Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Al-Qurtubi - Aal-i-Imraan : 7
هُوَ الَّذِیْۤ اَنْزَلَ عَلَیْكَ الْكِتٰبَ مِنْهُ اٰیٰتٌ مُّحْكَمٰتٌ هُنَّ اُمُّ الْكِتٰبِ وَ اُخَرُ مُتَشٰبِهٰتٌ١ؕ فَاَمَّا الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِهِمْ زَیْغٌ فَیَتَّبِعُوْنَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَآءَ الْفِتْنَةِ وَ ابْتِغَآءَ تَاْوِیْلِهٖ١ؐۚ وَ مَا یَعْلَمُ تَاْوِیْلَهٗۤ اِلَّا اللّٰهُ١ؔۘ وَ الرّٰسِخُوْنَ فِی الْعِلْمِ یَقُوْلُوْنَ اٰمَنَّا بِهٖ١ۙ كُلٌّ مِّنْ عِنْدِ رَبِّنَا١ۚ وَ مَا یَذَّكَّرُ اِلَّاۤ اُولُوا الْاَلْبَابِ
ھُوَ
: وہی
الَّذِيْٓ
: جس
اَنْزَلَ
: نازل کی
عَلَيْكَ
: آپ پر
الْكِتٰبَ
: کتاب
مِنْهُ
: اس سے (میں)
اٰيٰتٌ
: آیتیں
مُّحْكَمٰتٌ
: محکم (پختہ)
ھُنَّ
: وہ
اُمُّ الْكِتٰبِ
: کتاب کی اصل
وَاُخَرُ
: اور دوسری
مُتَشٰبِهٰتٌ
: متشابہ
فَاَمَّا
: پس جو
الَّذِيْنَ
: جو لوگ
فِيْ
: میں
قُلُوْبِهِمْ
: ان کے دل
زَيْغٌ
: کجی
فَيَتَّبِعُوْنَ
: سو وہ پیروی کرتے ہیں
مَا تَشَابَهَ
: متشابہات
مِنْهُ
: اس سے
ابْتِغَآءَ
: چاہنا (غرض)
الْفِتْنَةِ
: فساد۔ گمراہی
وَابْتِغَآءَ
: ڈھونڈنا
تَاْوِيْلِهٖ
: اس کا مطلب
وَمَا
: اور نہیں
يَعْلَمُ
: جانتا
تَاْوِيْلَهٗٓ
: اس کا مطلب
اِلَّا
: سوائے
اللّٰهُ
: اللہ
وَالرّٰسِخُوْنَ
: اور مضبوط
فِي الْعِلْمِ
: علم میں
يَقُوْلُوْنَ
: کہتے ہیں
اٰمَنَّا
: ہم ایمان لائے
بِهٖ
: اس پر
كُلٌّ
: سب
مِّنْ عِنْدِ
: سے۔ پاس (طرف)
رَبِّنَا
: ہمارا رب
وَمَا
: اور نہیں
يَذَّكَّرُ
: سمجھتے
اِلَّآ
: مگر
اُولُوا الْاَلْبَابِ
: عقل والے
وہی تو ہے جس نے تم پر کتاب نازل کی جس کی بعض آیتیں محکم ہیں اور وہی اصل کتاب ہیں اور بعض متشابہ ہیں، تو جن لوگوں کے دلوں میں کجی ہے وہ متشابہات کا اتباع کرتے ہیں تاکہ فتنہ برپا کریں اور مراد اصلی کا پتہ لگائیں حالانکہ مراد اصلی خدا کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ اور جو لوگ علم میں دستگاہ کامل رکھتے ہیں وہ یہ کہتے ہیں کہ ہم ان پر ایمان لائے۔ یہ سب ہمارے پروردگا کی طرف سے ہیں اور نصیحت تو عقلمند ہی قبول کرتے ہیں
آیت نمبر :
7
۔ اس میں نو مسائل ہیں : مسئلہ نمبر : (
1
) امام مسلم نے ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے روایت نقل کی ہے کہ انہوں نے بیان کیا : رسول اللہ ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی : (آیت) ” ھو الذین انزل علیک الکتب منہ ایت محکمت ھن ام الکتب واخر متشبھت، فاما الذین فی قلوبھم زیغ فیتبعون ما تشابہ منہ ابتغآء الفتنۃ وابتغآء تاویلہ، وما یعلم تاویلہ الا اللہ والرسخون فی العلم یقولون امنا بہ کل من عند ربنا وما یذکر الا اولو الالباب (
7
) الم المومنین نے بیان کیا : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم ان لوگوں کو دیکھو جو قرآن کریم کی متشابہ آیتوں کی پیروی کرتے ہیں تو وہی وہ لوگو ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے یہ نام دیا ہے لہذ تم ان سے بچو (
1
) (صحیح مسلم، کتاب العلم، جلد
2
، صفحہ
339
، ایضا صحیح بخاری، باب منہ آیات محکمات، حدیث نمبر
4183
، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) ابو غالب نے بیان کیا ہے : میں حضرت ابو امامہ ؓ کے ساتھ چل رہا تھا اور وہ اپنے گدھے پر سوار تھے، یہاں تک کہ جب وہ مسجد دمشق کے راستے تک پہنچ کر رکے تو وہاں کچھ سر کھڑے کئے گئے تو آپ نے پوچھا : یہ سر کن کے ہیں ؟ تو بتایا گیا : یہ خوارج کے سر ہیں جو عراق سے لائے گئے ہیں، تو حضرت ابو امامہ ؓ نے کہا : آگ کے کتے ہیں، آگ کے کتے ہیں، آگ کے کتے ہیں ! آسمان کے سائے کے نیچے شریر ترین مقتول ہیں، اچھائی اور مبارک اس کے لئے جس نے انہیں قتل کیا اور انہوں نے اسے قتل کیا، انہوں نے یہی جملہ طوبی لمن قتلھم وقتلوہ تین بار کہا، پھر رونے لگے، تو میں نے عرض کی : اے ابو امامہ ؓ کون سی شے تمہیں رلا رہی ہے ؟ تو انہوں نے کہا : ان کے لئے رحمت ہو، بیشک وہ اہل اسلام میں سے تھے پھر اس سے نکل گئے، پھر انہوں نے یہ آیت پڑھی۔ (آیت) ” ھو الذین انزل علیک الکتب منہ ایت محکمت “۔ الی آخر الایات، پھر یہ آیت تلاوت کی : (آیت) ” ولا تکونوا کالذین تفرقوا واختلفوا من بعد ما جآء ھم البینت “۔ (آل عمران :
105
) ترجمہ : اور نہ ہوجانا ان لوگوں کی طرح جو فرقوں میں بٹ گئے تھے اور اختلاف کرنے لگے تھے اس کے بعد بھی جب آچکی تھیں ان کے پاس روشن نشانیاں۔ تو میں نے کہا : اے ابو امامہ ؓ ! کیا یہ وہ لوگ ہیں ؟ تو انہوں نے کہا : ہاں۔ پھر میں نے کہا : کیا یہ ایسی شے ہے جو تم اپنی رائے سے کہہ رہے ہو یا ایسی شے ہے جسے تم نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے ؟ تو انہوں نے کہا : بلاشبہ تب تو میں جرات کرنے والا ہوں بلاشبہ تب تو میں جرات کرنے والا ! (نہیں) بلکہ میں نے اسے رسول اللہ ﷺ سے (کئی بار) سنا ہے نہ ایک بار، نہ دو بار، نہ تین بار، نہ چار بار، نہ سات بار، اور انہوں نے اپنی انگلیاں اپنے کانوں پر رکھ لیں۔ بیان کیا : ورنہ انہیں خاموش کرا دیا جاتا۔ (
