Al-Qurtubi - Aal-i-Imraan : 134
الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ فِی السَّرَّآءِ وَ الضَّرَّآءِ وَ الْكٰظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَ الْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ١ؕ وَ اللّٰهُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَۚ
الَّذِيْنَ : جو لوگ يُنْفِقُوْنَ : خرچ کرتے ہیں فِي السَّرَّآءِ : خوشی میں وَالضَّرَّآءِ : اور تکلیف وَالْكٰظِمِيْنَ : اور پی جاتے ہیں الْغَيْظَ : غصہ وَالْعَافِيْنَ : اور معاف کردیتے ہیں عَنِ : سے النَّاسِ : جو لوگ وَاللّٰهُ : اور اللہ يُحِبُّ : دوست رکھتا ہے الْمُحْسِنِيْنَ : احسان کرنے والے
جو آسودگی اور تنگی میں (اپنا مال خدا کی راہ میں) خرچ کرتے ہیں اور غصے کو روکتے اور لوگوں کے قصور معاف کرتے ہیں اور خدا نیکو کاروں کو دوست رکھتا ہے
آیت نمبر : 134۔ اس میں چار مسائل ہیں : مسئلہ نمبر : (1) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” الذین ینفقون “۔ یہ ان متقین کی صفت ہے جن کے لئے جنت تیار کی گئی ہے اور ظاہر آیت یہ ہے کہ یہ فعل مندوب الیہ کے ساتھ مدح اور تعریف ہے اور السرآء کا معنی آسانی اور والضرآء کا معنی تنگی ہے۔ اور ابن عباس، کلبی اور مقاتل رحمۃ اللہ علہیم نے کہا ہے اور عبید بن عمیر اور ضحاک نے کہا ہے کہ ” السرآء “۔ اور الضرآء “ کا معنی خوشحالی اور تنگ دستی ہے، اور صحت وبیماری کی حالت میں بھی یہی کہا جاتا ہے، اور یہ قول بھی ہے کہ ” فی السرآء “ کا معنی ہے زندگی میں اور ” فی الضراء “ سے مراد وہ ہے جس کی وہ موت کے بعد وصیت کرتا ہے، اور یہ بھی کہا گیا ہے : (آیت) ” فی السرآئ “ سے مراد شادی اور ولیموں میں خرچ کرنا ہے اور فی الضرء سے ماد تکالیف اور ماتم میں خرچ کرنا ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے۔ (آیت) ” فی السرآئ “ سے مراد وہ نفقہ ہے جو تمہیں خوش کرتا ہے مثلا اولاد اور قرابتداروں پر خرچ کرنا اور ضراء سے مراد دشمنوں پر خرچ کرنا ہے۔ اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ (آیت) ” فی السرآئ “ سے مراد وہ ہے جس کے ساتھ وہ جو ان کی مہمان نوازی کرتا ہے اور اسے ہدیہ دیتا ہے اور ضراء وہ ہے جس کو تکلیف میں مبتلا لوگوں پر خرچ کرتا اور اس سے ان پر صدقہ کرتا ہے۔ میں (مفسر) کہتا ہوں، یہ آیت عام ہے، پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا (آیت) ” والکظمین الغیظ “۔ اور یہ ایک مسئلہ ہے : مسئلہ نمبر : (2) اور کظم الغیظ کا معنی ہے غصے کو پیٹ میں لوٹانا کہا جاتا ہے، کظم غیظہ یعنی وہ اس پر خاموش رہا اور اس کا اظہار نہ کیا باوجود اس کے کہ وہ اپنے دشمن پر برسنے اور عملا وہ کرنے کی قدرت رکھتا ہے۔ اور کظمت السقاء کا معنی ہے میں نے مشکیزہ بھرا اور اس کا منہ بند کردیا، اور الکظامۃ وہ شے جس کے ساھت پانی کا راستہ بند کیا جاتا ہے اور سی سے الکظام اس تسمہ (دھاگے) کو بھی کہا جاتا ہے جس کے ساتھ مشکیزے کا منہ بند کیا جاتا ہے اور کظم البعیر جرتہ جب اونٹ جگالی کو اپنے پیٹ میں لوٹا دے، اور کبھی کظم اس معنی کے لئے بولا جاتا ہے کہ وہ جگالی سے رک گیا قبل اس کے کہ وہ اسے اپنے منہ کی طرف بھیجے، اسے زجاج نے بیان کیا ہے، کہا جاتا ہے : کظم البعیر والناقۃ جب یہ جگالی نہ کریں۔ اور اسی سے راعی کا قول ہے : فافضن بعد کظومھن بجرۃ من ذی الابارق اذرعین خقیلا “۔ اس میں جگالی سے رکنے کے معنی میں لفظ کظوم استعمال ہوا ہے۔ الحقیل، ایک جگہ ہے اور الحقیل ایک بوٹی بھی ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ گھبراہٹ اور مشقت وتھکاوٹ کے وقت ایسا کرتا ہے اور وہ جگالی نہیں کرتا۔ اعشی نے اونٹوں کو نحر کرنے والے آدمی کا وصف بیان کرتے ہوئے کہا اور وہ اس سے گھبراتے ہیں : قد تکظم البزل منہ حین تبصرہ حتی تقطع فی اجوافھا الجرر : طاقتور اونٹ بھی جب اسے دیکھتا ہے تو گھبرا جاتا ہے یہاں تک کہ جگالی اس کے پیٹ میں ہی کٹ جاتی ہے (یعنی جگالی کے لئے پیٹ سے باہر کوئی شے نہیں لاسکتا) اور اسی سے ہے، رجل کظیم ومکظوم جب کوئی غم واندوہ اور حزم وملال سے بھرا ہوا ہو۔ اور قرآن کریم میں ہے : (آیت) ” وابیضت عینہ من الحزن فھو کظیم “۔ (یوسف) ترجمہ : اور سفید ہوگئیں ان کی دونوں آنکھیں غم کے باعث اور وہ اپنے غم کو ضبط کئے ہوئے تھے۔ (آیت) ” اذ نادی وھو مکظوم “۔ (القلم) ترجمہ ؛ جب اس نے پکارا اور وہ غم واندوہ سے بھرا ہوا تھا۔ اور غیظ غضب کی اصل اور بنیاد ہے اور اکثر اوقات تو یہ دونوں لازم وملزوم ہوتے ہیں لیکن انکے درمیان فرق ہے وہ یہ کہ غیظ جوارح (اعضاء بدن) پر ظاہر نہیں ہوتا بخلاف غضب کے کیونکہ یہ جوارح میں ایسے فعل کے ساتھ ظاہر ہوتا ہے جو ضروری ہوتا ہے اسی لئے جب غضب کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو تو اس سے مقصود وہ افعال ہوتے ہیں جو (آیت) ” المغضوب علیھم “۔ میں ظاہر ہوتے ہیں اور بعض لوگوں نے غیظ کی تفسیر غضب سے کی ہے اور یہ عمدہ نہیں۔ واللہ اعلم۔ مسئلہ نمبر : (3) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” والعافین عن الناس “۔ لوگوں کو معاف کرنا نیکی اور خیر کے افعال میں سے انتہائی عظیم فعل ہے، اس حیثیت سے کہ آدمی کے لئے جائز ہوتا ہے کہ وہ معاف کردے اور یہ کہ وہ اپنے حق کیطرف متوجہ ہو اور ہر وہ جو سزا کا مستحق ہو لیکن اسے چھوڑ دیا جائے تو تحقیق اسے معاف کردیا گیا اور (آیت) ” عن الناس “ کے معنی میں اختلاف ہے پس ابو العالیہ، کلبی اور زجاج نے کہا ہے : (آیت) ” والعافین عن الناس “۔ سے مراد غلاموں کو معاف کرنا ہے، ابن عطیہ نے کہا ہے : مثال کے طور پر یہ بہت اچھا ہے، کیونکہ وہ خادم ہوتے ہیں اور وہ کثرت سے غلطیاں کرتے ہیں اور ان پر قدرت آسان ہوتی ہے اور سزا کو نافذ کرنا سہل ہوتا ہے، اسی لئے مفسر نے اس کے ساتھ مثال بیان کی ہے، اور میمون بن مہران سے روایت ہے کہ ان کی ایک کنیز تھی وہ ایک دن ایک بڑا پیالہ لے کر آئی اس میں گرم شوربہ تھا اور آپ کے پاس کچھ مہمان بیٹھے ہوئے تھے، پس وہ گر پڑی اور شوربہ آپ پر پڑگیا تو میمون نے اسے مارنا چاہا تو اس لونڈی نے کہا : اے میرے آقا ! آپ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد پر عمل کیجئے (آیت) ” والکظمین الغیظ “ تو اس نے کہا : تحقیق میں نے کردیا، پھر اس سے کہا : جو اس کے بعد ہے اس پر بھی عمل کیجئے (آیت) ” والعافین عن الناس “۔ تو اس نے کہا : میں نے تجھے معاف کردیا، پھر اس لونڈی نے کہا : (آیت) ” واللہ یحب المحسنین “۔ تو میمون نے کہا : میں نے تجھ پر احسان کردیا، پس تو اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے آزاد ہے، احنف بن قیس سے اسی طرح مروی ہے۔ اور حضرت زید بن اسلم نے کہا ہے : (آیت) ” والعافین عن الناس “۔ اور وہ لوگوں کے ظلم اور ان کی برائیوں سے درگزر کرنے والے ہیں (1) (معالم التنزیل، جلد 1، صفحہ 549) یہ حکم عام ہے اور یہی آیت کا ظاہر معنی ہے اور مقاتل بن حیان نے اس آیت میں کہا ہے : ہم تک خبر پہنچی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس وقت فرمایا : ”‘ میری امت میں سے یہ قلیل (لوگ) ہیں سوائے ان کے جنہیں اللہ تعالیٰ نے محفوظ رکھا، حالانکہ گزشتہ امتوں میں یہ کثیر لوگ تھے، اللہ تعالیٰ نے ان کی مدح اور تعریف فرمائی ہے جو غصے کے وقت بخش دیتے ہیں اور ان کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا : (آیت) ” واذا ماغضبوا ھم یغفرون “۔ (الشوری) ترجمہ : اور جب وہ غضبناک ہوتے ہیں تو وہ معاف کردیتے ہیں۔ اور غصہ پی جانے والوں کی اس قول کے ساتھ تعریف فرمائی (آیت) ” والعافین عن الناس “۔ اور یہ خبر دی ہے کہ وہ انہیں ان کے اس احسان کے سبب پسند کرتا ہے۔ اور غصہ پی جانے، لوگون سے درگزر کرنے اور غضب کے وقت نفس کا مالک ہونے کے بارے کئی احادیث وارد ہیں، اور یہی انتہائی عظیم عبادت اور جہاد بالنفس ہے، پس آپ ﷺ نے فرمایا : ” طاقتور وہ نہیں جو دوسرے کو پچھاڑ دے بلکہ طاقتور وہ ہے جو غصہ کے وقت اپنے نفس پر قابو رکھتا ہے، (1) (صحیح بخاری، کتاب الادب باب الحذر من بلغضب، جلد 1، صفحہ 903، کراچی، ایضا صحیح بخاری، حدیث نمبر 5649، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) اور آپ ﷺ نے مزیدارشاد فرمایا ہے : ” جو گھونٹ بھی آدمی پیتا ہے وہ اس کے لئے خیر اور نیکی ہے اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں غصہ کے گھونٹ سے بڑھ کر اجر والا کوئی نہیں ہے (2) (ابن ماجہ کتاب الزہد باب الحلم، 319، اسلام آباد، ایضا ابن ماجہ، حدیث نمبر 4178، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) اور حضرت انس ؓ نے بیان کیا کہ ایک آدمی نے عرض کی یا رسول اللہ ﷺ ہر شے سے زیادہ سخت اور شدید کون سی شے ہے ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : ” اللہ تعالیٰ کا غضب “ پھر اس نے عرض کی : کون سی شے اللہ تعالیٰ کے غضب سے نجات دلاتی ہے ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا :” تو غصہ نہ کر “۔ عرجی نے کہا ہے : و اذا غضبت فکن وقورا کا ظما للغیظ تبصر ماتقول وتسمع : جب تجھے غصہ آئے تو انتہائی وقار کے ساتھ غصہ پینے والاہوجا اور اسے غور سے دیکھ جو کہہ رہا ہے اور سن رہا ہے۔ فکفی بہ شرفا تصبر ساعۃ یرضی بھا عنک الالہ وترفع : پس ایک ساعت کا صبر کرنا از روئے شرف کے کافی ہے جس کے سبب تجھ سے اللہ تعالیٰ راضی ہوجائے اور تو بلند مرتبہ کردیا جائے اور حضرت عروہ بن زبیر ؓ نے عفو کے بارے کہا ہے : لن یبلغ المجد اقوام وان شرفوا حتی یذلوا وان عزوا الاقوام : قومیں ہر گز بزرگی کو نہ پا سکیں گی اگرچہ وہ شریف ہوں یہاں تک کہ انہیں ذلیل و خوار کردیا جائے گا اگرچہ وہ قوموں پر غالب ہوں۔ ویشتموا فترالالوان مشرقۃ لا عفو ذل ولکن عفو اکرام : اور انہیں گالی گلوچ نہی دی جاتیں اور وہ کائنات کو روشن دیکھتی ہیں ان کی یہ عفو و درگزر ذلت ورسوائی کی نہیں ہوتی بلکہ عزت واکرام کی ہوتی ہے۔ ابوداؤد اور ابو عیسیٰ ترمذی نے حضرت سہل بن معاذ بن انس جہنی سے اور انہوں نے اپنے باپ کے واسطہ سے حضور نبی کریم ﷺ سے روایت بیان کی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : ” جس نے غصہ پی لیا حالانکہ وہ اسے نافذ کرنے کی قدرت رکھتا ہو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن مخلوق کے سامنے اسے بلائے گا یہاں تک کہ اسے حور کے بارے اختیار عطا فرما دے گا کہ جسے چاہے لے لے۔ “ فرمایا یہ حدیث حسن غریب ہے۔ (1) اور حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا : ” جب قیامت کا دن ہوگا تو ایک ندا دینے والا ندا دے گا جس کسی کا اجر اللہ تعالیٰ پر ہے اسے چاہیے کہ وہ جنت میں داخل ہوجائے، اور کہا جائے گا : یہ کون ہے جس کا اجر اللہ تعالیٰ پر ہے ؟ تو لوگوں سے درگزر کرنے والے کھڑے ہوں گے اور بغیر حساب کے جنت میں داخل ہوجائیں گے۔ “ اسے ماوردی نے ذکر کیا ہے۔ اور ابن مبارک نے کہا ہے : میں منصور کے پاس بیٹھا ہوا تھا تو اس نے ایک آدمی کو قتل کرنے کا حکم دیاتو میں نے کہا : اے امیر المومنین رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے :” جب قیامت کا دن ہوگا اللہ تعالیٰ کی جانب سے ایک منادی ندا دے گا جس کا اللہ تعالیٰ کے پاس کوئی احسان ہو تو وہ آگے بڑھے پس کوئی آگے نہیں بڑھے گا سوائے اس کے جس نے گناہ اور غلطی سے در گزر کی۔ “ پس یہ حکم اپنے اطلاق پر ہے۔ مسئلہ نمبر : (4) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” واللہ یحب المحسنین “۔ یعنی اللہ تعالیٰ انہیں ان کے احسان پر ثواب عطا فرماتا ہے۔ حضرت سری سقطی نے کہا ہے : احسان یہ ہے کہ توامکان کے وقت احسان پس ہر وقت تیرے لئے احسان ممکن نہیں ہوگا۔ شاعرنے کہا ہے : بادر بخیر اذا ما کنت مقتدرا فلیس فی کل وقت انت مقتدر : تو خیر اور نیکی کے عمل میں جلدی کر جب تو اس کی قدرت رکھتا ہو، ہر وقت میں تو اس پر قادر نہیں ہوگا۔ اور ابو العباس الجمانی نے کہا ہے اور خوب اچھا کہا ہے : لیس فی کل ساعۃ واوان تتھیا صنائع الاحسان : ہر ساعت اور ہر وقت میں احسان کرنے والا (اس کے لئے) تیار نہیں ہوتا۔ واذا امکنت فبادر الیھا حذر امن تعذر الامکان : اور جب امکان ہو تو پھر اس کی طرف جلد کر اس خوف سے کہ کہیں امکان متعذر نہ ہوجائے، محسن اور احسان کے بارے میں قول سورة البقرہ میں گزر چکا ہے اعادہ کی ضرورت نہیں۔
Top