Al-Qurtubi - Al-Insaan : 15
وَ یُطَافُ عَلَیْهِمْ بِاٰنِیَةٍ مِّنْ فِضَّةٍ وَّ اَكْوَابٍ كَانَتْ قَؔوَارِیْرَاۡۙ
وَيُطَافُ : اور دور ہوگا عَلَيْهِمْ : ان پر بِاٰنِيَةٍ : برتنوں کا مِّنْ فِضَّةٍ : چاندی کے وَّاَكْوَابٍ : اور آبخورے كَانَتْ : ہوں گے قَوَا۩رِيْرَا۟ : شیشے کے
(خدام) چاندی کے باسن لئے ہوئے ان کے اردگرد پھریں گے اور شیشے کے (نہایت شفاف) گلاس اور شیشے بھی چاندی کے جو ٹھیک اندازے کے مطابق بنائے گئے ہیں
ویطاف علیھم بانیۃ۔۔۔ تا۔۔۔ سلسبیلا۔ ویطاف علیھم بانیۃ من فضۃ واکواب۔ جب وہ مشروب کا ارادہ کریں گے تو ان نیک لوگوں کے اوپر خدام چاندی کے برتن لے کر گھومیں گے۔ حضرت ابن عباس نے کہا، جنت میں جو کچھ ہے دنیا میں تو صرف ان کے نام ہی ہیں۔ جنت میں جو کچھ ہے وہ بہت ہی اعلی اور عمدہ ہے یہاں سونے کی برتنوں کی نفی نہیں کی گئی بلکہ مطلب یہ ہے کہ کبھی چاندی کے برتنوں میں انہیں پلایا جاتا ہے اور کبھی سونے کے برتنوں میں انہیں پلایا جاتا ہے، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے، یطاف علیھم بصحاف من ذھب واکواب۔ الزخرف 71) گردش میں ہوں گے ان پر سونے کے تھال اور جام۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے چاندی کا ذکر کرکے سونے پر متنبہ کیا گیا ہے جس طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے، سرابیل تقیم الحر (النحل) 81) اور پاجامے جو تمہیں گرمی سے بچاتے ہیں، یعنی سردی سے بچاتے ہیں، دونوں میں سے ایک کو ذکر کرکے دوسرے پر آگاہ کیا۔ اکواب سے مراد بڑے کو زرے ہیں جن کا نہ دستہ ہوتا ہے نہ ہی سنت۔ اس کا واحد کو ب ہے : عدی نے کہا : متکئا تقرع ابوابہ، یسعی علیہ العبد بالکوب۔ دراں حالیکہ وہ ٹیک لگائے ہوئے ہیں اس کے دروازوں کو کھٹکھٹایا جاتا ہے غلام پیالہ لے کر اس پر دوڑتا ہے۔ سورة زخرف میں ہے قواریرا، قواریرا من فضہ۔ وہ شیشے کی صفائی اور چاندی کی سفیدی والا ہوگا، اس کی صفائی شیشے کی صفائی ہوگی جب کہ وہ چاندی سے ہوگا۔ ایک قول یہ کیا گیا : جنت کی زمین میں چاندی کی ہوگی، اور برتن زمین کی مٹی سے بنائے جاتے ہیں جو اس چاندی کے ہوں گے، حضرت ابن عباس نے یہ ذکر کیا ہے فرمایا، جنت میں کوئی ایسی چیز نہیں مگر دنیا میں تمہیں اس کی مثل عطا کیا گیا مگر قواریرا من فضۃ، جو صفائی میں شیشہ اور رنگت میں چاندی جیسے ہوں گے، کہا، اگر تو دنیا کی چاندی لے اسے باریک کرے یہاں تک کہ تو اسے مکھی کے پر جیساباریک کردے تو اس کے پیچھے سے پانی نہیں دیکھ سکے گا مگر جنت کے قواریرا چاند کی طرح اور شیشے کی طرح شفاف ہوں گے۔ قدروھا تقدیرا۔ عام قراء کی قرات قاف اور دال کے فتحہ کے ساتھ ہے یعنی ساقیوں نے ان کا اندازہ لگایا ہے جو انہیں لے کر ان پر گردش کریں گے۔ حضرت ابن عباس، مجاہد اور دوسرے علماء نے کہا، وہ بغیر کسی کمی بیشی کے ان کی طلب کے مطابق لائیں گے کلبی نے کہا، وہ زیادہ لذیذ واراشتہاء والی ہوگی، معنی اس کا یہ ہے وہ فرشتے جوان پر گردش کریں گے انہوں نے اس کا اندازہ لگایا ہوگا۔ حضرت ابن عباس نے یہ بھی بیان کیا ہے ان فرشتوں نے اس کا تفصیلی بھر اندازہ لگایا ہوگا وہ نہ زیادہ ہوگا نہ کم ہوگا یہاں تک کہ وہ بوجھ اور انتہائی چھوٹا ہونے کی بنا پر انہیں اذیت نہیں دے گا۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے پینے والوں نے اپنے دلوں میں خواہش کے مطابق اندازہ لگایا ہوگا۔ عبید بن عمر، شعبی اور ابن سیرین نے قدروھا پڑھا ہے، یعنی انہیں ان کے ارادہ کے مطابق بنایا گیا، مہدوی نے یہ قرات حضرت علی اور حضرت ابن عباس سے نقل کی ہے اور کہا، جس نے اسے قدروھا پڑھا ہے تو وہ دوسری قرات کے معنی کی طرف راجع ہے گویا اصل کلام یوں ہے قدرواعلیھا حرف جر کو حذف کردیا گیا ہے معنی اس کا یہ ہے ان پر اس کا اندازہ لگایا گیا، سیبویہ نے یہ شعر پڑھا : آلیت حب العراق الدھر اکلہ، والحب یاکلہ فی القریہ السوس۔ تو نے عراق کی گندم کے بارے میں قسم اٹھائی ہے تو کسی کو نہیں کھلائے گا زمانہ اس کو کھارہا ہے جب کہ اسے دیہات میں کیڑا کھارہا ہے۔ اس کی رائے یہ ہے کہ کلام اصل میں علی حب العراق۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے اس اندازے کی صورت یہ ہوگی کہ پیالے اڑیں گے وہ پینے والے کی طلب کے مطابق پھرجائیں گے، اللہ تعالیٰ کے فرمان، قدروھا تقدیرا۔ کا یہی مطلب ہے یعنی وہ طلب سے زائد نہیں ہوگا اور اس سے کم بھی نہیں ہوگا۔ پیالوں کو پینے والوں کی طلب کے مطابق پیالوں کو الہام کیا جائے گا یہاں تک کہ پیالے اس مقدار کے حساب سے بھرجائیں گے اس قول کو ترمذی حکیم نے، نوادرالاصول، میں ذکر کیا ہے۔
Top