Ruh-ul-Quran - Al-Muminoon : 72
اَمْ تَسْئَلُهُمْ خَرْجًا فَخَرَاجُ رَبِّكَ خَیْرٌ١ۖۗ وَّ هُوَ خَیْرُ الرّٰزِقِیْنَ
اَمْ تَسْئَلُهُمْ : کیا تم ان سے مانگتے ہو خَرْجًا : اجر فَخَرَاجُ : تو اجر رَبِّكَ : تمہارا رب خَيْرٌ : بہتر وَّهُوَ : اور وہ خَيْرُ الرّٰزِقِيْنَ : بہترین روزی دہندہ ہے
کیا آپ ان سے کوئی معاوضہ طلب کررہے ہیں ؟ آپ کے رب کا دیا ہوا معاوضہ آپ کے لیے بہتر ہے۔ اور وہ بہترین روزی بخشنے والا ہے
اَمْ تَسْئَلُھُمْ خَرْجًا فَخَرَاجُ رَ بِّکَ خَیْرٌ صلے ق وَّھُوَ خَیْرُالرّٰزِقِیْنَ ۔ (المومنون : 72) (کیا آپ ان سے کوئی معاوضہ طلب کررہے ہیں ؟ آپ کے رب کا دیا ہوا معاوضہ آپ کے لیے بہتر ہے۔ اور وہ بہترین روزی بخشنے والا ہے۔ ) آنحضرت ﷺ کی نبوت کی دلیل اس آیت کریمہ میں نبی کریم ﷺ کے لیے تسلی اور آپ کے مخالفین کے لیے سرزنش ہے۔ اور اگر گہری نظر سے دیکھا جائے تو آنحضرت ﷺ کی نبوت کی دلیل بھی ہے۔ قریش کو شرم دلاتے ہوئے یہ فرمایا جارہا ہے کہ تم جو آنحضرت ﷺ پر نفسانیت کا الزام لگاتے ہو اور تمہارا گمان یہ ہے کہ شاید آپ نے اپنی کسی نفسانی غرض کے لیے نعوذ باللہ من ذالک نبوت کا ڈھونگ رچا رکھا ہے۔ خدا لگتی کہو ! کہ وہ جو شب وروز تمہاری اصلاح اور تم تک اللہ کا دین پہنچانے کے لیے کوشاں رہتے ہیں اور اس راستے میں تم سے ہر اذیت کو برداشت کرتے ہیں۔ تمہارے الزامات سہتے اور تمہاری خرافات کو برداشت کرتے ہیں تو آخر اس میں ان کا ذاتی مفاد کیا ہے ؟ دنیا میں ہر شخص اپنے مفاد کی خاطر محنت کرتا، وقت صرف کرتا اور دکھ اٹھاتا ہے تو کیا آنحضرت ﷺ نے تمہاری بھلائی اور خیرخواہی کے لیے جو کچھ کیا ہے اس پر کچھ معاوضہ طلب کیا ہے۔ آپ کا بدترین دشمن بھی آپ پر یہ الزام نہیں لگا سکتا کیونکہ تمام قریش جانتے ہیں کہ آپ ایک کامیاب تاجر تھے مختلف ممالک میں آپ کی تجارت پھیلی ہوئی تھی۔ لیکن نبوت کی مصروفیات نے نہ صرف آپ کا کاروبار تباہ کیا بلکہ آپ کو نادار کردیا۔ آپ اپنی قوم اور شہر میں سب سے زیادہ ہر دلعزیز اور عزت و شہرت کے مالک تھے۔ لیکن اب انھیں گالیاں دی جارہی اور پتھر مارے جارہے ہیں۔ ملک کا بچہ بچہ آپ کا دشمن ہوگیا ہے۔ آپ کے اپنے ہی بھائی بند خون کے پیاسے ہورہے ہیں۔ اور مزید یہ بات بھی کہ آپ جو دعوت لے کر اٹھے ہیں اور آپ نے جس طرح انسانوں میں تفاوت ختم کرنے اور طبقات کو مٹانے کی کوشش کی ہے وہ تو سراسر قومی تعصبات کے لیے چیلنج ہے۔ ان حالات کو دیکھتے ہوئے تو قریش کے سمجھدار طبقے کو آپ کی بےنفسی اور للہیت پر یقین پیدا ہونا چاہیے تھا۔ لیکن وہ نہ جانے آنحضرت ﷺ کے بارے میں کس طرح کے تحفظات کا شکار ہوچکے ہیں۔ وہ اپنی طرح آنحضرت ﷺ کے بارے میں بھی یہ ماننے کے لیے تیار نہیں کہ وہ اپنی تجارت اور کاروبار اثرورسوخ اور ہر دلعزیزی کو دائو پر لگا کر لوگوں کی فلاح و کامرانی کے لیے کوشاں ہوں گے۔ وہ آپ کو بھی اپنی طرح دنیا کے مفادات کا اسیر سمجھتے ہیں۔ اور انھیں یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ ایک داعی حق صرف اللہ کی رضا اور اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے لیے جسم وجان، مال و دولت اور زندگی کی ہر آسائش کو قربان کرسکتا ہے۔
Top