2
) (المعجم الکبیر للطبرانی، جلد
8
، صفحہ
267
، حدیث نمبر
8034
، ایضا، جامع ترمذی، باب ومن سورة آل عمران حدیث
2926
، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) انہوں نے یہ تین بار کہا : پھر فرمایا میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے : ” بنی اسرائیل اکہتر فرقوں میں تقسیم ہوگئے ایک فرقہ جنت میں ہوگا، اور بقیہ تمام فرقے جہنم میں ہوں گے اور یقینا یہ امت ان پر ایک فرقے کا اضافہ کرے گی ایک جنت میں ہوگا اور باقی تمام جہنم میں ہوں گے (
1
) (المعجم الکبیر للطبرانی، جلد
8
، صفحہ
273
، حدیث نمبر
8051
) مسئلہ نمبر : (
2
) محکمات اور متشابہات کے بارے میں متعدد اقوال پر علماء نے اختلاف کیا ہے، پس حضرت جابر بن عبداللہ ؓ نے کہا ہے اور وہی حضرت شعبی (رح) اور حضرت سفیان ثوری (رح) وغیرہما کے قول کا مقتضا بھی ہے کہ محکمات قرآن کریم کی وہ آیات ہیں جن کی تاویل معروف ہو اور اس کا معنی و تفسیر سمجھے جاسکیں، اور متشابہ وہ ہے جسے جاننے کے لئے کسی کے پاس کوئی ذریعہ نہ ہو یہ ان میں سے ہے جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے علم کے ساتھ خاص کرلیا ہے نہ کہ اپنی خلق کے ساتھ بعض علماء نے کہا ہے : ان کی مثال میں قیامت قائم ہونے کا وقت ہے، یاجوج اور ماجوج اور دجال کا نکلنا ہے، حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا ظہور ہے اور اسی طرح سورتوں کے اوائل میں حروف مقطعات ہیں (
2
) (المحرر الوجیز، جلد
1
، صفحہ
401
دارالکتب العلمیہ) میں (مفسر) کہتا ہوں : یہ احسن قول ہے جو متشابہ کے بارے کیا گیا ہے اور ہم نے سورة البقرہ کے اوائل میں ربیع بن خثیم سے پہلے ذکر کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس قرآن کو نازل فرمایا اور اس میں سے جو چاہا اسے اپنے علم کے ساتھ خاص کرلیا (
3
) (المحرر الوجیز، جلد
1
، صفحہ
400
دارالکتب العلمیہ) الحدیث۔ اور ابو عثمان نے کہا ہے : محکم سے مراد وہ سورة فاتحہ ہے جس کے بغیر نماز جائز نہیں ہوتی، اور محمد بن فضل نے بیان کیا ہے کہ اس سے مراد سورة اخلاص ہے کیونکہ اس میں فقط توحید کے سوا اور کچھ نہیں، اور کبھی یہ بھی کہا گیا ہے کہ قرآن سارے کا سارا محکم ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (آیت) ” کتب احکمت ایتہ “۔ (ہود :
1
) ترجمہ : یہ وہ کتاب ہے محفوظ ومستحکم بنا دی گئی ہیں جس کی آیتیں۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ تمام کا تمام متشابہ ہے، کیونکہ ارشاد گرامی ہے : کتابا متشابھا۔ میں (مفسر) کہتا ہوں : آیت کے معنی میں سے اس میں کوئی شے نہیں ہے، کیونکہ قول باری تعالیٰ (آیت) ” کتب احکمت ایتہ۔ یعنی نظم اور وصف میں اس کی آیات پختہ اور مضبوط ہیں اور یہ کہ یہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے حق ہیں اور کتابا متشابھا کا معنی ہے کہ اس کی بعض آیات بعض کی مشابہ ہیں اور بعض بعض کی تصدیق کرتی ہیں، اور قول باری تعالیٰ : (آیت) ” ایت محکمت “۔ اور ” واخر متشبھت “۔ سے مراد یہ نہیں ہے کیونکہ اس آیت میں متشابہ احتمال اور اشتباہ کے باب سے ہے جو اس قول میں ہے ان البقر تشابہ علینا “۔ یعنی وہ گائے ہم پر ملتبس ہوگئی، یعنی یہ (لفظ) گائیوں میں سے بہت سی انواع کا احتمال رکھتا ہے، اور محکم سے مراد وہ ہے جو اس کے مقابلہ میں ہو، اور وہ وہ ہے جس میں کوئی التباس نہ ہو اور وہ سوائے ایک وجہ کے اور کوئی احتمال نہ رکھتا ہو۔ اور کہا گیا ہے : بیشک متشابہ وہ ہے جو کئی وجوہ کا احتمال رکھتا ہے، پھر جب ان وجوہ کو ایک وجہ کی طرف لوٹا دیا جائے اور باقی باطل قرار دی جائیں تو وہ متشابہ محکم ہوجاتا ہے، پس محکم ہمیشہ اصل ہوتا ہے اور فروع اس کی طرف لوٹائی جاتی ہیں اور متشابہ وہی فرع ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے بیان فرمایا : محکمات سورة الانعام میں اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے : (آیت) ” قل تعالوا اتل ما حرم ربکم علیکم “۔ تین آیات تک، اور سورة بنی اسرائیل میں یہ ارشاد ہے : (آیت) ” وقضی ربک الا تعبدوا الا ایاہ وبالوالدین احسانا “۔ ابن عطیہ رحمۃ اللہ علیہنے کہا ہے : یہ میرے نزدیک ایک مثال ہے جو آپ نے محکمات کے بارے میں بیان فرمائی۔ اور حضرت ابن عباس ؓ نے یہ بھی بیان کیا : محکمات سے مراد قرآن کریم کی ناسخ آیات، احکام حرام کو بیان کرنے والی اور اس کے فرائض کو بیان کرنے والی وہ آیات ہیں جن کے ساتھ ایمان لایا جاتا ہے اور جن کے مطابق عمل کیا جاتا ہے اور متشابہات سے مراد اس کی منسوخ آیات، اس کی مقدم ومؤخر آیات، اس کی امثال، اس کی اقسام اور وہ جن کے ساتھ ایمان لایا جاتا ہے اور ان کے مطابق عمل نہیں کیا جاتا۔ حضرت ابن مسعود وغیرہ نے کہا ہے : محکمات سے مراد ناسخ آیات ہیں اور متشابہات سے مراد منسوخ آیات ہیں۔ اور یہی حضرت قتادہ، ربیع اور ضحاک نے کہا ہے (
1
) (المحرر الوجیز، جلد
1
، صفحہ
400
