Ruh-ul-Quran - Al-An'aam : 20
اَلَّذِیْنَ اٰتَیْنٰهُمُ الْكِتٰبَ یَعْرِفُوْنَهٗ كَمَا یَعْرِفُوْنَ اَبْنَآءَهُمْ١ۘ اَلَّذِیْنَ خَسِرُوْۤا اَنْفُسَهُمْ فَهُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَ۠   ۧ
اَلَّذِيْنَ : وہ جنہیں اٰتَيْنٰهُمُ : ہم نے دی انہیں الْكِتٰبَ : کتاب يَعْرِفُوْنَهٗ : وہ اس کو پہچانتے ہیں كَمَا : جیسے يَعْرِفُوْنَ : وہ پہچانتے ہیں اَبْنَآءَهُمْ : اپنے بیٹے اَلَّذِيْنَ : وہ جنہوں نے خَسِرُوْٓا : خسارہ میں ڈالا اَنْفُسَهُمْ : اپنے آپ فَهُمْ : سو وہ لَا يُؤْمِنُوْنَ : ایمان نہیں لاتے
جن کو ہم نے کتاب عطا کی ‘ وہ اس کو پہچانتے ہیں ‘ جیسا اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں۔ جنہوں نے اپنے آپ کو گھاٹے میں ڈالا وہی ہیں ‘ جو اس پر ایمان نہیں لاتے
ارشاد ہوتا ہے : اَلَّذِیْنَ اٰتَیْنَھُمُ الْکِتٰبَ یَعْرِفُوْنَہٗ کَمَا یَعْرِفُوْنَ اَبْنَآئَھُمْ مہ اَلَّذِیْنَ خَسِرُوْآ اَنْفُسَھُمْ فَھُمْ لاَ یُؤْمِنُوْنَ ۔ (الانعام : 20) (جن کو ہم نے کتاب عطا کی ‘ وہ اس کو پہچانتے ہیں ‘ جیسا اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں۔ جنھوں نے اپنے آپ کو گھاٹے میں ڈالا وہی ہیں جو اس پر ایمان نہیں لاتے) کفار حضور ﷺ کو اپنے بیٹوں سے بڑھ کر پہچانتے ہیں اے مشرکین مکہ ! تم یہ کہتے ہو کہ اہل کتاب قرآن اور رسول اللہ ﷺ کی صداقت کے بارے میں کچھ نہیں جانتے اور ان کی کتابیں اس سے بالکل خالی ہیں۔ تم اصلاً ان اہل کتاب سے ملتے ہو ‘ جو تمہاری طرح جوشِ تعصب میں بالکل اندھے ہوچکے ہیں۔ عقل و دانش اور ہدایت و نصیحت کی کوئی بات جس طرح تم پر اثر انداز نہیں ہوتی ‘ اسی طرح ان پر بھی اثر نہیں کرتی۔ تمہیں غرور نفس اور جہالت نے ہدایت اور حقیقت سے دور رکھا ہے اور انھیں غرور نسب اور حسد نے اسلام قبول کرنے سے روک رکھا ہے۔ تم دونوں کا چونکہ مضمون مشترک ہے ‘ اس لیے تم دونوں اسلام کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کے لیے مل جل کر سازش کرتے ہو۔ سازش کے شرکاء تو کبھی صحیح گواہی نہیں دے سکتے۔ اس لیے وہ لوگ اگر ایسا کہتے ہیں تو انہی ایسا ہی کہنا چاہیے۔ لیکن اہل کتاب میں صالحین کا ایک گروہ بھی تو ہے ‘ جو اتنا بڑا جھوٹ بولتے ہوئے اللہ سے ڈرتا ہے یاجھجھک محسوس کرتا ہے۔ ان سے پوچھ کر دیکھو ! وہ تمہارے سامنے تاریخ کی اس واضح شہادت کو کبھی چھپانے کی جرأت نہیں کرے گا۔ چناچہ ان کے حوالے سے یہاں فرمایا جا رہا ہے کہ وہ قرآن کریم اور رسول اللہ ﷺ کو اس طرح پہچانتے ہیں ‘ جس طرح اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں یعنی جس طرح آدمی اپنے بیٹے کو پہچاننے میں کبھی غلطی نہیں کرتا۔ بیسیوں بچوں میں ملاجلا اپنا بچہ دور سے پہچان میں آجاتا ہے۔ اسی طرح باطل کے ہجوم میں بھی ‘ وہ اس حق کو پہچانتے ہیں اور کفار کی اڑائی ہوئی دھول میں بھی اللہ کے نبی کو پہچانتے ہیں۔ پھر جس طرح ایک باپ نہ صرف کہ بیٹے کو پہچانتا ہے بلکہ اس کے پیراہن کی خوشبو کو بھی پہچانتا ہے ‘ اس کے نقوش قدم بھی اس کے لیے اجنبی نہیں ہوتے ‘ اس کی علامتیں اس کے لیے جانی پہچانی ہوتی ہیں۔ اسی طرح آنحضرت ﷺ اہل کتاب کے لیے جانے پہچانے اور آپ کی ہدایت کی خوشبو ان کے مذہبی ذوق کے نہایت موافق اور آپ کے آثار و سنن ‘ سابق انبیاء کے آثار و سنن کے نہایت مشابہ ہیں۔ حدیث میں آتا ہے حضرت عمر فاروق ( رض) نے حضرت عبد اللہ ابن سلام ( رض) سے پوچھا کیونکہ حضرت عبد اللہ یہود کے بڑے علماء میں سے تھے اور اب اسلام قبول کرچکے تھے کہ قرآن کریم کہتا ہے کہ آپ حضور ﷺ کو اس طرح پہچانتے ہیں جس طرح اپنے بیٹوں کو ‘ اس کی کیا حقیقت ہے ؟ انھوں نے کہا ! حقیقت یہ ہے کہ ہم حضور ﷺ کو اپنے بیٹوں سے زیادہ جانتے ہیں۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ اپنے بیٹے کے بیٹا ہونے کی میرے پاس صرف ایک گواہی ہے ‘ وہ ہے بیٹے کی ماں۔ اگر اس نے سچ بولا ہے تو وہ واقعی میرا بیٹا ہے اور اگر اس نے خیانت کی ہے تو میں ایک ایسے لڑکے کو اپنا بیٹا سمجھتا ہوں ‘ جو حقیقت میں میرا بیٹا نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بیٹے کے بارے میں میرا علم ظنی ہے ‘ یقینی نہیں۔ لیکن حضور کے بارے میں ہماری پہچان یقینی ہے کیونکہ حضور ﷺ کی علامتیں ‘ آپ کی صفات اور آپ کی خصوصیات ‘ اللہ کی کتاب تورات میں واضح طور پر بیان کی گئی ہیں۔ جب ہم نے حضور ﷺ کو ان کا مصداق پایا تو وہ چونکہ اللہ کی طرف سے یقینی اطلاعات ہیں تو ہمیں ان کی وجہ سے یقین ہوگیا کہ آپ واقعی اللہ کے وہی رسول ہیں ‘ جس کی ہماری کتابوں نے گواہی دی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ بعض اہل کتاب نے آنحضرت ﷺ کو صرف ظاہری علامتوں سے پہچاننے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ جو علامتیں آپ کے اخلاق کے حوالے سے ان کی کتابوں میں بیان کی گئی تھیں ‘ جب تک اس کی تصدیق نہیں کرلی ‘ اس وقت تک وہ ایمان نہیں لائے۔ اہل کتاب میں سے ایک شخص جن کا نام زید بن سعنہ ہے ‘ ان سے آنحضرت ﷺ نے ایک دفعہ قرض لیا۔ واپسی کی کوئی تاریخ طے ہوگئی۔ لیکن وہ واپسی کی تاریخ سے کئی روز پہلے مطالبہ کرنے کے لیے آپہنچے۔ آپ نے صرف یہ فرمایا کہ بھئی ابھی تو واپسی کا وقت نہیں آیا۔ لیکن انھوں نے بجائے اپنی غلطی کو سمجھنے کے ‘ سخت رویہ اختیار کیا۔ بڑھتے بڑھتے یہ تک کہہ ڈالا کہ تم جو آل عبدالمطلب ہو تم تو ہمیشہ کے نا دہند ہو۔ تم قرض لیتے ہو ‘ لیکن تمہیں واپسی کی فکر نہیں ہوتی۔ جب وہ بد زبانی میں یہاں تک پہنچ گیا تو صحابہ کرام جو حضور اکرم ﷺ کے ادب کی وجہ سے خاموش بیٹھے سب کچھ دیکھ رہے تھے ‘ ان میں اشتعال پیدا ہوا اور حضرت عمر فاروق ( رض) نے اٹھ کر اس کا گریبان پکڑ لیا اور اسے ڈانٹا۔ تب حضور ﷺ نے سختی سے حضرت عمر فاروق سے فرمایا : اسے چھوڑ دو ۔ آپ نے فرمایا : تم نے اسے ڈانٹ کر اچھا نہیں کیا۔ انھوں نے عرض کی کہ حضور آپ دیکھ نہیں رہے ‘ وہ کیسے بدزبانی کر رہا ہے۔ حضور ﷺ نے فرمایا : تمہیں دونوں کو سمجھانا چاہیے تھا۔ مجھے کہتے کہ قرض لیا تھا تو واپسی کی فکر بھی کرنی چاہیے تھی۔ اسے کہتے کہ تقاضہ کرتے ہوئے شائستگی کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے۔ اب جبکہ تم نے اس کے ساتھ سختی کی ہے، اس کا تقاضہ یہ ہے کہ اسی وقت اس کا قرض ادا کرو اور سختی کے بدلے میں اصل قرض سے زائد ادا کرو۔ اس شخص نے اپنا قرض وصول کیا اور وہاں سے چلا گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد غسل کر کے واپس آیا اور آ کر عرض کی حضور ﷺ مجھے مسلمان کیجئے۔ مسلمان ہونے کے بعد اس نے بتایا کہ میں پہلی آسمانی کتابوں کا عالم ہوں۔ میں نے حضور کی ایک ایک علامت دیکھ لی تھی ‘ لیکن ایک علامت دیکھنا باقی تھا۔ ہماری کتابوں میں لکھا ہے کہ نبی آخر الزمان اس قدر حلیم اور بردبار ہوں گے کہ لوگوں کی سختی اور بدتمیزی ان کی بردباری کو شکست نہیں دے سکے گی۔ کہا آج میں صرف اس علامت کو دیکھنے اور آزمائش کرنے آیا تھا۔ جب یہ علامت بھی پوری ہوگئی تو اب اسلام لانے میں دیر نہیں کی جاسکتی۔ ایسے اور اہل کتاب کے بہت سے واقعات ہیں ‘ جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ فی الواقع آنحضرت کو پوری طرح پہچانتے تھے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر وہ واقعی اسی طرح پہچانتے تھے تو پھر وہ ایمان کیوں نہیں لاتے تھے ؟ اس کے بارے میں اس آیت کریمہ کے دوسرے حصے میں فرمایا گیا کہ جن لوگوں نے اپنی جانوں کو گھاٹے میں ڈالا ‘ وہ ایمان نہیں لائیں گے۔ مقصد یہ ہے کہ دنیا میں ہر بیماری کا علاج ممکن ہے ‘ لیکن خود کشی کا کوئی علاج نہیں۔ آپ کسی بھی خود کشی کرنے والے کو کسی ایک جگہ سے روک لیں گے ‘ دو جگہ سے روک لیں گے ‘ لیکن اگر وہ فیصلہ کرچکا ہے کہ اس نے خودکشی ضرور کرنی ہے تو آپ کہاں کہاں اسے روکیں گے۔ یہ لوگ بھی ایمانی خود کشی کا فیصلہ کرچکے تھے اور حسد اور بغض نے ان کو اس حد تک اندھا کردیا تھا کہ آخرت کو جانتے ہوئے بھی ‘ آخرت کو بھول چکے تھے۔ بگڑی ہوئی قوموں میں بگاڑ کی کوئی ایک شکل و صورت نہیں ہوتی۔ بگڑے ہوئے لوگ بھی سب یکساں نہیں ہوتے۔ اہل کتاب میں بھی ایک تو ایمان نہ لانے والوں میں یہ لوگ تھے ‘ جن کو حسد اور بغض نے ایمان لانے کے قابل نہ چھوڑا تھا۔ لیکن ان کے علاوہ ایک بہت بڑی تعداد ایسے لوگوں کی تھی جن کو بےفکروں کا گروہ کہنا چاہیے۔ انھیں اس بات سے کوئی غرض ہی نہیں تھی کہ نبی آخر الزماں تشریف لا چکے ہیں۔ وہ ہمیں کسی بات کی طرف دعوت دے رہے ہیں۔ ہمیں ہمارے برے انجام سے بچانا چاہتے ہیں۔ وہ دنیا کے اللے تللوں اور عیش و عشرت کی مستیوں میں اس حد تک ڈوب چکے تھے کہ انھیں سوائے اپنے شغل بےکار کے اور کسی بات سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ اس کی مثال دیکھنا چاہیں تو ہمارے گرد و پیش میں بہت ساری مثالیں موجود ہیں۔ ایسے لوگ جنھوں نے حرام ذرائع سے دنوں میں دولت پیدا کی ہے۔ جنھوں نے عہدہ و منصب سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے دنیا کا مال جمع کرلیا اور بری صحبتوں میں پڑ کر نائو نوش کی زندگی اختیار کرچکے ہیں۔ یہ لوگ جب کبھی کسی تقریب میں اکٹھے ہو کر معصیت کا کاروبار کر رہے ہوتے ہیں یا ہر سال کے آغاز میں سال کا پہلا دن منا رہے ہوتے ہیں یا کسی بھی حوالے سے عیش و عشرت کی کوئی تقریب پیدا کرلیتے ہیں تو آپ ان لوگوں سے کبھی بات کر کے دیکھیے۔ انھیں ان کی موت یاد دلایئے ‘ شرافت اور شائستگی کی بات چھیڑ کر دیکھیے ‘ شرم و حیا کا تذکرہ کر کے دیکھ لیجئے ‘ ملک کے بگڑے ہوئے حالات کا واسطہ دیجئے ‘ کوئی سی بھی سنجیدہ بات نہ صرف کہ ان کے قریب سے بھی ہو کر نہیں گزرتی ‘ بلکہ وہ انھیں قابل نفرت معلوم ہوتی ہے۔ دنیا کی کوئی بات ہو ‘ آپ ان کی معلومات پر حیران رہ جائیں گے۔ لیکن دین اور آخرت کی بات ‘ ایسامعلوم ہوگا کہ وہ شاید پہلی دفعہ سن رہے ہیں۔ یہی وہ طبقہ ہے ‘ جن کے بارے میں قرآن کریم نے کہا : یَعْلَمُوْنَ ظَاھِرًا مِنَ الْحَیَاۃِ صلے ج الدُّنْیَا وَ ھُمْ عَنِ الْاٰخِرَۃِ ھُمْ غَافِلُوْنَ (الروم : 7) (یہ لوگ دنیا کے ظاہر کو اچھی طرح جانتے ہیں ‘ لیکن آخرت سے بالکل غافل ہیں) اہل کتاب میں بھی اس طرح کے لوگ بہت بڑی تعداد میں موجود تھے۔ انھیں ان موضوعات سے کوئی دلچسپی باقی نہیں رہ گئی تھی۔ ان کے بارے میں قرآن کریم کہہ رہا ہے کہ ان لوگوں نے اپنے آپ کو گھاٹے میں ڈالا ہے۔ یعنی وہ دنیا کی سرمستیوں میں ڈوب کر ‘ آخرت کی فلاح کو بھول چکے ہیں۔ اس لیے وہ ایمان نہیں لائیں گے کیونکہ ایمان ان کی سوچ سے اب میل نہیں کھاتا۔ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس طرح کے انسانوں کا طبقہ صرف دولتمندوں اور صاحب منصب لوگوں میں ہوتا ہے چونکہ ان کے یہاں دولت کی ریل پیل ہوتی ہے اور وہ مسائل کی پریشانیوں سے دور ہوتے ہیں۔ اس لیے ایمان و عمل کی باتیں ان کے لیے اجنبی ہوجاتی ہیں۔ لیکن عجیب بات یہ ہے کہ اس طرح کے لوگ آپ کو غربا میں بھی ملیں گے۔ وہ مزدور ‘ جو دن بھر کی مزدوری سے رات کو روٹی کھانے کے قابل ہوتا ہے۔ ان میں بھی آپ کو ایسے آدمی نظر آئیں گے ‘ جنھیں دین کی باتوں سے کوئی سروکار نہیں۔ وجہ اس کی ظاہر ہے کہ پہلے طبقے کو مسائل سے لاتعلقی گمراہ کرتی ہے اور دوسرے طبقے کو مسائل کا ہجوم کسی اور طرف دیکھنے کا موقع نہیں دیتا۔ یہ دونوں ہی اپنی جانوں کے دشمن اور اپنے انجام سے بیخبر لوگ ہیں۔ جب تک گہری منصوبہ بندی اور نہایت دلسوزی کے ساتھ ان لوگوں میں کام کا راستہ نہیں نکالا جائے گا ‘ اس وقت تک ان کی سوچ میں تبدیلی نہیں آسکتی۔ عقیدہ توحید اور شرک کے ابطال کے سلسلہ میں اللہ کی گواہی اور اہل کتاب کی گواہی کے ذکر کرنے اور اس ضمن میں بعض ضمنی مباحث کے چھڑ جانے کی وجہ سے بعض حکیمانہ باتیں ارشاد فرمانے کے بعد ‘ اب پھر اسی بحث کو مکمل کیا جا رہا ہے۔
Top