Al-Qurtubi - Al-Baqara : 6
اِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا سَوَآءٌ عَلَیْهِمْ ءَاَنْذَرْتَهُمْ اَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَ
إِنَّ : بیشک الَّذِينَ : جن لوگوں نے کَفَرُوا : کفر کیا سَوَاءٌ : برابر عَلَيْهِمْ : ان پر أَ أَنْذَرْتَهُمْ : خواہ آپ انہیں ڈرائیں أَمْ لَمْ : یا نہ تُنْذِرْهُمْ : ڈرائیں انہیں لَا يُؤْمِنُونَ : ایمان نہ لائیں گے
جو لوگ کافر ہیں انہیں تم نصیحت کرو یا نہ کرو ان کے لئے برابر ہے، وہ ایمان نہیں لانے کے
آیت نمبر 6 جب پہلے مومنین اور ان کے احوال کا ذکر فرمایا تو کافروں اور ان کے انجام کا اب ذکر ہو رہا ہے۔ کفر، ایمان کی ضد ہے، آیت میں یہی مراد ہے کبھی کفر کا لفظ نعمت اور احسان کی ناشکری کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے، حدیث کسوف میں عورتوں کے متعلق نبی کریم ﷺ کا ارشاد اسی معنی میں ہے۔ فرمایا : ودایت النار قلم ارمنظراً کالیوم قط افظع ورایت اکثر اھلھا النساء قیل بم یا رسول اللہ ﷺ قال یکفر ھن قیل أیکفرون باللہ قال یکفرن العشیر ویکفرن الاحسان لو احسنت الی احداھن الدھر کلہ ثم رات منک شیئا قالت ما رایت منک خیراً قط (1) (بخاری) میں نے جہنم دیکھی اور میں آج کی طرح کبھی خوفناک منظر نہیں دیکھا۔ میں نے دوزخ میں اکثر عورتوں کو دیکھا۔ عرض کی گئی : یا رسول اللہ ! ﷺ ایسا کیوں ؟ فرمایا : ان کے کفر کی وجہ سے۔ عرض کی گئی : کیا یہ اللہ سے کفر کرتی ہیں ؟ فرمایا : یہ خاوند کی ناشکری کرتی ہیں اور احسان کی ناشکری کرتی ہیں۔ اگر تو ان میں سے کسی سے پورا زمانہ احسان بھی کرے کبھی تجھ سے کوئی تھوڑی سی کمی دیکھے گی تو کہے گی : میں نے تجھ سے کبھی خیر نہیں دیکھی۔ عرب کلام میں کفر کی اصل ڈھانپنا اور پردہ ڈالنا ہے۔ شاعر کا قول ہے : فی لیلۃ کفر النجوم غمامھا۔ (رات کے بادلوں نے ستاروں کو چھپا دیا ) ۔ اسی وجہ سے رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ اپنی تاریکی کے ساتھ ہر چیز کو چھپالیتی ہے۔ شاعر نے کہا : فتذکرا ثقلا رشیداً بعدما القت ذکاء یمینھا فی کافر یہاں کافر ڈھانپنے کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ ذکاء، (ذال کے ضمہ اور مد کے ساتھ) یہ سورج کا اسم ہے۔ اسی سے شاعر کا قول ہے : فوردت قبل انبلاج الفجر وابن ذکاء کا من فی کفر وہ فجر پھوٹنے سے پہلے آئی جبکہ سورج رات میں چھپا ہوا تھا۔ کافر دریا، اور بڑی نہر کو کہتے ہیں، کافر، کسان کو بھی کہتے ہیں اس کی جمع کفار ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : کمثل غیث اعجب الکفار نباتہ (الحدید :20) یعنی کسان، کیوں کہ وہ دانے کو (زمین میں) چھپاتے ہیں۔ رمادمکفور چھپائی گئی راکھ۔ سفت الریح علیہ التراب ہوانے اس پر مٹی اڑائی۔ الکافر من الارض اس جگہ کو کہا جاتا ہے جو لوگوں سے دور ہو اور کوئی وہاں اترتا نہ ہو اور کوئی وہاں سے گزرتا نہ ہو۔ پس جو ایسی جگہوں پر اتریں انہیں اھل الکفور کہا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے : الکفور۔ یعنی دیہات۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : سواء علیھم یعنی ان کے نزدیک آپ کا ڈرانا اور نہ ڈرانا برابر ہے یعنی ان پر یہ برابر ہے، برابری کی وجہ سے استفہام کو لایا گیا۔ اس کی مثل ہے : سواء علینا او عظت ام لم تکن من الوعظین۔ (الشعراء : 136) شاعر نے کہا : اسی مفہوم کو اپنے اس شعر میں بیان کیا ہے۔ ولیل یقول الناس من ظلماتہ سواء صحیحات العیون وعورھا اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ء انذرتھم الانذار کا معنی ابلاغ اور اعلام (آگاہ کرنا) ہے اور یہ معنی صرف تخویف (ڈرانے) کی صورت میں ہوتا ہے جس سے بچنے کا زمانہ وسیع ہو۔ اگر بچنے کے لئے اس کا زمانہ وسیع نہ ہو تو اشعار ہوگا، انذارنہ ہوگا۔ شاعر نے کہا : انذرت عمراً وھو فی مھل قبل الصباح فقد عصی عمرو تنا ذر بنو فلاں ھذا الامر، بولا جاتا ہے جب بعض، بعض کو اس امر سے ڈرائیں۔ علماء نے اس آیت کی تاویل میں اختلاف کیا ہے۔ بعض نے فرمایا : یہ لفظ کے اعتبار سے عام ہے اور اس کا معنی اس شخص کے حق میں خاص ہے جس پر عذاب کا کلمہ ثابت ہوچکا ہے اور اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے کہ وہ کفر پر مرے گا۔ اللہ تعالیٰ نے ارادہ فرمایا کہ آگاہ کر دے اس بات پر کہ لوگوں میں اس حال والے بھی کچھ لوگ ہوں گے، کسی کو متعین نہیں فرمایا۔ حضرت ابن عباس اور کلبی نے فرمایا : یہ آیت یہود کے رؤساء کے بارے میں نازل ہوئی جس میں حیی بن اخطب، کعب بن اشرف اور ان جیسے دوسرے یہودی تھے۔ حضرت ربیع بن انس نے کہا : یہ ان لوگوں کے متعلق نازل ہوئی جو کفار کے سرداروں میں بدر کے دن قتل ہوئے تھے (1) ۔ پہلا قول زیادہ صحیح ہے۔ پس جنہوں نے کسی کو متعین کیا اس کی مثال اس شخص کی ہے جس پر غیب کھل گیا کہ اس کی موت کفر پر ہوگی۔ یہ اس آیت کے ضمن میں داخل ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : لا یؤمنون یہ ترکیبی اعتبار سے مرفوع ہے اور ان کی خبر ہے، یعنی جنہوں نے کفر کیا وہ ایمان نہیں لائیں گے۔ بعض نے فرمایا : یہ ان کی خبر ہے سواء اور اس کے بعد والا کلام صلہ کے قائم مقام ہے۔ یہ ابن کیسان کا قول ہے۔ محمد بن یزید نے کہا : سواء مبتدا کے اعتبار سے مرفوع ہےء انذرتھم ام لم تنذرھم خبر ہے، اور پورا جملہ ان کی خبر ہے۔ نحاس نے کہا : یعنی وہ بیوقوف ہیں انہیں ڈرانا کچھ مفید نہیں۔ ء انذرتھم کی قراءت میں قراء کا اختلاف ہے۔ اہل مدینہ، ابو عمرو، اعمش اور عبد اللہ بن ابی اسحاق نے پہلے ہمزہ کی تحقیق اور دوسرے ہمزہ کی تسہیل کے ساتھ پڑھا ہے، خلیل اور سیبویہ نے اسی کو پسند کیا ہے۔ یہ قریش اور سعد بن بکر کی لغت ہے، اسی کے مطابق شاعر کا قول ہے۔ ایا ظبیہ الوعساء بین جلاجل وبین النقا آنت ام ام سالم اس میں آنت پہلے ہمزہ کی تحقیق اور دوسرے ہمزہ کی تسہیل کے ساتھ ہے۔ اس شعر میں آنت ایک الف کے ساتھ آیا ہے۔ ایک اور شاعر نے کہا : تطاللت فاستثرفتہ فقلت لہ آنت زید الارانب میں نے اسے جھانک کر دیکھا اور اسے پہچان لیا میں نے اسے کہا : کیا تو خرگوشوں والا زید ہے۔ ابن محیصن سے مروی ہے کہ انہوں نے انذرتھم ام لم تنذرھم پڑھا ہے یعنی صرف ہمزہ کے ساتھ پڑھا ہے اس کے بعد الف نہیں پڑھا، دو ہمزوں کے جمع ہونے کی وجہ سے ایک کو حذف کیا گیا ہے یا اس لئے کہ ام استفہام پر دلالت کرتا ہے جیسا کہ ایک شاعر نے کہا : تروح من الحی ام تبتکر وما ذا یفیرک ولو تنتظر اس میں شاعر نے ہمزہ کو حذف کیا ہے۔ تروح سے مراد أتروح لیا ہے اور ام پر اکتفا کیا ہے۔ ابن ابی اسحاق سے مروی ہے کہ انہوں نے (أنذرتھم) پڑھا ہے۔ پس انہوں نے دو ہمزوں کو قائم رکھا ہے اور ان کے درمیان الف داخل کیا ہے تاکہ دو ہمزے جمع نہ ہوں۔ ابو حاتم نے کہا : ان دو ہمزوں کے درمیان الف داخل کرنا اور دوسرے ہمزہ کو تخفیف کے ساتھ پڑھنا جائز ہے۔ ابو عمرو، اور نافع اکثر ایسا کرتے تھے۔ حمزہ، عاصم اور کسائی نے دو ہمزوں کے ثبوت کے ساتھ پڑھا ہے (1) یہ ابو عبیدہ کا پسندیدہ قول ہے اور خلیل کے نزدیک یہ بعید ہے۔ سیبویہ نے کہا : یہ ثقل میں ضننوا کے مشابہ ہے۔ اخفش نے کہا : پہلے ہمزہ کی تخفیف اولیٰ ہے۔ یہ قول روی ہے کیونکہ عرب استقلال کے بعد اور ایک حرف کی ادائیگی کے بعد تخفیف کرتے ہیں۔ ابو حاتم نے کہا : دو ہمزوں کی تخفیف جائز ہے۔ یہ جمہور کے قول کے مخالف ہے۔ اخفش نے کہا : سعید نے ہمزہ کو ھاء سے بدلا ہے اور ھانذرتھم پڑھا ہے جیسا کہ کہا جاتا ہے : ھیاک وایاک۔ اخفش نے کہا : ھا انتم اصل میں أاءتم تھا۔
Top