Al-Qurtubi - At-Tawba : 123
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قَاتِلُوا الَّذِیْنَ یَلُوْنَكُمْ مِّنَ الْكُفَّارِ وَ لْیَجِدُوْا فِیْكُمْ غِلْظَةً١ؕ وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ مَعَ الْمُتَّقِیْنَ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : وہ جو ایمان لائے (مومن) قَاتِلُوا : لڑو الَّذِيْنَ : وہ جو يَلُوْنَكُمْ : نزدیک تمہارے مِّنَ الْكُفَّارِ : کفار سے (کافر) وَلْيَجِدُوْا : اور چاہیے کہ وہ پائیں فِيْكُمْ : تمہارے اندر غِلْظَةً : سختی وَاعْلَمُوْٓا : اور جان لو اَنَّ : کہ اللّٰهَ : اللہ مَعَ الْمُتَّقِيْنَ : پرہیزگاروں کے ساتھ
اے اہل ایمان ! اپنے نزدیک کے (رہنے والے) کافروں سے جنگ کرو۔ اور چاہئے کہ وہ تم میں سختی (یعنی محنت وقوت جنگ) معلوم کریں۔ اور جان رکھو کہ خدا پرہیزگاروں کے ساتھ ہے۔
آیت نمبر : 123۔ اس آیت میں ایک مسئلہ ہیں : مسئلہ نمبر : (1) وہ یہ کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے انہیں جہاد کی کیفیت سے آگاہ فرمایا اور یہ کہ ابتداء قریبی دشمن سے ہو پھر جو اس کے بعد قریبی ہو، اسی لیے رسول اللہ ﷺ نے آغاز عرب سے کیا اور جب ان سے فارغ ہوئے تو روم کا قصد کیا اور وہ شام میں تھے، اور حسن نے کہا ہے : یہ آیت حضور نبی مکرم ومعظم ﷺ کو مشرکین کے قتل کا حکم دیئے جانے سے پہلے نازل ہوئی پس یہ اس تدریج میں سے ہے جو قبل از اسلام تھی۔ اور ابن زید نے کہا ہے : اس آیت سے اس کے نازل ہونے کے وقت مراد عرب تھے، پس جب آپ ان سے فارغ ہوئے تو پھر روم وغیرہم کے بارے میں (آیت) ” قاتلوا الذین لایؤمنون باللہ “۔ (التوبہ : 29) (جنگ کرو ان لوگوں سے جو نہیں ایمان لاتے اللہ پر) اور حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ اس سے دیلم مراد لیے گئے ہیں، اور مروی ہے کہ ان سے پوچھا گیا : کس سے ابتدا کی جائے گی روم یا ویلم سے ؟ تو انہوں نے فرمایا : روم سے۔ اور حسن نے کہا ہے : وہ ویلم، ترک اور روم سے جنگ کرنا ہے (2) (تفسیر طبری، سورة توبہ جلد 11 صفحہ 84 مفہوم) اور حضرت قتادہ (رح) نے کہا ہے کہ اقرب فالاقرب ‘ اور ادنی فالادنی (قریب تر پھر اس کے بعد قریب الخ) کے قتال میں آیت اپنے عموم پر ہے۔ میں مفسر کہتا ہوں : حضرت قتادہ (رح) کا قول ہی آیت کا ظاہر ہے، اور ابن عربی نے یہ اختیار کیا ہے کہ ویلم سے پہلے روم سے ابتدا کی جائے گی، جیسا کہ حضرت ابن عمر ؓ نے کہا ہے : اس کی تین وجہیں ہیں : ان میں سے ایک یہ ہے کہ وہ اہل کتاب ہیں، پس ان پر حجت زیادہ اور پختہ کرنے والی ہے۔ دوسری یہ ہے کہ وہ ہمارے یعنی اہل مدینہ کے زیادہ قریب ہیں، اور تیسری وجہ یہ کہ انبیاء (علیہم السلام) کے شہر ان کے شہروں میں زیادہ ہیں پس ان کو ان سے بچانا زیادہ واجب اور ضروری ہے (1) (احکام القرآن لابن العربی، جلد 2، صفحہ 1032) واللہ اعلم۔ (آیت) ” ولیجدوا فیکم غلظۃ “۔ اور چاہیے کہ وہ تم میں شدت، قوت اور حمیت پائیں، اور فضل نے اعمش سے اور انہوں نے عاصم سے غلظۃ غین کے فتحہ اور لام کے سکون کے ساتھ روایت کیا ہے، اور فراء نے کہا ہے : اہل حجاز اور بنی حجاز اور بنی اسد کی لغت غین کے کسرہ کے ساتھ ہے اور بنی تمیم کی لغت غین کے ضمہ کے ساتھ ہے۔
Top