دارالکتب العلمیہ) محمد بن جعفر بن زبیر نے کہا ہے : محکمات وہ آیات ہیں جن میں رب کریم کی حجت، بندوں کی عصمت اور جھگڑوں اور باطل کو دور کرنے کا ذکر ہے جس معنی پر انہیں وضع کیا گیا ہے اس سے نہ انہیں پھیرا جاسکے اور نہ اس میں کوئی تحریف کی جاسکے، اور متشابہات وہ ہیں جن میں تصریف وتحریف اور تاویل ہو سکتی ہے، اللہ تعالیٰ نے انکے ساتھ بندوں کو آزمایا ہے، مجاہد اور ابن اسحاق نے یہی کہا ہے، ابن عطیہ (رح) نے کہا ہے : اس آیت کے بارے میں سب سے احسن قول یہی ہے (
2
) (المحرر الوجیز، جلد
1
، صفحہ
401
دارالکتب العلمیہ) نحاس نے کہا ہے : جو کچھ محکمات اور متشابہات کے بارے کہا گیا ہے انمیں احسن یہ ہے کہ محکمات وہ ہیں جو قائم، بنفسہ ہیں ان میں کسی اور کی طرف رجوع کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی جیسا کہ (آیت) ” ولم یکن لہ کفوا احد (الاخلاص :
4
) اور (آیت) ” وانی لغفار لمن تاب “۔ (طہ :
82
) اور (آیت) ” ان اللہ لا یغفر ان یشرک بہ “۔ (النسائ :
48
) میں (مفسر) کہتا ہوں : جو کچھ نحاس نے کہا ہے وہ اس کی وضاحت کرتا ہے جسے ابن عطیہ (رح) نے اختیار کیا ہے اور وہی وضع زبان پر جاری ہے اور وہ یہ کہ محکم احکم سے اسم مفعول ہے اور الاحکام کا معنی الاتقان (پختہ کرنا) ہے اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ جو لفظ واضح المعنی ہو اس میں کوئی اشکال اور تردد نہیں ہوتا۔ بلاشبہ وہ (محکم) اپنے مفرد کلمات کے واضح ہونے اور ان کی ترکیب کے پختہ اور مضبوط ہونے میں اسی طرح ہوتا ہے اور جب دو امروں میں سے کوئی ایک مختل ہوجائے تو اس میں تشابہ اور اشکال آجاتا ہے۔ واللہ اعلم۔ ابن خویز منداد نے کہا ہے : مشابہ کی کوئی وجوہ ہیں ایک وہ ہے جس کے ساتھ حکم متعلق ہوتا ہے وہ یہ ہے جس میں علماء کا اختلاف ہو کہ دو آیتوں میں سے کون سی آیت نے دوسری کو منسوخ کردیا ہے، جیسا کہ حضرت علی ؓ اور حضرت ابن عباس ؓ کا ایسی حاملہ عورت کے بارے جس کا خاوند فوت ہوجائے یہ نظریہ ہے کہ یہ دونوں مدتوں میں سے زیادہ کے ساتھ عدت گزارے گی اور حضرت عمر، حضرت زید بن ثابت اور حضرت ابن مسعود رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین وغیرہم یہ کہتے ہیں کہ اس کی عدت وضع حمل ہے اور وہ کہتے ہیں چھوٹی سورة نساء (یعنی سورة طلاق) نے چار مہینے اور دس دن عدت والے حکم کو منسوخ کردیا ہے اور حضرت علی اور حضرت ابن عباس رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کہتے ہیں یہ حکم منسوخ نہیں ہوا، اور اسی طرح ان کا وارث کے لئے وصیت کرنے کے بارے میں اختلاف ہے کیا وہ منسوخ کردی گئی ہے یا منسوخ نہیں کی گئی ؟ اور اسی طرح دو آیتوں میں تعارض کی صورت میں اختلاف ہے کہ ان میں سے اولی کون سی ہے کہ اسے مقدم کیا جائے جب نسخ نہ پہچانا جائے اور نہ اس کی شرائط پائی جائیں، مثلا اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد : (آیت) ” واحل لکم ما ورآء ذلکم “۔ (النسائ :
24
) یہ تقاضا کرتا ہے کہ ملک یمین کی حیثیت سے دو قریبی عورتوں کو اپنے پاس جمع کرنا مباح ہے، جبکہ ارشاد باری تعالیٰ : (آیت) ” وان تجمعوا بین الاختین الا ما قد سلف “۔ (النسا :
23
) اس سے منع کرتا ہے اور اسی میں سے وہ تعارض بھی ہے جو حضور نبی مکرم ﷺ کی احادیث میں پایا جاتا ہے اور وہ جو قیاس میں پایا جائے، پس وہی متشابہ ہے اور ایک آیت کو دو قراتوں پڑھنا متشابہ میں سے نہیں ہے اور اسم کبھی محتمل یا مجمل ہوتا ہے وہ تفسیر کا محتاج ہوتا ہے، کیونکہ اس میں سے واجب اتنی مقدار ہی ہوتی ہے جسے وہ اسم یا پوری آیت شامل ہوتی ہے اور وہ قراتیں دو آیتوں کی طرح ہوتی ہیں اور دونوں کے موجب کے مطابق عمل واجب ہوتا ہے، جیسا کہ پڑھا گیا ہے : (آیت) ” وامسحوا برء وسکم وارجلکم “۔ (المائدہ :
6
) (الرجلکم) کی قرات اور کسرہ دونوں کے ساتھ ہے، جیسا کہ اس کا بیان سورة المائدہ میں آئے گا انشاء اللہ تعالیٰ ۔ مسئلہ نمبر : (
3
) بخاری نے حضرت سعید بن جبیر ؓ سے روایت نقل کی ہے کہ انہوں نے بیان کیا : ایک آدمی نے حضرت ابن عباس ؓ کو کہا : میں قرآن کریم میں ایسی اشیاء پاتا ہوں جو مجھے مختلف نظر آتی ہیں، (یعنی ان میں اختلاف ہے) آپ نے فرمایا : وہ کیا ہے ؟ اس نے بیان کیا : اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (آیت) ” فلا انساب بینھم یومئذ ولا یتسآء لون “۔ (المومنون) ترجمہ : تو کوئی رشتہ داریاں نہ رہیں گی ان کے درمیان اس روز اور نہ وہ ایک دوسرے کے متعلق پوچھ سکیں گے۔ اور فرمایا : (آیت) ” واقبل بعضھم علی بعض یتسآئلون “۔ (الطور) ترجمہ : اور وہ ایک دوسرے کی طرف متوجہ ہو کر پوچھیں گے۔ اور کہا (آیت) ” ولا یکتمون اللہ حدیثا “۔ ترجمہ : وہ اللہ تعالیٰ سے کوئی بات نہیں چھپائیں گے۔ اور پھر کہا : (آیت) ” واللہ ربنا ما کنا مشرکین (انعام) ترجمہ : قسم بخدا ! اے ہمارے رب ہم مشرک نہ تھے۔ تو انہوں نے اس آیت میں (اپنے شرک کو) چھپایا، اور سورة النازعات میں ہے۔ (آیت) ” ام السمآء بنھا، رفع سمکھا، فسوھا، واغطش لیھا واخرج ضحھا، والارض بعد ذالک دحھا ،۔ پس اس میں زمین کی تخلیق سے پہلے آسمان کی تخلیق کا ذکر کیا۔ پھر فرمایا (آیت) ” ائنکم لتکفرون بالذی خلق الارض فی یومین وتجعلون لہ اندادا، ذلک رب العلمین، وجعل فیھا رواسی من فوقھا وبرک فیھا وقدر فیھا اقواتھا فی اربعۃ ایام سوآء للسآئلین، ثم استوی الی السمآء وھی دخان فقال لھا وللارض ائتیا طوعا او کرھا قالتا اتینا طآئعین “۔ (فصلت) سو اس میں آسمان کی تخلیق سے پہلے زمین کی تخلیق کا ذکر کیا اور فرمایا : (آیت) ” وکان اللہ غفورا رحیما “۔ (النسا) ۔ اور (آیت) ” وکان اللہ عزیزا حکیما (النسا) اور (آیت) ” وکان اللہ سمیعا بصیرا “۔ (النسائ) تو گویا کہ وہ تھا پھر گزر گیا، تو حضرت ابن عباس ؓ نے کہا : فلا انساب بینھم نفخہ اولی کے بارے میں ہے پھر صور میں پھونکا جائے گا اور جو بھی آسمانوں اور زمین میں ہوگا وہ گر پڑے گا سوائے اس کے جس کے بارے اللہ تعالیٰ چاہے گا، اس وقت ان کے درمیان نہ نسب ہوں گے اور نہ وہ ایک دوسرے کے بارے پوچھیں گے، پھر دوسرے نفخہ میں ان میں سے بعض بعض کی طرف متوجہ ہوں گے اور ایک دوسرے سے پوچھیں گے۔ اور جہاں تک ما کنا مشرکین اور ولا یکتمون اللہ حدیثا، کا تعلق ہے تو چونکہ اللہ تعالیٰ اخلاص والوں کے گناہوں کی مغفرت فرما دے گا، تو مشرکین کہیں گے، آؤ ہم کہتے ہیں : ہم مشرک نہیں تھے، تو اللہ تعالیٰ ان کے مونہوں پر مہر لگا دے گا اور انکے اعمال کے بارے ان کے اعضاء گفتگو کریں گے تو اس وقت یہ معلوم ہوجائے گا کہ اللہ تعالیٰ کسی بات کو نہیں چھپائے گا اور اس وقت کفار یہ خواہش کریں گے کاش وہ مسلمان ہوتے، اور اللہ تعالیٰ نے زمین کو دو دنوں میں تخلیق فرمایا، پھر اوپر کی طرف توجہ فرمائی تو دو دنوں میں انہیں ٹھیک ٹھیک سات آسمان بنا دیا، پھر زمین کو بچھایا اور اس سے پانی اور کھیتی نکالی اور ان میں پہاڑ، درخت، ٹیلے اور جو کچھ انکے درمیان ہے وہ سب دو دونوں میں تخلیق فرما دیا، پس اس لئے اللہ تعالیٰ ارشاد ہے۔ (آیت) ” والارض بعد ذلک دحھا “۔ (نازعات) نتیجتا زمین اور جو کچھ اس میں ہے وہ چار دنوں میں تخلیق کیا گیا اور دو دنوں میں آسمان بنایا گیا۔ اور ارشاد باری تعالیٰ (آیت) ” وکان اللہ غفورا رحیما “۔ (یعنی وہ ذاتی طور پر غفور اور رحیم ہے یعنی وہ ہمیشہ رہا اور ہمیشہ اسی طرح رہے گا) کیونکہ اللہ تعالیٰ نے کسی شے کا ارادہ نہیں کیا مگر اسے اسی کے مطابق کیا جو ارادہ فرمایا۔ تجھ پر افسوس ہے، چاہیے کہ تجھ پر قرآن مختلف نہ ہو، کیونکہ یہ سب اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہے (
1
) (صحیح بخاری کتاب التفسیر، جلد
2
، صفحہ
712
) مسئلہ نمبر : (
4
) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” واخر متشبھت “۔ اس میں اخر غیر منصرف ہے، کیونکہ اسے الف لام سے معدول کیا گیا ہے، کیونکہ اس میں اصل یہ ہے کہ یہ الف لام کے ساتھ صیغہ صفت ہو جیسا الکبر اور الصغر، پس جب اسے الف لام کے جاری ہونے کی جگہ سے معدول کردیا گیا تو یہ غیر منصرف ہوگیا، ابو عبید نے کہا ہے : انہوں نے اسے منصرف نہیں کہا کیونکہ اسکا واحد منصرف نہیں ہوتا چاہے وہ معرفہ ہو یا نکرہ، اور مبرد نے اس کا انکار کیا ہے اور کہا ہے : اس بنا پر یہ لازم آتا ہے کہ غضاب اور عطاش بھی منصرف نہ ہوں، اور امام کسائی نے کہا ہے : یہ غیر منصرف ہے کیونکہ یہ صفت ہے، اور مبرد نے اس کا بھی انکار کیا ہے اور کہا ہے : بیشک لبذا اور حطما بھی دونوں صفتیں ہیں اور یہ دونوں منصرف ہیں۔ سیبویہ نے کہا ہے : یہ جائز نہیں ہے کہ اخر الف لام سے معدول ہو، کیونکہ اگر یہ الف لام سے معدولہ ہوتا تو یہ معرفہ ہوتا، کیا آپ جانتے نہیں ہیں کہ سحر تمام اقوال میں معرفہ ہے کیونکہ یہ السحر سے معدول ہے اور امس اس کے قول کے مطابق جس نے کہا : ذھب امس یہ الامس سے معدول ہے پس اگر اخر بھی الف لام سے معدول ہوتا تو وہ بھی معرفہ ہوتا حالانکہ اللہ تعالیٰ نے نکرہ کے ساتھ اس کی صفت بیان کی ہے۔ مسئلہ نمبر : (
5
) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” فاما الذین فی قلوبھم زیغ “۔ پس الذین مبتدا ہونے کے سبب مرفوع ہے اور خبر (آیت) ” فیتبعون ما تشابہ منہ “۔ ہے اور زیغ کا معنی جھکاؤ اور کجی ہے اور اسی سے زاغت الشمس (سورج کا ڈھلنا) اور زاغت الابصار (آنکھوں کا تھکنا) ہے اور کہا جاتا ہے : زاغ یزیغ زیغا جب وہ قصد و ارادہ ترک کر دے اور اسی سے اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے : (آیت) ” فلما زاغو ازاغ اللہ قلوبھم “۔ (الصف :
5
) ترجمہ : پس جب انہوں نے کجروی اختیار کی تو اللہ نے بھی ان کے دلوں کو ٹیڑھا کردیا۔ اور یہ آیت کفار، زندیق، جاہل، بدعتی، تمام گروہوں کو عام ہے۔ اگرچہ اس وقت اس سے اشارہ نجران کے عیسائیوں کی طرف تھا، اور حضرت قتادہ ؓ نے اس ارشاد (آیت) ” فاما الذین فی قلوبھم زیغ “۔ کی تفسیر میں کہا ہے کہ اگر یہ حرور یہ اور خارجیوں کے گروہ نہیں ہیں تو پھر میں نہیں جانتا وہ کون ہیں (
1
) (المحرر الوجیز، جلد
1
، صفحہ
402
دارالکتب العلمیہ) میں کہتا ہوں : یہ تفسیر حضرت ابو امامہ ؓ کی مرفوع حدیث سے گزرچکی ہے وہی کافی ہے۔ مسئلہ نمبر : (
6
) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” فیتبعون ما تشابہ منہ ابتغآء الفنۃ وابتغآء تاویلہ “۔ ہمارے شیخ ابو العباس ؓ نے کہا ہے : متشابہ کی پیروی کرنے والے اس سے خالی نہیں ہوتے کہ وہ اس کی پیروی کریں اور اسے جمع کرتے رہیں قرآن کریم میں تشکیک تلاش کرنے کے لئے اور عوام کو گمراہ کرنے کے لئے جیسا کہ زنادقہ اور قرآن کریم میں طعنہ زنی کرنے والے قرامطہ نے کیا، یا وہ متشابہ کے ظواہر کے مطابق اعتقاد رکھنے کی طلب میں ایسا کرتے ہیں، جیسا کہ ان مجسمہ نے کیا جنہوں نے قرآن کریم اور احادیث طیبہ سے ان آیات وروایات کو جمع کیا جن کا ظاہر (اللہ تعالیٰ کی) جسمیت پر دلالت کرتا ہے، یہاں تک کہ انہوں نے یہ اعتقاد رکھا کہ اللہ تعالیٰ ایک جسم مجسم ہے اور وہ صورت مصورہ ہے اس کا چہرہ، آنکھ، ہاتھ، پہلو پاؤں اور انگلیاں سبھی اعضاء ہیں، حالانکہ اللہ تعالیٰ کی ذات ان سے مبرہ اور بلند ہے یا وہ متشابہ کی پیروی کرتے ہیں ان کی تاویلات کو ظاہر کرنے کے لئے اور ان کے معانی کی وضاحت کرنے کے لئے یا جیسا کہ صبیغ نے کیا جس وقت اس نے عمر پر کثرت سے اس بارے سوال کئے پس یہ چار اقسام ہوئیں۔ (
1
) ان کے کفر میں کوئی شک نہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے توبہ قبول کئے بغیر ان کے بارے میں قتل کا حکم دیا ہے۔ (
2
) صحیح قول ان کی تکفیر کا ہے، کیونکہ ان کے اور بتوں اور تصویروں کی عبادت کرنے والوں کے درمیان کوئی فرق نہیں۔ اور اگر انہوں نے توبہ کی تو ان کی توبہ قبول کی جائے گی، ورنہ یہ قتل کردیئے جائیں گے جیسا کہ مرتد کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ (
3
) چونکہ اس کی تاویل کے جواز میں اختلاف ہے لہذا اسی بنا پر اس کے جائز ہونے میں علماء نے اختلاف کیا ہے اور یہ بات معلوم ہے کہ سلف کا مذہب متشابہ کی تاویل کے لئے تعرض کو ترک کرنا ہے باوجود اس کے کہ انہیں ان کے ظاہر معنی کے محال ہونے کا یقین تھا، پس وہ کہتے : تم اس سے گزر جاؤ جیسے وہ آئے اور بعض نے یہ کہا ہے کہ اس کی تاویلات کا اظہار کرنا چاہیے اور اسے ایسے معنی پر محمول کیا جائے بغیر یقین کے جس پر لغۃ محمول کرنا صحیح ہو جیسا کہ مجمل کی تعیین کی جاتی ہے۔ (
4
) اس میں حکم ادب بلیغ کا ہے جیسا کہ حضرت عمر نے صبیغ کے ساتھ کیا اور ابوبکر انباری نے کہا ہے : ائمہ سلف اسے سزا دیتے تھے جو قرآن کریم کے مشکل حروف (متشابہ) کی تفسیر کے بارے سوال کرتا تھا کیونکہ سائل اگر اپنے سوال سے بدعت کو دوام بخشنے اور فتنہ برپا کرنے کا ارادہ رکھتا ہے تو یہ درحقیقت انکار اور بہت بڑی تعزیر کا مستحق ہے اور اگر اس کا یہ قصد نہیں تب بھی وہ گناہ کا جرم کرنے کے سبب عتاب کا مستحق ہے، کیونکہ اس نے منافقین ملحدین کے لئے اس وقت ایک راستہ ایجاد کردیا ہے کہ وہ تاویل کے حقائق اور قرآن کریم کے مناہج سے انحراف کرتے ہوئے قرآن کریم میں تحریف کرنے کے بارے کمزور مسلمانوں کو گمراہ کرنے اور ان میں تشکیک پیدا کرنے کا قصد و ارادہ کریں، اور اسی سے وہ روایت ہے جو اسماعیل بن اسحاق القاضی نے ہمیں بیان کی کہ ہمیں سلیمان بن حرب نے حماد بن زید عن یزید بن حازم عن سلیمان بن یسار کی سند سے یہ خبر دی ہے کہ صبیغ بن عسل مدینہ طیبہ آیا اور وہ قرآن کریم کی متشابہ (آیات) اور دیگر اشیاء کے بارے سوال کرنے لگا تو اس کی خبر حضرت عمر ؓ کو پہنچی تو آپ نے اسے بلابھیجا، پس اسے حاضر کیا گیا تو آپ نے اس کے لئے کھجور کے گھچوں کی جڑیں تیار کی ہوئی تھیں، پس جب وہ حاضر ہوا، تو حضرت عمر ؓ نے اسے فرمایا : تو کون ہے ؟ اس نے کہا : میں عبداللہ صبیغ ہوں، تو حضرت عمر ؓ نے فرمایا : میں عبداللہ عمر ہوں، پھر آپ اٹھ کھڑے ہوئے اور اس جڑ کے ساتھ اس کے سر پر ضرب لگائی اور اسے زخمی کردیا، پھر لگا تار اسے مارا یہاں تک کہ اس کا خون اس کے چہرے پر بہنے لگا، تو اس نے کہا : یہ کافی ہے اسے امیر المومنین، قسم بخدا جو میں اپنے سر میں پاتا تھا وہ نکل گیا ہے (
1
) (سنن دارمی، کتاب مقدمہ باب، من ھاب الفتیاوکرہ النظع والیدع، جلد اول، حدیث نمبر
144
، مکتبہ مدینہ منورہ) اور اس کے ادب کے بارے میں روایات مختلف ہیں ان کا ذکر سورة الذاریات میں آئے گا، پھر اللہ تعالیٰ نے اسے توبہ کی طرف متوجہ کیا اور اسے اس کے دل میں ڈال دیا، پس اس نے توبہ کرلی، اور اس کی توبہ انتہائی اچھی اور حسین تھی۔ (آیت) ” ابتغآء الفتنۃ “۔ کا معنی ہے مومنین کے لئے التباس اور شبہات کو طلب کرنا تاکہ وہ ان کے درمیان فساد پیدا کردیں اور وہ لوگوں کو اپنی کجی کی طرف لوٹالائیں اور ابو اسحاق الزجاج نے کہا ہے : (آیت) ” ابتغآء تاویلہ “۔ کا معنی ہے کہ انہوں نے اپنے دوبارہ اٹھائے جانے اور زندہ کئے جانے کے بارے تاویل تلاش کی تو اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرما دیا کہ اس کی اور اس کے وقت کی تاویل اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا، اور اس پر دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے : (آیت) ” ھل ینظرون الا تاویلہ، یوم یاتی تاویلہ “۔ یعنی جس دن وہ اسے دیکھ لیں گے جس کا ان سے وعدہ کیا جا رہا ہے یعنی دوبارہ زندہ کیا جانا، قبروں سے اٹھایاجانا اور عذاب۔ (آیت) ” یقول الذین نسوہ من قبل “۔ یعنی انہوں نے اسے چھوڑ دیا ہے۔ (آیت) ” قد جآءت رسل ربنا بالحق “۔ (اعراف :
