Tadabbur-e-Quran - Al-Baqara : 21
یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّكُمُ الَّذِیْ خَلَقَكُمْ وَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَۙ
يَا اَيُّهَا النَّاسُ : اے لوگو اعْبُدُوْا : عبادت کرو رَبَّكُمُ : تم اپنے رب کی الَّذِیْ : جس نے خَلَقَكُمْ : تمہیں پیدا کیا وَالَّذِیْنَ : اور وہ لوگ جو مِنْ : سے قَبْلِكُمْ : تم سے پہلے لَعَلَّكُمْ : تا کہ تم تَتَّقُوْنَ : تم پرہیزگار ہوجاؤ
اے لوگو، بندگی کرو اپنے اس خدا کی جس نے تم کو بھی پیدا کیا اور ان کو بھی جو تم سے پہلے گزرے ہیں، تاکہ دوزخ کی آگ سے محفوظ رہو
’ٰٓیاَیُّھَا النَّاسُ‘ کا خطاب مشرکین سے: ’ٰٓیاَیُّھَا النَّاسُ‘ سے خطاب اگرچہ بظاہر عام ہے لیکن یہاں مخاطب ، جیسا کہ اوپر گزرا ، خاص طور پر مشرکین عرب ہیں۔ اس خطاب کو مشرکین کے ساتھ مخصوص ماننے کی وجہ ہمارے نزدیک یہ ہے کہ اس کے بعد جو بات کہی گئی ہے، جو طرزِ استدلال اختیار کیا گیا ہے اور مخاطب سے جو مطالبہ کیا گیا ہے، ہر چیز اس بات کی شہادت دیتی ہے کہ یہاں خطاب کا اصلی رخ مشرکین ہی کی طرف ہے۔ یہود کے ذکر کے بیچ میں یہ خطاب بطور ایک امانت کے آ گیا ہے۔ اُعْبُدُوْا رَبَّکُمُ: لفظ عبادت کی تحقیق سورۂ فاتحہ کی تفسیر میں گزر چکی ہے۔ یہاں ’اُعْبُدُوْا رَبَّکُمُ‘ سے مقصود مشرکین کو صرف خدا کی بندگی کی دعوت دینا نہیں ہے بلکہ یہ ہے کہ خدا کی بندگی کی اس دعوت کو قبول کریں جو محمد ﷺ دے رہے ہیں۔ اس کلام کی یہی پوشیدہ حقیقت ہے کہ جس کی وجہ سے اس کے ساتھ وان کنتم فی ریب مما نزلنا علی عبدنا کا ربط موزوں ہوا۔ یعنی پیغمبرؐ جس بندگی کی دعوت دے رہے ہیں اس کو قبول کرو اور اگر تمہیں اس کتاب کے بارے میں شبہ ہے کہ یہ کوئی من گھڑت چیز ہے ، خدا کی اتاری ہوئی نہیں ہے ، تو تم بھی اس کے مانند کوئی سورہ پیش کرو۔ نیز اس کے اندر یہ بات بھی چھپی ہوئی ہے کہ تم خدا کی جس بندگی کے مدعی ہو وہ درحقیقت خدا کی بندگی نہیں ہے، خدا کی بندگی کا صحیح طریقہ وہی ہے جس کی دعوت یہ کتاب دے رہی ہے۔ خَلَقَکُمْ وَالَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ: خَلَقَکُمْ کے ساتھ وَالَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ کا اضافہ اس لیے فرمایا ہے کہ مشرکین عرب اس بات کے تو قائل تھے کہ ان کا خالق اللہ تعالیٰ ہی ہے لیکن اپنے بزرگوں میں سے انہوں نے بعضوں کو خدائی صفات میں شریک قرار دے کر خالق کی صف میں کھڑا کر دیا تھا اور ان کے بت بنا کر ان کی پرستش کرنے لگ گئے تھے۔ یہاں قرآن نے ان کے ساتھ ساتھ ان کے تمام اگلوں کو بھی عام مخلوقاتِ الٰہی میں شامل کر کے اشارۃً اس بات کی طرف بھی توجہ دلا دی کہ خدا کی بندگی کرنی ہے تو نہ صرف اپنے آپ کو مخلوق و مقہور مان کر خدا کے آگے جھکو بلکہ ان کو بھی خدا ہی کی مخلوق ما نو جن کو تم نے اپنی حماقت سے خالق کا درجہ دے رکھا ہے۔ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ: لعلّ مختلف معنوں کے لیے آتا ہے جن میں سے کسی چیز کے ممکن و متوقع نتیجہ کے بیا ن کے لیے بھی اس کا استعمال مشہور و معروف ہے۔ ہم نے اس کو اسی معنی میں یہاں لیا ہے اور جس سیاق میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے ہمارے نزدیک اس کے یہی معنی صحیح ہیں۔ تَتَّقُوْنَ کے یہاں دو معنی ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ تم تقویٰ حاصل کرو، دوسرے یہ کہ تم خدا کے غضب اور اس کے عذاب سے بچو۔ یہاں دونوں معنوں کے صحیح ہونے کا امکان ہے لیکن ہم نے دوسرے معنی کو ترجیح دی ہے۔ اس صورت میں اس کے مفعول کو محذوف ماننا پڑے گا اس محذوف کو قرآن نے اس کے بعد والی آیت میں خود کھول دیا ہے۔ فرمایا ہے۔ ’فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِیْ وَقُوْدُ ھَا النَّاسُ وَالْحِجَارَۃُ‘ (24۔ البقرہ) (پس اس آگ سے بچو جس کے ایندھن آدمی اور پتھر بنیں گے)۔
Top