Tafheem-ul-Quran - Al-Muminoon : 72
اَمْ تَسْئَلُهُمْ خَرْجًا فَخَرَاجُ رَبِّكَ خَیْرٌ١ۖۗ وَّ هُوَ خَیْرُ الرّٰزِقِیْنَ
اَمْ تَسْئَلُهُمْ : کیا تم ان سے مانگتے ہو خَرْجًا : اجر فَخَرَاجُ : تو اجر رَبِّكَ : تمہارا رب خَيْرٌ : بہتر وَّهُوَ : اور وہ خَيْرُ الرّٰزِقِيْنَ : بہترین روزی دہندہ ہے
کیا تُو ان سے کچھ مانگ رہا ہے؟ تیرے لیے تیرے ربّ کا دیا ہی بہتر ہے اور وہ بہترین رازق ہے۔ 70
سورة الْمُؤْمِنُوْن 70 یہ نبی ﷺ کی نبوت کے حق میں ایک اور دلیل ہے۔ یعنی یہ کہ آپ اپنے اس کام میں بالکل بےلوث ہیں۔ کوئی شخص ایمانداری کے ساتھ یہ الزام نہیں لگا سکتا کہ آپ یہ سارے پاپڑ اس لیے بیل رہے ہیں کہ کوئی نفسانی غرض آپ کے پیش نظر ہے۔ اچھی خاصی تجارت چمک رہی تھی، اب افلاس میں مبتلا ہوگئے۔ قوم میں عزت کے ساتھ دیکھے جاتے تھے۔ ہر شخص ہاتھوں ہاتھ لیتا تھا۔ اب گالیاں اور پتھر کھا رہے ہیں، بلکہ جان تک کے لالے پڑے ہیں۔ چین سے اپنے بیوی بچوں میں ہنسی خوشی دن گزار رہے تھے۔ اب ایک ایسی سخت کشمکش میں پڑگئے ہیں جو کسی دم قرار نہیں لینے دیتی۔ اس پر مزید یہ کہ بات وہ لے کر اٹھے ہیں جس کی بدولت سارا ملک دشمن ہوگیا ہے، حتّیٰ کہ خود اپنے ہی بھائی بند خون کے پیاسے ہو رہے ہیں۔ کون کہہ سکتا ہے کہ یہ ایک خود غرض آدمی کے کرنے کا کام ہے ؟ خود غرض آدمی اپنی قوم اور قبیلے کے تعصبات کا عَلَم بردار بن کر اپنی قابلیت اور جوڑ توڑ سے سرداری حاصل کرنے کی کوشش کرتا، نہ کہ وہ بات لے کر اٹھتا جو صرف یہی نہیں کہ تمام قومی تعصبات کے خلاف ایک چیلنج ہے، بلکہ سرے سے اس چیز کی جڑ ہی کاٹ دیتی ہے جس پر مشرکین عرب میں اس کے قبیلے کی چودھراہٹ قائم ہے۔ یہ وہ دلیل ہے جس کو قرآن میں نہ صرف نبی ﷺ کی، بلکہ بالعموم تمام انبیاء (علیہم السلام) کی صداقت کے ثبوت میں بار بار پیش کیا گیا ہے۔ تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو الانعام، آیت 90۔ یونس 72۔ ہود 29۔ 51۔ یوسف 104۔ افرقان 57۔ الشعراء، 109۔ 127۔ 145۔ 164۔ 180۔ سباء 47۔ یٰسین 21۔ ص، 86 الشوریٰ 23، النجم 40 مع حواشی۔
Top