53
) یعنی تحقیق ہم نے اس کی تاویل دیکھ لی جس کے بارے ہمیں رسل (علیہم السلام) نے آگاہ کیا تھا فرمایا پس وقف اس قول باری تعالیٰ پر ہے : (آیت) ” وما یعلم تاویلہ الا اللہ “۔ یعنی اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ دوبارہ کب اٹھایا جائے گا۔ مسئلہ نمبر : (
7
) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” وما یعلم تاویلہ الا اللہ “۔ کہا جاتا ہے کہ یہودیوں کی ایک جماعت جن میں حی بن اخطب بھی تھا وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور کہا : ہمیں خبر پہنچی ہے کہ آپ پر ” الم “ نازل ہوئی ہے پس اگر آپ اپنے قول میں سچے ہیں تو پھر آپ کی امت کی بادشاہی اکہتر برس ہوگی، کیونکہ حساب الجمل میں الف سے مراد ایک ہے، لام سے مراد تیس ہیں اور میم سے مراد چالیس ہیں تب یہ آیت نازل ہوئی (آیت) ” وما یعلم تاویلہ الا اللہ “۔ اور یہاں تاویل بمعنی تفسیر ہوگا۔ جیسا کہ تیرا یہ قول ہے ” تاویل ھذہ الکلمۃ علی کذا (یعنی اس کلمہ کی تفسیر اس معنی پر ہے) اور یہ مایؤول الامر الیہ کے معنی میں بھی ہوسکتا ہے، (یعنی جس کی طرف امر لوٹتا ہے) اور اس کا اشتقاق آل الامر الی کذا یؤول الیہ سے ہے یعنی بمعنی صار، اور اولتہ تاویلا بمعنی صیرتہ ہے، (یعنی میں نے اس کی تاویل کی) اور بعض فقہاء نے اس کی تعریف کی اور کہا : ھو ابداء احتمال فی اللفظ مقصود بدلیل خارج عنہ، یعنی کسی لفظ میں مقصود احتمال کو خارجی دلیل کے ساتھ ظاہر کرنا، اور تفسیر سے مراد لفظ کا بیان اور اس کی وضاحت ہوتی ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” لاریب فیہ “۔ یعنی اس میں کوئی شک نہیں، اور تفسیر کی اصل فسر ہے اور اس کا معنی بیان ہے، کہا جاتا ہے : فسرت الشئی (بالتخفیف) افسرہ (بالکسر) فسر اور تاویل معنی کا بیان ہوتا ہے، جیسا کہ یہ قول لا شک فیہ عندالمومنین، یعنی مومنین کے نزدیک اس میں کوئی شک نہیں یا چونکہ یہ فی نفسہ حق ہے لہذا اس کی ذات شک کو قبول نہیں کرتی، اور بلاشبہ شک شک کرنے والے کا وصف ہے اور جیسا کہ حضرت ابن عباس ؓ کا دادا کے بارے میں اب (باپ) ہونے کا قول ہے، کیونکہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد میں تاویل کی ہے : یا بنی آدم۔ مسئلہ نمبر : (
8
) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” والرسخون فی العلم، والرسخون فی العلم میں علماء کا اختلاف ہے، کیا یہ ابتداء کلام ہے اور اس کا ماقبل سے تعلق منقطع ہے، یا یہ اپنے ماقبل پر معطوف ہے، اور واؤ جمع کے لئے ہے۔ اکثر کا موقف یہ ہے کہ یہ ماقبل سے منقطع ہے اور یہ کہ قول باری تعالیٰ الا اللہ پر پہلا کلام مکمل ہوچکا ہے، یہ قول حضرت ابن عمر، حضرت ابن عباس، حضرت عائشہ صدیقہرضی اللہ تعالیٰ عنہا حضرت عروہ بن زبیر اور حضرت عمر بن عبدالعزیز، رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین اور کئی دوسروں کا ہے، اور یہی امام کسائی، اخفش فراء اور ابو عبید علم کی انتہاء نہیں مگر انکے اس قول پر (آیت) ” امنا بہ کل من عند ربنا “۔ اور اسی کی مثل حضرت عمر بن عبدالعزیز نے کہا ہے اور علامہ طبری نے اسی طرح یونس بن اشہب عن مالک بن انس سے بیان کیا ہے (
1
) (المحرر الوجیز، جلد
1
، صفحہ
403
دارالکتب العلمیہ) اور اس بنا پر ” یقولون، الرسخون “ کی خبر ہے، علامہ خطابی نے کہا ہے : اللہ تعالیٰ نے اپنی وہ کتاب جس کے ساتھ ایمان لانے اور جس کی تصدیق کرنے کا ہمیں حکم ارشاد فرمایا ہے اس کی آیات کی دو قسمیں بنا دی ہیں، ایک محکم اور دوسری متشابہ، پس اللہ تعالیٰ نے قائل سے فرمایا : (آیت) ” ھو الذین انزل علیک الکتب منہ ایت محکمت ھن ام الکتب واخر متشبھت، فاما الذین فی قلوبھم زیغ فیتبعون ما تشابہ منہ ابتغآء الفتنۃ وابتغآء تاویلہ، وما یعلم تاویلہ الا اللہ والرسخون فی العلم یقولون امنا بہ کل من عند ربنا “۔ پس بتادیا کہ کتاب میں متشابہ کو اپنے علم کے ساتھ خاص کرلیا ہے اور اس کے بغیر کوئی بھی اس کی تاویل کو نہیں جانتا، پھر اللہ تعالیٰ نے راسخین فی العلم کی تعریف بیان فرمائی کہ وہ کہتے ہیں ہم اس کے ساتھ ایمان لائے اور اگر ان کی طرف سے ایمان لائے، اور اگر ان کی طرف سے ایمان صحیح نہ ہوتا تو وہ اس پر تعریف کے مستحق نہ ہوتے، اور اکثر علماء کا مذہب یہ ہے کہ اس آیت میں قف تام اس قول پر ہے (آیت) ” وما یعلم تاویلہ الا اللہ “۔ اور جو اس کے بعد ہے وہ دوسرا نیا کلام ہے اور وہ یہ قول ہے۔ ّ (آیت) ” والرسخون فی العلم یقولون امنا بہ “۔ اور یہی حضرات ابن مسعود، ابی بن کعب، ابن عباس، اور حضرت عائشہ صدیقہ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین سے مروی ہے۔ اور حضرت مجاہد (رح) سے یہ روایت ہے کہ ” الرسخون “ کا اپنے ماقبل پر عطف نسق ہے اور ان کا خیال ہے کہ وہ بھی اس کا علم رکھتے ہیں اور اس کے بارے میں بعض اہل لغت نے استدلال کرتے ہوئے کہا ہے : اس کا معنی ہے ” والراسخون فی العلم یعلمونہ قائلین امنا (راسخون فی العلم اسے جانتے ہیں درآنحالیکہ وہ کہتے ہیں ہم ایمان لائے) اور یہ گمان ہے کہ یقولون حال ہونے کی بنا پر محل نصب میں ہے، اور عام اہل لغت اس کا انکار کرتے ہیں اور اسے بعید سمجھتے ہیں، کیونکہ عرب فعل اور مفعول کو اکٹھا مضمر نہیں کرتے اور حال مذکور نہیں ہوتا مگر تبھی جب فعل ظاہر ہو اور جب فعل ظاہر نہیں تو وہ حال نہیں ہو سکتا اور اگر یہ جائز ہے تو پھر یہ کہا جانا بھی جائز ہے، عبد اللہ راکبا یعنی اقبل عبداللہ راکبا، بلاشبہ فعل مذکور کے ساتھ یہ جائز ہوتا ہے جیسا کہ قول : عبداللہ یتکلم یصلح بین الناس (عبداللہ کلام کر رہا ہے درآنحالیکہ وہ لوگوں کے درمیان صلح کرا رہا ہے) تو اس میں یصلح اس کے لئے حال ہے اسی طرح شاعر کا قول ہے، ابو عمر نے یہ مجھے سنایا ہے اور اس نے کہا ہمیں ابو العباس ثعلب نے سنایا ہے : ارسلت فیھا قطما لکالکا یقصر یمشی ویطول بارکا : بمعنی یقصر ما شیا (یعنی یمشی حال واقع ہو رہا ہے۔ ) پس عام علماء کا قول علمائے نحو کے مذاہب کی تائید سے اکیلے حضرت مجاہد کے قول سے اولی اور ارجح ہے اور یہ بھی کہ یہ جائز نہیں کہ اللہ تعالیٰ مخلوق سے کسی شے کی نفی کرے اور اسے اپنی ذات کے لئے ثابت کرے اور پھر اس میں کوئی اس کا شریک ہو۔ کیا آپ اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد نہیں دیکھتے : (آیت) ” قل لا یعلم من فی السموت والارض الغیب الا اللہ “۔ (النمل :
65
) ترجمہ : آپ فرمائیے (خود بخود) نہیں جان سکتے جو آسمانوں اور زمین میں ہیں غیب کو سوائے اللہ تعالیٰ کے۔ اور یہ ارشاد : (آیت) ” لا یجلیھا لوقتھا الا ھو (الاعراف :
187
) ترجمہ : نہیں ظاہر کرے گا اسے اپنے وقت پر مگر وہی۔ اور یہ ارشاد : (آیت) ” کل شی ھالک الا وجہ “۔ (القصص :
88
) ترجمہ : ہر چیز ہلاک ہونے والی ہے سوائے اس کی ذات کے۔ پس یہ سب انہیں میں سے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے علم کے ساتھ خاص کیا ہے اور اپنے سوا کسی کو اس میں شریک نہیں کیا، اور اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ کا یہ ارشاد ہے : (آیت) ” وما یعلم تاویلہ الا اللہ “۔ اور اگر ” والراسخون “ واؤ عطف نسق کے لئے ہو تو پھر اس قول کا کوئی فائدہ نہیں (آیت) ” کل من عند ربنا “۔ واللہ اعلم۔ میں (مفسر) کہتا ہوں : جو کچھ خطابی نے بیان کیا ہے انہوں نے حضرت مجاہد (رح) وغیرہ کے قول کے سبب نہیں کہا، تحقیق انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ ” الرسخون “ اسم جلالت پر معطوف ہے اور وہ بھی متشابہ کا علم رکھنے میں شامل ہیں، اور بلاشبہ وہ اس کے بارے اپنے علم کے ساتھ ہی کہتے ہیں (آیت) ” امنا بہ “۔ (ہم اس کے ساتھ ایمان لائے اور ربیع محمد بن جعفر بن زبیر اور قاسم بن محمد وغیرہم نے یہی کہا ہے۔ اور اس تاویل پر ” یقولون، الرسخون “۔ سے حال ہونے کی بنا پر محل نصب میں ہے (
1
) (المحرر الوجیز، جلد
1
، صفحہ
403
دارالکتب العلمیہ) جیسا کہ شاعر نے کہا : الریح تبکی شجوھا والبرق یلمع فی الغمامہ (
2
) (احکام القرآن للجصاص، جلد، صفحہ
5
) یہ شعر دونوں معنوں کا احتمال رکھتا ہے، پس یہ بھی جائز ہے کہ والبرق مبتدا ہو، اور تاویل اول کی بنا پر یلمع خبر ہو اور یہ ماقبل سے منقطع ہو، اور یہ بھی جائز ہے کہ یہ الریح پر معطوف ہو، اور یلمع دوسری تاویل کی بنا پر حال محل میں ہو، بمعنی الامعا، اور یہ قول کرنے والوں نے بھی اس طرح استدلال کیا ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے رسوخ فی العلم کے ساتھ ان کی مدح کی، پس وہ کیسے ان کی مدح کرسکتا تھا جبکہ وہ جاہل اور ناواقف ہوتے ؟ اور حضرت ابن عباس ؓ نے کہا ہے : انا ممن یعلم تاویلہ (
1
) (المحرر الوجیز، جلد
1
، صفحہ
403
دارالکتب العلمیہ) ( میں کبھی ان میں سے ہوں جو اس کی تاویل جانتے ہیں) اور حضرت مجاہد (رح) نے یہ آیت پڑھی اور فرمایا : انا ممن یعلم تاویلہ، اسے ان سے امام الحرمین ابو المعالی نے بیان کیا ہے۔ میں (مفسر) کہتا ہوں : بعض علماء نے اس قول کو پہلے قول کی طرف ہی لوٹایا ہے اور کہا ہے کلام مکمل ہورہا ہے عند اللہ “ پر اس کا معنی ہے یعنی متشابہات کی تاویل اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا اور راسخون فی العلم اس کے بعض کو جانتے ہیں درآنحالیکہ وہ یہ کہتے ہیں ہم اس کے ساتھ ایمان لائے یہ سب ہمارے رب کی جانب سے ہے (اور ان کا یہ علم) ان دلائل کے سبب ہے جو محکم آیات میں بیان کئے گئے ہیں اور اسے اس کی قدرت دی گئی ہے جس نے اسے اس کی طرف لوٹایا ہے، پس جب انہوں نے بعض تاویل کو جان لیا اور بعض کو نہ جانا اور انہوں نے یہ کہا : ہم تمام کے ساتھ ایمان لائے یہ سب ہمارے رب کی جانب سے ہے، اور ان مخفی چیزوں میں سے جو اس کی شرع صالح میں ہیں جنہیں ہمارا علم محیط نہیں تو ان کا علم ہمارے رب کی جانب سے ہے، اور ان مخفی چیزوں میں سے جو اس کی شرع صالح میں ہیں جنہیں ہمارا علم محیط نہیں تو ان کا علم ہمارے رب کے پاس ہے اور اگر کوئی کہنے والا کہے کہ راسخین پر بعض کی تفسیر مشتبہ ہوگئی، یہاں تک حضرت ابن عباس ؓ نے کہا میں نہیں جانتا الا واہ کیا ہے اور یہ جانتا ہوں کہ غیلین کیا ہے تو کہا جائے گا : یہ کوئی الزام نہیں ہے۔ کیونکہ حضرت ابن عباس ؓ نے اس نے اس کے بعد اسے جان لیا اور اس کی تفسیر بیان فرمائی جس پر واقف ہوئے، اور اس سے زیادہ پختہ اور مضبوط جواب یہ ہے کہ اللہ سبحانہ نے یہ نہیں فرمایا، وکل راسخ، کہ اس سے یہ ثابت ہو، پس جب ایک کو اس کا علم نہیں ہوا تو دوسرے نے اسے جان لیا، اور ابن فورک نے اسے ترجیح دی ہے کہ راسخون فی العلم تاویل جانتے ہیں اور انہوں نے اس میں خوب بیان کیا ہے۔ (
