Al-Qurtubi - Al-Anbiyaa : 44
بَلْ مَتَّعْنَا هٰۤؤُلَآءِ وَ اٰبَآءَهُمْ حَتّٰى طَالَ عَلَیْهِمُ الْعُمُرُ١ؕ اَفَلَا یَرَوْنَ اَنَّا نَاْتِی الْاَرْضَ نَنْقُصُهَا مِنْ اَطْرَافِهَا١ؕ اَفَهُمُ الْغٰلِبُوْنَ
بَلْ : بلکہ مَتَّعْنَا : ہم نے سازوسامان دیا هٰٓؤُلَآءِ : ان کو وَاٰبَآءَهُمْ : اور ان کے باپ دادا حَتّٰى : یہانتک کہ طَالَ : دراز ہوگئی عَلَيْهِمُ : ان پر۔ کی الْعُمُرُ : عمر اَفَلَا يَرَوْنَ : کیا پس وہ نہیں دیکھتے اَنَّا نَاْتِي : کہ ہم آرہے ہیں الْاَرْضَ : زمین نَنْقُصُهَا : اس کو گھٹاتے ہوئے مِنْ : سے اَطْرَافِهَا : اس کے کنارے (جمع) اَفَهُمُ : کیا پھر وہ الْغٰلِبُوْنَ : غالب آنے والے
بلکہ ہم ان لوگوں کو اور ان کے باپ دادا کو متمتع کرتے رہے یہاں تک کہ (اسی حالت میں) ان کی عمریں بسر ہوگئیں، کیا یہ نہیں دیکھتے کہ ہم زمین کو اس کے کناروں سے گھٹاتے چلے آتے ہیں ؟ تو کیا یہ لوگ غلبہ پانے والے ہیں ؟
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : بل متعنا ھولآء و ابآء ھم حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : اس سے مراد اہل مکہ ہیں یعنی ہم نے ان کے لیے اور ان کے لیے اپنی نعمتوں کو پھیلایا۔ طال علیھم العمر اور ان نعمتوں میں عرصہ دراز گزر گیا انہوں نے سمجھا کہ یہ نعمتیں ان سے زائل نہیں ہوں گی پس وہ فریب میں مبتلا ہوئے اور اللہ تعالیٰ کی حجج کی تدبیر سے اعراض کیا۔ افلا یرون اناناتی الارض ننقصھا من اطرافھا یعنی اے محمد ﷺ ایک علاقہ کے بعد دوسرے علاقہ پر علبہ اور ایک شہر کے بعد دوسرے شہر کی فتح تمہیں عطا کر کے زمین کو سمیٹ رہے ہیں، یہ اس کا معنی حسن وغیرہ نے بیان کیا ہے۔ بعض نے فرمایا : قتل اور قیدہ بنا کر، یہ معنی کلبی نے بیان کیا ہے۔ دونوں کا مفہوم ایک ہے اس پر تفصیلی کلام سورة الرعد میں گزر چکی ہے۔ افھم الغلبون۔ یعنی ان کی اطراف کو سمیٹنے کے بعد کفار مکہ ہی کیا غالب ہیں بلکہ آپ ان پر غالب اور آپ کو ان پر فتح نصیب ہوگی۔
Top