Mutaliya-e-Quran - Al-Qasas : 60
وَ مَاۤ اُوْتِیْتُمْ مِّنْ شَیْءٍ فَمَتَاعُ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَ زِیْنَتُهَا١ۚ وَ مَا عِنْدَ اللّٰهِ خَیْرٌ وَّ اَبْقٰى١ؕ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ۠   ۧ
وَمَآ اُوْتِيْتُمْ : اور جو دی گئی تمہیں مِّنْ شَيْءٍ : کوئی چیز فَمَتَاعُ : سو سامان الْحَيٰوةِ : زندگی الدُّنْيَا : دنیا وَزِيْنَتُهَا : اور اس کی زینت وَمَا : اور جو عِنْدَ اللّٰهِ : اللہ کے پاس خَيْرٌ : بہتر وَّاَبْقٰى : اور باقی رہنے والا۔ تادیر اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ : سو کیا تم سمجھتے نہیں
تم لوگوں کو جو کچھ بھی دیا گیا ہے وہ محض دُنیا کی زندگی کا سامان اور اس کی زینت ہے، اور جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ اس سے بہتر اور باقی تر ہے کیا تم لوگ عقل سے کام نہیں لیتے؟
وَمَآ [اور جو ] اُوْتِيْتُمْ [تم لوگوں کو دی جاتی ہے ] مِّنْ شَيْءٍ [کوئی بھی چیز ] فَمَتَاعُ الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا [تو (وہ) دنیوی زندگی کا سامان ہے ] وَزِيْنَتُهَا ۚ [اور اس کی زینت ہے ] وَمَا [اور جو ] عِنْدَ اللّٰهِ [اللہ کے پاس ہے ] خَيْرٌ [(تو وہ) سب سے بہتر ہے ] وَّاَبْقٰى ۭ [اور سب سے زیادہ باقی رہنے والا ہے ] اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ [تو کیا تم لوگ عقل نہیں کرتے ] نوٹ۔ 1: قریش کو پورے ملک پر جو اقتدار حاصل تھا، وہ سمجھتے تھے کہ یہ ان کے دین شرک کی برکت سے ہوا ہے۔ مزید برآں انہوں نے پورے ملک پر اپنی مذہبی و سیاسی دھاک قائم رکھنے کے لئے یہ تدبیر اختیار کی تھی کہ تمام قبائل عرب کے اصنام خانہ کعبہ میں جمع کر دئیے تھے۔ اس طرح وہ سب کے امام و پیشوا بن گئے تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے جب دعوت توحید بلند کی تو اس کے خلاف انھوں نے یہ اعتراض کیا کہ اگر ہم اپنے دیوتاؤں کو چھوڑ کر صرف ایک خدا کے بن کر رہ جائیں تو تمام عرب ہمارا دشمن بن کر اٹھ کھڑا ہوگا اور اس ملک سے ہماری جڑ اکھڑ جائے گی۔ یہ بالکل وہی اعتراض ہے جو آج ہمارے لیڈر حضرات اسلامی نظام کے خلاف اٹھاتے ہیں کہ اگر ہم اسلامی نظام کو اختیار کرلیں تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اپنی معیشت و معاشرت کا تیاپانچہ کرکے دکھ دیں۔ یہی اعتراض فرعون اور اس کے اعیان نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی دعوت کے خلاف بھی اٹھایا تھا کہ یہ شخص ہماری اعلیٰ تہذیب کو مٹانے کے درپے ہے۔ (20/63) خدائی نظام کی مخالفت میں شیاطین کا سب سے زیادہ کارگر حربہ ہمیشہ سے یہی رہا ہے۔ (تدبر قرآن)
Top