2
) (المحرر الوجیز، جلد
1
، صفحہ
404
دارالکتب العلمیہ) (اے اللہ ! اسے دین میں فقاہت عطا فرما اور اسے تاویل کا علم عطا فرما) وہ جسے تیرے لئے وہ بیان کرے، یعنی اسے اپنی کتاب کے معانی کا علم فرما۔ اور اس بناء پر وقف (آیت) ” والرسخون فی العلم) پر ہو گا، ہمارے شیخ ابو العباس احمدعمر نے کہا ہے : اور یہی صحیح ہے، کیونکہ انہیں راسخین کا نام دینا اس کا تقاضا کرتا ہے کہ وہ اس محکم سے زیادہ علم رکھتے ہیں جسے جانتے ہیں وہ تمام لوگ برابر ہوتے ہیں جو کلام عرب کو سمجھے اور کون سے شے میں ان کا رسوخ ہے جب وہ اتنا ہی جانتے ہیں جتنا سب جانتے ہیں، لیکن متشابہ متنوع قسم ہے، ان میں سے ایک یہ ہے جسے یقینا کوئی نہیں جانتا جیسا کہ روح اور قیامت کا علم کہ یہ ان میں سے ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے علم غیب کے ساتھ خاص کیا ہے اور اس کا علم کوئی نہیں حاصل کرسکتا نہ حضرت ابن عباس ؓ اور نہ کوئی اور۔ پس حذاق اور متبحر علماء میں سے جنہوں نے یہ کہا ہے راسخین متشابہ کا علم نہیں رکھتے تو انہوں نے متشابہ کی اسی نوع کا ارادہ کیا ہے اور رہا وہ جسے وجوہ لغت پر اور کلام عرب کی طرز پر محمول کرنا ممکن ہوتا ہے تو اس میں تاویل کی جاسکتی ہے اور اس کی صحیح تاویل جانی جاسکتی ہے اور اس سے اسے زائل کیا جاسکتا ہے جس کا تعلق غیر صحیح تاویل کے ساتھ ہو، جیسا کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا قول : ” وروح منہ، الی غیرذالک “۔ پس کسی کو راسخ کا نام نہیں دیا جاسکتا مگر تبھی جب وہ (اللہ تعالیٰ کی جانب سے) دی گئی قدرت واستطاعت کے مطابق اس نوع میں سے کثیر کا علم رکھتا ہو اور جو یہ کہتے ہیں کہ متشابہ سے مراد منسوخ ہے تو اس قول کی بنا پر راسخین کو تاویل کے علم میں داخل کرنا صحیح ہے لیکن متشابہات کو اس نوع کے ساتھ خاص کرنا صحیح نہیں ہے۔ ّ (
1
) (المحرر الوجیز، جلد
1
، صفحہ
404
دارالکتب العلمیہ) الرسوخ کا معنی ہے کسی شے میں ثابت ہونا، اور ہر ثابت راسخ ہوتا ہے، اور اجرام میں اس کی اصل یہ ہے کہ اس نے پہاڑ اور درخت زمین میں راسخ کر دئے (
2
) (المحرر الوجیز، جلد
1
، صفحہ
404
دارالکتب العلمیہ) شاعر نے کہا ہے : لقد رسخت فی الصدر منی مودۃ للیلی ایت ایا تھا ان تغیرا : میری طرف سے لیلی کے لئے محبت سینے میں راسخ ہوگئی اس کی علامات نے انکار کردیا کہ وہ متغیر ہوں۔ اور رسخ الایمان فی قلب فلان یرسخ رسوخا، فلاں کے دل میں ایمان راسخ ہوگیا۔ اور بعض نے بیان کیا ہے : رسخ الغدیر : اس کا معنی ہے تالاب کا پانی بہہ پڑا اسے ابن فارس نے بیان کیا ہے پس یہ اضداد میں سے ہے۔ اور رسخ ورضخ ورصن ورسب تمام ثبت فیہ کے معنی میں ہیں۔ اور حضور نبی مکرم ﷺ سے راسخین فی العلم کے بارے پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا : ” وہ وہ ہے جس کی قسم سچی ہو، اس کی زبان سچ بولے اور اس کا دل مستقیم اور سیدھا ہو۔ “ ھو من برت یمینہ وصدق لسانہ واستقام قبلہ (
3
) (جامع البیان للطبری، جل
3
،
4
، صفحہ
217
) اور اگر کہا جائے : قرآن کریم میں متشابہ کیسے ہو سکتا ہے جبکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : (آیت) ” وانزلنا الیک الذکر لتبین للناس مانزل الیھم “۔ (النحل :
44
) ترجمہ : اور (اسی طرح) ہم نے نازل کیا آپ پر یہ ذکر تاکہ آپ بیان کریں لوگوں کے لئے (اس ذکر کو) جو نازل کیا گیا ہے ان کی طرف۔ تو اللہ تعالیٰ نے کیونکہ تمام قرآن کو واضح نہیں بنایا ؟ تو اسے کہا جائے گا : حقیقت تو اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے بظاہر اس میں حکمت علماء کی فضیلت کا اظہار ہے کیونکہ اگر سارا قرآن واضح ہوتا تو علماء میں سے بعض کی بعض پر فضیلت ظاہر نہ ہوتی، اور اسی طرح وہ کرتا ہے جو کوئی شے تصنیف کرتا ہے کہ اس کے بعض مقامات کو واضح ذکر کرتا ہے اور بعض کو مشکل بنا دیتا ہے اور اس میں (علماء کی) جماعت کے لئے جگہ چھوڑ دیتا ہے، کیونکہ وہ شے جسے پانا آسان ہو اس کی قدر و قیمت کم ہوتی ہے۔ واللہ اعلم۔ مسئلہ نمبر : (
9
) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” کل من عند ربنا “۔ اس میں ضمیر ہے جو کتاب اللہ کے محکم و متشابہ سبھی کی طرف لوٹ رہی ہے اور تقدیر عبارت ہے : کلہ من عند ربنا۔ اور لفظ کل کے اس پر دلالت کرنے کی وجہ سے ضمیر کو حذف کردیا گیا ہے۔ کیونکہ یہ لفظ اضافت کا تقاضا کرتا ہے، پھر فرمایا : (آیت) ” وما یذکر الا اولو الالباب “۔ یعنی صاحب عقل ہی یہ کہتا ہے اور ایمان لاتا ہے اور جہاں وقف ہو وہاں وقف کرتا ہے اور متشابہ کی اتباع کی اتباع چھوڑ دیتا ہے۔ اور لب کا معنی عقل ہے اور لب کل شیء سے مراد ہر شے کا معز اور اس کا خالص ہونا ہے اور اسی وجہ سے عقل کو لب کہا گیا ہے اور اولو ذو کی جمع ہے۔
Top