Ruh-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 77
اِنَّ الَّذِیْنَ یَشْتَرُوْنَ بِعَهْدِ اللّٰهِ وَ اَیْمَانِهِمْ ثَمَنًا قَلِیْلًا اُولٰٓئِكَ لَا خَلَاقَ لَهُمْ فِی الْاٰخِرَةِ وَ لَا یُكَلِّمُهُمُ اللّٰهُ وَ لَا یَنْظُرُ اِلَیْهِمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ وَ لَا یُزَكِّیْهِمْ١۪ وَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : جو لوگ يَشْتَرُوْنَ : خریدتے (حاصل کرتے) ہیں بِعَهْدِ اللّٰهِ : اللہ کا اقرار وَاَيْمَانِهِمْ : اور اپنی قسمیں ثَمَنًا : قیمت قَلِيْلًا : تھوڑی اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ لَا : نہیں خَلَاقَ : حصہ لَھُمْ : ان کے لیے فِي : میں الْاٰخِرَةِ : آخرت وَلَا : اور نہ يُكَلِّمُھُمُ : ان سے کلام کرے گا اللّٰهُ : اللہ وَلَا : اور نہ يَنْظُرُ : نظر کرے گا اِلَيْهِمْ : ان کی طرف يَوْمَ الْقِيٰمَةِ : قیامت کے دن وَلَا يُزَكِّيْهِمْ : اور نہ انہیں پاک کرے گا وَلَھُمْ : اور ان کے لیے عَذَابٌ : عذاب اَلِيْمٌ : دردناک
بیشک جو لوگ بیچتے ہیں اللہ کے عہد کو اور اپنی قسموں کو ایک حقیر قیمت کے عوض یہ وہ بدنصیب ہیں کہ ان کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں اور اللہ نہ ان سے بات کرے گا، نہ ان کی طرف قیامت کے دن دیکھے گا اور نہ ان کو پاک کرے گا ان کے لیے دردناک عذاب ہے
اِنَّ الَّذِیْنَ یَشْتَرُوْنَ بِعَہْدِاللّٰہِ وَاَیْمَانِہِمْ ثَمَنًا قَلِیْلاً اُولٰٓئِکَ لَاخَلاَقَ لَہُمْ فِی الْاٰخِرَۃِ وَلَا یُکَلِّمُہُمُ اللّٰہُ وَلَا یَنْظُرُ اِلَیْہِمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ وَلَا یُزَکِّیْہِمْ ص وَلَہُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ۔ (بیشک جو لوگ بیچتے ہیں اللہ کے عہد کو اور اپنی قسموں کو ایک حقیر قیمت کے عوض یہ وہ بدنصیب ہیں کہ ان کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں اور اللہ نہ ان سے بات کرے گا، نہ ان کی طرف قیامت کے دن دیکھے گا اور نہ ان کو پاک کرے گا ان کے لیے دردناک عذاب ہے) (77) اشتراء کا مفہوم اشتراء یا شراء اور بیع ‘ خریدنے اور بیچنے کے معنی میں بھی استعمال ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کے معنی میں بھی مستعمل ہیں۔ یعنی اشتراء کا معنی خریدنا بھی ہے اور بیچنا بھی اور بیع کا معنی بیچنا بھی ہے اور خریدنا بھی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بیع وشراء کی اصل حقیقت مبادلۃ المال بالمال ہے۔ مال کو مال سے بدلنا یعنی بیچنے والا ایک مال دیتا ہے اور دوسرا مال لیتا ہے۔ اسی طرح خریدنے والا بھی ایک مال لیتا ہے اور دوسرا مال دیتا ہے اور قدیم زمانے میں تو بیع شراء ہوتی ہی دو جنسوں یا دو مالوں کے درمیان تھی۔ پھر اسی مفہوم نے مرور ایام سے ترقی کی اور یہ دونوں لفظ ترجیح دینے کے معنی میں استعمال ہونے لگے۔ ثَمَنًا قَلِیْلاً کا مفہوم اسی طرح یہ بات بھی سمجھ لیجئے کہ یہاں ثَمَنًا قَلِیْلاً کا لفظ ’ ’ تھوڑی قیمت، حقیر قیمت “ کے معنی میں استعمال ہوا ہے کیونکہ کسی چیز کا تھوڑا یا زیادہ ہونا اس کا حقیقی معنی نہیں بلکہ اضافی معنی ہے۔ ایک ہی چیز کسی ایک چیز کے مقابلے میں بڑی سمجھی جاتی ہے اور کسی دوسری کے مقابلے میں اسے تھوڑا یعنی حقیر سمجھا جاتا ہے۔ ایک شخص ایک لاکھ روپیہ لے کر سبزی منڈی چلا جائے تو اسے ایک بہت بڑی رقم سمجھا جائے گا، لیکن اگر وہ سونے کے بازار میں چلا جائے تو ایک لاکھ کو حقیر قیمت ہی کہا جاسکتا ہے اور اگر وہاں سونے کے زیورات کے ساتھ ساتھ ہیرے بھی ملتے ہوں تو پھر تو اس ایک لاکھ کو ناقابلِ ذکر ہی کہنا چاہیے۔ تو قرآن کریم نے جہاں بھی آخرت یا دین کے بدلے میں دنیا یا دولت دنیا کا ذکر کیا ہے تو اس کی حقیقت چونکہ ان کے مقابلے میں کچھ نہیں اس لیے اسے ثمن قلیل کہا گیا ہے یعنی حقیر قیمت۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے ہم بعض دفعہ دنیا کو دنیائے دوں یا دنیائے دنی کہتے ہیں۔ قوموں کے اخلاقی زوال کا اصل سبب الفاظ کی حقیقت سمجھنے کے بعد اب سلسلہ بیان کو سمجھنے کی کوشش کی جائے۔ آپ جانتے ہیں کہ اہل کتاب پر تنقید جاری ہے۔ ان کے عقیدے کی خرابیوں سے لے کر ان کی بد اعمالیوں تک کا ذکر کیا گیا ہے۔ ان کے ایمان و عمل کی کمزوریاں اور خرابیاں ایسی چند در چند اور تہ در تہ ہیں کہ ان کا بہ ہمہ وجوہ ذکر اور ان کا استقصا اگر ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ اس لیے پروردگار نے بداعمالیوں کے سلسلے میں ان کی ایک ایسی کمزوری کا ذکر فرمایا ہے جسے ام الامراض کہا جانا چاہیے اور یہ ایسی بیماری ہے جس کے پیدا ہوجانے کے بعد زندگی کا کوئی شعبہ بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا۔ لیکن اس کے ذکر میں ایسی گہرائی، نزاکت اور حکمت سے کام لیا گیا ہے کہ جس پر جتنا غور کیا جائے اتنی ہی حیرت بڑھتی جاتی ہے۔ امرِواقعہ یہ ہے کہ ان کی اصل خرابی عام نگاہ میں حبِّ دنیا ہے۔ دنیا کی محبت بالخصوص یہود کی ایک ایسی علامت ہے جو آج تک ان سے الگ نہیں ہوسکی۔ عیسائی بھی حبِّ دنیا اور مادیت میں غلو کے اعتبار سے یہود سے پیچھے نہیں۔ لیکن ان کا طرزعمل ایک اور حیرت پیدا کردینے کا باعث بنتا ہے۔ وہ یہ کہ ان کی اجتماعی اور قومی زندگی تو حبِّ دنیا کی پوری تصویر ہے، لیکن جب وہ اللہ کے تقرب اور اس سے محبت کا دعویٰ کرتے ہیں اور اس کے وسائل پر گفتگو کرتے ہیں تو دنیا کو اللہ اور بندے کے درمیان ایک مانع اور حائل کے طور پر پیش کرتے ہیں اور حبِّ دنیا بجائے خود ان کے نزدیک ایک ایسی برائی ہے جس کا ارتکاب کرنے والا اللہ کے راستے پر چلنے کے قابل نہیں رہتا۔ اس لیے ان کا عقیدہ یہ ہے کہ جو آدمی اللہ کا قرب حاصل کرنا چاہتا ہے اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ رہبانیت یعنی ترک دنیا کا راستہ اختیار کرے اور اس بات میں وہ تنہا نہیں، ہندوئوں میں جوگی ازم اور بدھ مت میں بھکشو ازم اسی کا عکس ہے۔ کس قدر تعجب کی بات ہے کہ ایک طرف تو مادیت ان کا مطمع نگاہ ہے اور وسائلِ دولت پر قبضہ ان کی قومی زندگی کا سب سے بڑا ہدف رہا ہے اور آج بھی امریکہ اسی ہدف کے حصول میں ملکوں پر قبضہ کرنے کی پالیسی پر چل پڑا ہے۔ لیکن دوسری طرف جب وہ مذہب کی بات کرتے ہیں تو رہبانیت کو اس کا ذریعہ قرار دیتے ہیں۔ دونوں تصورات میں ایسا کھلا تضاد ہے جس کو ہر شخص محسوس کرسکتا ہے۔ اسلام چونکہ دین فطرت ہے وہ فطرت کے مطابق زندگی گزارنے کے احکام دیتا ہے، فطرت سے لڑنا یا فطرت پر غالب آنے کی تعلیم نہیں دیتا۔ وہ جس طرح مادیت میں غلو اور حبِّ دنیا میں استغراق انسانیت کے لیے سم قاتل سمجھتا ہے اسی طرح وہ رہبانیت اور ترک دنیا کو بھی خلاف فطرت اور انسانی زندگی کی ہمہ ہمی کا دشمن سمجھتا ہے۔ اسی لیے قرآن کریم نے صاف فرمایا کہ اہل کتاب نے رہبانیت کا تصور خود اختراع کیا ہے اور اسے دین کی شکل دے دی ہے اللہ نے ہرگز اس کا حکم نہیں دیا ہے۔ ذرا غور فرمایئے ! اگر دنیا میں رہبانیت کا تصور قبول عام حاصل کرلے تو آج کی دنیا اپنے جس علم و ہنر پر ناز کرتی ہے اور جس طرح اس کی ایجادات نے اہل دنیا کو مالا مال کر رکھا ہے، ان میں سے کوئی چیز بھی باقی نہیں رہ سکتی۔ انسانی ترقی کی ہر چیز ختم ہو کر انسان غاروں کے زمانے میں پہنچ جائے گا۔ ہاں ! البتہ یہ ضرور ہے کہ اگر امریکہ اور مغربی طاقتیں جزوی طور پر بھی رہبانیت اختیار کرلیں تو باقی نوع انسانی کو ان کے ظلم سے نجات مل سکتی ہے۔ حاصل کلام یہ کہ اسلام نے دین فطرت ہونے کی وجہ سے نہ تو رہبانیت کی اجازت دی نہ اس نے حبِّ دنیا میں غلو اختیار کرنے کی اجازت دی۔ اس نے مال و دولت کو خیر قرار دیا، اسے جائز طریقے سے کمانے اور جائز مصرف میں خرچ کرنے اور حقوق کی ادائیگی کا ذریعہ بنانے کو نہ صرف جائز بلکہ فریضہ قرار دیا۔ لیکن اس بات کی سخت تاکید فرمائی کہ جس طرح اس سے لا تعلقی فطرت سے جنگ ہے اسی طرح ایک حد سے بڑھا ہوا اس سے تعلق انسانیت کے لیے مہلک ہے، یہ تمہاری ضرورت ہے، اس لیے اس کو ضرورت کے درجے میں رہنا چاہیے۔ یہ تمہارا مقصد ہرگز نہیں، اس لیے اسے زندگی کا حاصل قرار نہیں دینا چاہیے اور جب اس بات کو سمجھ لیا جائے کہ مقصد حاصل زندگی ہوتا ہے جس پر سب کچھ نچھاور کیا جاسکتا ہے اور ضرورت بقدر ضرورت اور بوقت ضرورت حاصل کی جاتی ہے اور اسے ہمیشہ مقصد کے تابع رکھا جاتا ہے تو پھر اصل بحث یہ رہ جاتی ہے کہ دنیا اور دولت دنیا سے تعلق کی شکل کیا ہوگی ؟ اسے قرآن کریم نے واضح کرتے ہوئے فرمایا کہ تم دولت کمائو، اس سے فائدہ اٹھائو، لیکن یہ مت بھولو کہ وہ تمہاری ضرورت ہے اور دین تمہارا مقصد ہے۔ اس لیے اسے مقصد پہ غالب نہیں آنا چاہیے۔ جب بھی دونوں میں سے ایک کو چھوڑ کر دوسرے کو اختیار کرنے کا وقت آئے تو ترجیح مقصد کو ہونی چاہیے اور اگر غائر نظر سے انسانی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ جب بھی قوموں میں زوال آیا ہے اور ان میں اخلاقی بحران پیدا ہوا ہے تو ان کے زوال کا آغاز ہمیشہ اسی سے ہوا ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ سورة الاعلیٰ میں پروردگار نے اس بنیادی بیماری کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے کہ یہ بیماری ایسی خطرناک ہے کہ ہم نے اس کی خطرناکی کے پیش نظر اسے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر نازل ہونے والے صحیفوں میں بھی اس کا ذکر کیا ہے کہ تم انسانوں کی اصل کمزوری یہ ہے کہ تم ہمیشہ دنیا کو آخرت پر ترجیح دیتے ہو اور انسان کی فطرت یہ ہے کہ وہ جس چیز کو ترجیح دیتا ہے اسے باقی رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ اسی سے محبت کرتا ہے، اسی کے لیے دنیا کا ہر دکھ اٹھاتا ہے تو جب انسان دنیا کو آخرت پر ترجیح دیتا ہے تو آخرت اس کی نگاہوں سے اوجھل ہونے لگتی ہے اور دنیا اس کی نگاہوں میں بس جاتی ہے۔ آخرت کا ذکر محض برائے وزن بیت ہوتا ہے اور دنیا اوڑھنا بچھونا بنی رہتی ہے۔ تعلیم کا حاصل دنیا کا حصول اور دنیا میں ترقی ٹھہرتا ہے۔ ملک کے وسائل کا زیادہ حصہ دین کے احیاء کے لیے نہیں، بلکہ وسائل دنیا میں اضافے اور ترقی کے لیے صرف ہوتا ہے۔ انسانوں کا ہدف آخرت نہیں دنیا ہو کر رہ جاتی ہے۔ عزت و سربلندی دنیا سے وابستہ ہوجاتی ہے اور آخرت سے وابستگی کتابوں میں قابل تعریف ہو تو ہو عملی زندگی سے اس کا رشتہ ٹوٹ جاتا ہے۔ اخلاقی اقدار صرف وہ باقی رہتی ہیں جن کی پابندی سے مفادات پہ ضرب نہ پڑتی ہو ورنہ بالعموم ہر اخلاقی قدر مادی نفع نقصان کے حوالے سے تولی جاتی ہے۔ دنیا کو ترجیح دینے کے باعث زندگی کا ہدف دنیا اور دولت دنیا میں روز بروز ترقی بن جاتا ہے۔ اس کے لیے اخلاقی اقدار کو کیسا ہی پامال کرنا پڑے انسانی رشتے چاہے کیسے ہی کمزور ہوجائیں، انسانیت کی ضرورتیں بیشک جان کنی کا شکار ہوجائیں، دنیا کو ترجیح دینے والا معاشرہ ان باتوں کی کبھی پرواہ نہیں کرتا۔ ایک صاحب اقتدار کو اقتدار چاہیے، چاہے اس کا محل غریبوں کے گھروندوں پر کیوں نہ اٹھانا پڑے۔ ایک کاروباری آدمی کے کاروبار میں اضافہ ہونا چاہیے چاہے اس کے لیے امانت و دیانت اور ایمان کے ترازو کو توڑ کر بھی کیوں نہ پھینکنا پڑے جیسے جیسے دنیا سے تعلق بڑھتا جاتا ہے اور آخرت سے تعلق کمزور ہوتا جاتا ہے ویسے ویسے غداروں کی فصل بار آور ہونے لگتی ہے۔ طالع آزما کھل کھیلنے لگتے ہیں، نتیجتاً ایسی قوم کا کوئی قلعہ محفوظ نہیں رہتا، ان کے عبادت خانے اولاً تو اجڑ جاتے ہیں اور اگر کہیں آباد بھی نظر آئیں تو وہ فریبِ نظر اور ضمیر کو سلا دینے کے سوا اور کسی کام نہیں آتے۔ جب ہم تاریخ پر نگاہ ڈالتے ہیں تو قدم قدم پر اس حقیقت کی کارفرمائی دکھائی دیتی ہے۔ تاتاریوں کے ہاتھوں امت مسلمہ کی تباہی، اقتدار اور دنیا کی محبت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ خلافتِ اسلامیہ کے تخت پہ بیٹھنے والا خلیفہ بغداد اگر ہیروں اور جواہر کا پرستار نہ ہوتا، اس کے اندر اسلامی غیرت ہوتی اور وہ اللہ کے سامنے جوابدہی کے احساس سے بہرہ ور ہوتا تو تاتاریوں کو خوارزم شاہ کی حکومت پر حملہ کرنے کا کبھی حوصلہ نہ ہوتا اور اگر خلیفہ بغداد کا وزیراعظم علقمی اور اس کے گماشتے دنیا کو ترجیح دے کر اپنا مقصد وملجا نہ بنا چکے ہوتے تو سقوط بغداد کبھی عمل میں نہ آتا۔ برصغیر میں اگر میرجعفر، میرقاسم اور پورنیا جیسے غدار امت مسلمہ میں پیدا نہ ہوتے تو سراج الدولہ اور ٹیپو کے قلعوں کو کبھی کوئی مسمار نہ کرسکتا۔ یہ دنیا کے وہ پرستار تھے جنھوں نے دنیا کے چند ٹکوں کے بدلے اسلامی غیرت و حمیت اور روایت کو بیچ ڈالا اور اسلام کی رسوائی کا باعث بنے۔ آج بھی امت مسلمہ جس صورت حال سے دوچار ہے، اس میں بھی اقتدار کی ہوس، ڈالروں اور پونڈوں کی چمک اور بڑی طاقتوں کے قرب کی چاہت (جو دنیا کے مختلف چہرے ہیں) ، امت کے با اختیار لوگوں کے دلوں میں ترجیح نہ پاتی اور آخرت ان کی نگاہوں سے اوجھل نہ ہوتی اور وہ وہاں کی باز پرس سے بےنیاز نہ ہوتے تو ہمارے سامنے مسلمانوں کا خون کبھی ارزاں نہ ہوتا۔ ہم خود اپنے ہاتھوں سے پکڑ کر مسلمانوں کے درد میں پگھلنے والے لوگوں کو غیر مسلموں کے کبھی حوالے نہ کرتے۔ یہ رونا آج کا رونا نہیں بلکہ پوری انسانی تاریخ کا رونا ہے۔ مسلمان نے جب بھی ٹھوکر کھائی ہے آخرت کے بدلے میں دنیا کو ترجیح دے کر کھائی ہے۔ آخرت کو ترجیح دینے والا شخص جب تک دنیا میں جیتا ہے تو غیرت و حمیت کی تصویر بن کر جیتا ہے اور جب وہ مرتا ہے تو اسلام اور انسانیت کے مقاصد کی سربلندی کی شہادت کو نقش دوام دے جاتا ہے۔ اس کی زندگی انسانیت کی سربلندی کے لیے ہوتی ہے اور اس کی موت پیچھے رہ جانے والے باغیرت لوگوں کے لیے حوصلوں کا سامان ہوتی ہے۔ اس آیت کریمہ نے اس بنیادی کمزوری کا ذکر فرما کر انسانیت کے گریبان کے چاک کھول دیئے ہیں کہ وہ لوگ اللہ کے عہد پر دنیا کی محبت کو ترجیح دیتے ہیں، اللہ کے عہد سے مراد وہ رشتہ محبت اور وہ عہد بندگی ہے جو ایک بندے کو اپنے معبود سے اور ایک مسلمان کو اپنے خدا سے ہے۔ اہل کتاب بھی اپنے دور کے بگڑے ہوئے مسلمان تھے۔ انھوں نے اپنے اللہ سے کلمہ شہادت پڑھ کر ہماری ہی طرح جو عہد کر رکھا تھا ان کے عام آدمی سے لے کر ان کے علماء تک نے اسے توڑ ڈالا۔ علماء نے دین کو دنیا کی کمائی کا ذریعہ بنایا، مشائخ نے اصلاح و تربیت کے نام سے اپنے مریدوں کی جیبیں خالی کیں اور عام آدمی دنیاداری کا بہانہ بنا کر دین کی ذمہ داریوں سے فارغ ہوگیا اور جب ہم اپنے گریبانوں میں منہ ڈالتے ہیں تو ہماری صورت بھی اس سے مختلف نظر نہیں آتی۔ مادیت پرستی نے ان کی زندگی میں اس طرح حاکمیت قائم کی ہے کہ دین چند رسم و رواج کے سوا اپنی ہیئتِ حاکمہ ہی نہیں بلکہ اپنا وجود بھی ختم کر بیٹھا ہے۔ متذکرہ بالا گفتگو عہد اللہ کے حوالے سے اس معنی کی بنیاد پر تھی کہ عہد اللہ سے مراد وہ عہد ہے جو ایک بندہ اپنے اللہ سے کلمہ شہادت پڑھ کر کرتا ہے اور جس کے بعد اس کی زندگی کی ساری کاوشیں اللہ کی رضا کے حصول اور آخرت کی کامیابی کے لیے ہوتی ہیں۔ لیکن عہد اللہ کا ایک اور معنی بھی ہے، جس کا ذکر اگلے رکوع میں آرہا ہے۔ اس آیت کریمہ میں جو آگے آرہی ہے بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب سے نبی کریم ﷺ پر ایمان لانے کا عہد لیا تھا اور ان کے پیغمبروں کو اس کا پابند ٹھہرایا تھا کہ وہ اپنی اپنی امتوں کے سامنے یہ بات واضح کردیں بلکہ ان سے عہد لے لیں کہ اگر تمہارے زمانے میں نبی آخر الزماں ﷺ تشریف لائیں تو تم ان پر ایمان لائو گے اور ان کی نصرت کرو گے۔ پھر تاکیداً ان سے پوچھا گیا تھا کہ کیا تم اس عہد کی ذمہ داریاں اٹھاتے ہو ؟ اور اس کے نبھانے کا اقرار کرتے ہو تو سب نے اقرار کیا تھا اور اللہ کو اس پر گواہ ٹھہرایا تھا۔ اس اقرار کی وجہ سے اہل کتاب پر دوہری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اسلام قبول کریں اور اسلام کی سربلندی اور بالا دستی کے لیے اپنی تمام صلاحیتیں وقف کردیں۔ اَیْمَانِہِمْ کا مفہوم اس کے بعد فرمایا وَاَیْمَانِہِمْ ( یہ لوگ اپنی قسموں کو بھی ثمن قلیل کے بدلے میں بیچ ڈالتے ہیں) یہاں ایمان یمین کی جمع ” قسم “ کے معنی میں ہے۔ اس سے مراد ہر وہ قسم ہے جو اجتماعی معاملات میں ایک دوسرے کا اعتبار پیدا کرنے کے کام آتی ہیں اور قومی اور بین الاقوامی معاہدوں میں وقار کا باعث ہوتی ہیں۔ قسموں میں بھی عموماً اللہ کے نام کا حوالہ آتا ہے۔ مذہب کی بنیاد پر اٹھنی والی قومیں جب مذہبی طور پر زوال کا شکار ہوتی ہیں تو مذہب سے رشتہ جیسے جیسے ٹوٹتا جاتا ہے ویسے ویسے اللہ کے نام کی عظمت اٹھتی جاتی ہے۔ چناچہ انھیں کوئی معاہدہ اور کوئی قسم توڑتے ہوئے اس لیے شرم نہیں آتی کہ ہم اس پر اللہ کا نام لے چکے ہیں اور نہ انھیں اس بات کا خیال ہوتا ہے کہ اس سے افراد اور قوم کے وقار کو دھچکا لگتا ہے اور یہ بھی یاد رہے کہ قسم آدمی اس وقت توڑتا ہے جب وہ وعدہ خلافی کرتا ہے اور وعدہ خلافی اس وقت ہوتی ہے جب سچ کی بجائے کاروبارِ زندگی کے لیے جھوٹ اچھا لگنے لگتا ہے اور یہی وہ موقع ہے جسے افراد اور قوموں کے لیے اخلاقی دیوالیے کا نام دیا جاسکتا ہے۔ اسی لیے جب آنحضرت ﷺ سے پوچھا گیا کہ کیا کبھی ایک مسلمان جھوٹا ہوسکتا ہے ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا مسلمان کبھی جھوٹ نہیں بول سکتا بلکہ آنحضرت ﷺ نے جھوٹ کو منافق کی علامتوں میں شمار فرمایا۔ آپ ﷺ کا ارشاد ہے : آیَۃُ الْمَنَافِقِ ثَلاَثٌ وَاِنْ صَامَ وَصَلّٰی وَزَعَمَ اَنَّـہٗ مُسْلِمٌ اِذَا حَدَّثَ کَذِبَ وَاِذَا وَعَدَ اَخْلَفَ وَاِذَا ائْتُمِنَ خَانَ ۔ (منافق کی تین نشانیاں ہیں اگرچہ وہ روزہ رکھے اور نماز پڑھے اور اپنے آپ کو مسلمان خیال کرے۔ جب وہ بات کرے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو ایفاء نہ کرے اور جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو خیانت کرے) عہد اللہ سے کیا مراد ہے ؟ آیتِ کریمہ میں جن دو جرائم کا ذکر فرمایا گیا ہے دونوں کا تعلق عہد و پیمان اور وعدے سے ہے۔ عہد سے مراد وہ وعدہ ہے جو بندہ اپنے رب کے ساتھ اس کی بندگی اور فرمانبرداری کے متعلق کرتا ہے اور دوسرا وہ جو لوگ آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ کرتے ہیں۔ دونوں کی خلاف ورزی پر آگے وعیدات فرمائی جا رہی ہیں۔ ان میں سب سے پہلی بات یہ فرمائی کہ یہ وہ لوگ ہیں جن کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں، انھیں آخرت میں ہر طرح کی نعمتوں سے محروم کردیا جائے گا۔ دنیا میں رہتے ہوئے اگر کسی شخص کو دنیا کی تمام نعمتوں سے محروم کردیا جائے تو اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اس کی زندگی کس قدر اذیت کی تصویر ہوگی۔ اسی طرح وہ شخص جسے آخرت کی نعمتوں سے محروم کردیا جائے جب کہ آخرت کی نعمتیں ہی اصل نعمتیں ہیں تو ایسے شخص کے بارے میں تو اندازہ بھی نہیں کیا جاسکتا کہ وہ کس کرب اور اذیت میں مبتلا ہوگا اور دوسری بات فرمائی کہ اللہ ان سے کلام نہیں فرمائے گا کیونکہ یہ اس جلیل القدر پیغمبر کی امت ہیں جنھیں اللہ تعالیٰ نے شرف ہم کلامی سے نوازا ہے۔ تمام رسولانِ گرامی میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) واحد پیغمبر ہیں جنھیں اللہ تعالیٰ نے شرف ہم کلامی کی عزت بخشی اور اس طرح سے یہ اعزاز آپ کی امت تک پہنچا اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ کوہ طور پر جو ستر بڑے بڑے لوگ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ گئے تھے انھیں بھی اللہ کی آواز سنائی گئی۔ اتنے بڑے مقام پر فائز کیے جانے کے باوجود اس قوم نے جس پر قدم قدم پر عنایات کی بارش ہوتی رہی اور جنھیں فرعونیوں کی ذلت آمیز حکمرانی سے نجات دی، انھوں نے آخر اس کا کیا صلہ دیا ؟ اور بجائے دین کی قدر و قیمت پر جان دینے کے وہ دنیا کو دین پر ترجیح دینے لگے۔ اب وہ اسی قابل رہ گئے تھے کہ اللہ نے ان سے بات کرنا پسند نہ فرمایا۔ تیسری بات فرمائی کہ اللہ قیامت کے دن انھیں دیکھنا بھی پسند نہیں فرمائے گا جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اللہ کی نگاہ سے کوئی شخص بھی اوجھل نہیں۔ لیکن یہاں دیکھنے سے مراد شفقت سے دیکھنا ہے۔ جب باپ اپنے بیٹے سے غضبناک ہو کر یہ کہتا ہے کہ نکل جاؤ میں تیری شکل نہیں دیکھنا چاہتا تو اس سے مراد دیکھنا نہیں ہوتا بلکہ یہ مراد ہوتا ہے تم آج سے میری شفقت سے محروم ہوگئے ہو۔ ان سے بات کرنے سے انکار اور دیکھنے سے انکار درحقیقت ان کی انتہائی محرومی کی طرف اشارہ ہے کہ پروردگارِعالم جس پر ہمیشہ رحمت غالب رہتی ہے اس دن یہ بدنصیب لوگ اس کی ہر طرح کی رحمت سے مایوس کردیئے جائیں گے۔ مزید فرمایا کہ اللہ ان کو پاک بھی نہیں فرمائے گا۔ اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ دنیا میں اپنے رسول اس لیے بھیجتا ہے تاکہ وہ لوگوں کا تزکیہ کریں۔ لیکن قیامت کے دن یہ لوگ خود پروردگار کے سامنے موجود ہوں گے، لیکن وہ ان کا تزکیہ نہیں فرمائے گا کیونکہ تزکیہ کا محل دنیا ہے، آخرت نہیں۔ آخرت تو جزا اور سزا کا دن ہے۔ یہ شاید اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اہل کتاب کا دعویٰ یہ تھا کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ہمیں ہر طرح پاک فرما کر جنت میں داخل کر دے گا اس لیے ہمیں دنیا میں اپنے تزکیے کی کوئی فکر نہیں اور دوسرا مطلب اس کا یہ ہے کہ اللہ کا یہ قانون ہے کہ جن لوگوں کا خاتمہ کفر پر ہوا اور انھوں نے پوری زندگی ایک کافر کی طرح گزاری ہو، اللہ تعالیٰ انھیں براہ راست ہمیشہ کے لیے جہنم کی نذر کر دے گا۔ البتہ ! جن لوگوں نے اللہ کو کسی نہ کسی حد تک یاد رکھا اور ایمان پر ان کا خاتمہ ہوا وہ کیسی بھی بداعمالیاں ساتھ لے کر جائیں اللہ تعالیٰ ایک مدت تک انھیں جہنم میں رکھ کر انھیں بداعمالیوں سے پاک فرمائے گا اور جب وہ اپنی بداعمالیوں اور بدکرداریوں سے پاک ہوجائیں گے تو پھر اللہ تعالیٰ ان کو جنت میں داخل فرما دے گا۔ لیکن اہل کتاب اپنے کفر کے باعث اس قابل نہیں ہوں گے کہ انھیں پاک کیا جاسکے۔ پاک تو آدمی کو بد اعمالیوں کی سزا سے کیا جائے گا لیکن اس میں شرط یہ ہے کہ خاتمہ ایمان پر ہوا ہو۔ لیکن یہ کفر پر مرنے والے لوگ اس رعایت سے کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکیں گے۔ اس کا نتیجہ کیا ہوگا کہ یہ لوگ ہمیشہ کے لیے دردناک عذاب کے حوالے کردیے جائیں گے۔
Top