Tadabbur-e-Quran - Al-Anfaal : 73
اِنَّ الْمُتَّقِیْنَ فِیْ جَنّٰتٍ وَّ عُیُوْنٍۙ
اِنَّ الْمُتَّقِيْنَ : بیشک متقی (جمع) فِيْ جَنّٰتٍ : باغات میں وَّعُيُوْنٍ : اور چشمے
بیشک پرہیز گار باغوں اور چشموں میں ہوں گے۔
3۔ آگے آیات 19-15 کا مضمون اوپر ان لوگوں کا ذکر گزرا ہے جو جزا و سزا سے بالکل نچنت لا ابا لیانہ زندگی گزارتے رہے اگر کسی نے اس خواب غفلت سے ان کو بیدار کرنے کی کوشش کی تو اس کا منہ انہوں نے اسی جواب سے بند کرنے کی کوشش کی کہ جزاء و سزا کا کوئی دن ہے تو وہ کہاں ہے ؟ اس کو لائو اور دکھائو۔ اب ان کے مقابل میں ان لوگوں کا انجام بیان ہو رہا ہے جو اس دن کو ایک حقیقت سمجھ کر برابر اس سے رتے اور اس کے لئے تیاریوں میں مصروف رہے۔ آیات کی تلاوت فرمایئے۔ 4 الفاظ کی تحقیق اور آیات کی وضاحت ان المتقین فی جنت وعیون 15 تقویٰ کی روح متقین ایک جامع صفت ہے جو قرآن میں ان لوگوں کے لئے استعمال ہوئی ہے جو خدا کے مقرر کردہ حدود و یوم کے اندر زندگی گزارنے والے ہیں۔ یہاں بھی اصلاً مراد وہی ہیں لیکن اوپر کی آیات میں ان لوگوں کا ذکر ہوا ہے جو آخرت اور جزاء و سزا سے نچنت لا ابالیانہ زندگی گزارتے ہیں اس وجہ سے یہاں، تقابل کے اصول پر، اس صفت کے اندر جزاء و سزا کے اندیشہ کا پہلو نمایاں ہے یعنی اس سے خاص طور پر وہ لوگ مراد ہیں جنہوں نے زندگی میں جو قدم بھی اٹھائے یہ سوچ کر اٹھائے کہ ایک دن ہر قول و فعل کا حساب دیتا اور حدود الٰہی سے ہر تجاوز کی سزا بھگتنی ہے۔ درحقیقت جزاء و سزا کا یہی اندیشہ تقویٰ کی اصل روح ہے۔ جس تقویٰ کے اندر یہ روح نہ ہو وہ محض نمائشی اور کاروباری تقویٰ ہے جس کی خدا کے ہاں کوئی پوچھ نہیں ہے۔ ان لوگوں کی نسبت فرمایا کہ بیشک یہ لوگ باغوں اور چشموں میں ہوں گے۔ اوپر لا ابالینہ زندگی گزارنے والوں کا انجام یہ باین ہوا کہ وہ جن زخارف پر ریجھ کر آخرت سے بےپروا ہوئے انہی کی آگ پر تپائے جائیں گے اور کہا جائے گا کہ اب ان زخارف کا مزہ چکھو۔ اس کے برعکس ان لوگوں نے چونکہ آخرت کے مقابل میں دنیا کے اخارف کو کوئی وقعت نہیں دی اس وجہ سے اللہ تعالیٰ ان کو باغوں اور چشموں میں اتارے گا۔ جنت اور عیون دونوں لازم و ملزوم کی حیثیت رکھتے ہیں اور یہ آخرت کی نعمتوں کی جامع تعبیر ہیں۔ فی یہاں اس بات پر دلیل ہے کہ یہ لوگ جنت کی نعمتوں میں بالکل گھرے ہوئے ہوں گے۔ ان کے لئے ہر طرف نعمت ہی نعمت ہوگی۔
Top