاب ” التذکرہ “ میں بیان کیا ہے۔ پس اگر کہا جائے : کیا کافر سے سوال کئے جائیں گے اور اس کا محاسبہ کیا جائے گا ؟ تو ہم کہتے ہیں : اس میں اختلاف ہے، اور ہم نے اسے ” التذکرہ “ میں ذکر کیا ہے۔ اور جو اس کے سوال کو ظاہر کرتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کے یہ ارشادات ہیں : وقفوھم انھم مسئولون۔ (الصافات) اور (اب ذرا) روک لو انہیں، ان سے باز پرس کی جائے گی) ۔ اور ان الینا ایابھم۔ ثم ان علینا حسابھم۔ (الغاشیہ) (بےشک انہیں (آخر) ہمارے پاس ہی لوٹ کر آنا ہے پھر یقیناً ہمارے ہی ذمہ ان کا حساب لینا ہے) پس اگر کہا جائے : تحقیق اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : ولا یسئل عن ذنوبھم المجرمون۔ (القصص) (اور نہیں دریافت کئے جائیں گے مجرموں سے ان کے گناہ) اور فرمایا : فیومئذ لا یسئل عن ذنبہ انس ولا جان۔ (الرحمن) (تو اس روز کسی انسان اور جن سے اس کے گناہ کے بارے میں نہ پوچھا جائے گا) اور فرمایا : ولا یکلمھم اللہ (البقرہ : 174) (اور بات تک نہ کرے گا ان سے اللہ تعالیٰ ) ۔ اور فرمایا : انھم عن ربھم یومئذ لمعجوبون۔ (المطففین) (یقیناً انہیں اپنے رب (کے دیدار) سے اس دن روک دیا جائے گا) ۔ تو ہم کہیں گے : قیامت کے کئی مقامات ہیں، پس کسی جگہ پر سوال و کلام ہوگی، اور کسی مقام پر ان میں سے کچھ نہ ہوگا۔ اور عکرمہ نے کہا : قیامت میں کئی مقامات ہوں گے، بعض میں سوال کئے جائیں گے اور بعض میں سوال نہیں کئے جائیں گے۔ اور حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : ان سے یہ سوال حصول خبر اور حصول علم کے لئے نہیں ہوگا کہ کیا تم نے اس اس طرح کیا ؟ کیونکہ اللہ تعالیٰ تو ہر شے کو جاننے والا ہے، لیکن ان سے یہ سوال برائے ڈانٹ ڈپٹ اور زجرو توبیخ کے ہوگا پس اللہ تعالیٰ ان سے فرمائے گا : تم نے قرآن کریم اور اس میں اپنے لئے موجود دلائل کی نافرمانی کیوں کی ہے ؟ اور قطرب نے اسی قول پر اعتماد کیا ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : لنسئلنھم اجمعین۔ (الحجر) یعنی ہم مکلف مومنوں سے ضرور سوال کریں گے، اس کا بیان یہ قول باری تعالیٰ ہے : ثم لتسئلن یومئذ عن النعیم۔ (التکاثر) (پھر ضرور پوچھا جائے گا تم سے اس دن جملہ نعمتوں کے بارے میں) اور عموم کے مطابق قول کرنا زیادہ اولیٰ اور بہتر ہے جیسا کہ ذکر کیا گیا ہے۔ واللہ اعلم۔
Top