Maarif-ul-Quran - Nooh : 11
اِنَّ الَّذِیْنَ جَآءُوْ بِالْاِفْكِ عُصْبَةٌ مِّنْكُمْ١ؕ لَا تَحْسَبُوْهُ شَرًّا لَّكُمْ١ؕ بَلْ هُوَ خَیْرٌ لَّكُمْ١ؕ لِكُلِّ امْرِئٍ مِّنْهُمْ مَّا اكْتَسَبَ مِنَ الْاِثْمِ١ۚ وَ الَّذِیْ تَوَلّٰى كِبْرَهٗ مِنْهُمْ لَهٗ عَذَابٌ عَظِیْمٌ
اِنَّ الَّذِيْنَ : بیشک جو لوگ جَآءُوْ بالْاِفْكِ : بڑا بہتان لائے عُصْبَةٌ : ایک جماعت مِّنْكُمْ : تم میں سے لَا تَحْسَبُوْهُ : تم اسے گمان نہ کرو شَرًّا : برا لَّكُمْ : اپنے لیے بَلْ هُوَ : بلکہ وہ خَيْرٌ لَّكُمْ : بہتر ہے تمہارے لیے لِكُلِّ امْرِۍ : ہر ایک ٓدمی کے لیے مِّنْهُمْ : ان میں سے مَّا اكْتَسَبَ : جو اس نے کمایا (کیا) مِنَ الْاِثْمِ : گناہ سے وَالَّذِيْ : اور وہ جس تَوَلّٰى : اٹھایا كِبْرَهٗ : بڑا اس کا مِنْهُمْ : ان میں سے لَهٗ : اس کے لیے عَذَابٌ : عذاب عَظِيْمٌ : بڑا
جن لوگوں نے بہتان باندھا ہے تم ہی میں سے ایک جماعت ہے اس کو اپنے حق میں برا نہ سمجھنا بلکہ وہ تمہارے لئے اچھا ہے ان میں سے جس شخص نے گناہ میں جتنا حصہ لیا اس کے لئے اتنا وبال ہے اور جن نے ان میں سے اس بہتان کا بڑا بوجھ اٹھایا ہے اس کو بڑا عذاب ہوگا
بیان براءت ونزاہت عائشہ صدیقہ ؓ از افک و تہمت و نصیحت مومنین وفضیحت منافقین قال اللہ تعالی۔ ان الذین جاء و بالافک عصبۃ منکم۔۔۔ الی۔۔۔ لہم مغفرۃ ورزق کریم۔ (ربط) گزشتہ آیات میں مطلق محصنات یعنی عام مسلمان اور پاک دامن عورتوں پر تہمت لگانے کی شناعت اور قباحت کو بیان فرمایا۔ اب ان آیات میں ام المومنین عائشہ صدیقہ ؓ پر تہمت لگانے کی شناعت اور قباحت کو بیان کرتے ہیں اس لئے کہ آپ کا رتبہ بوجہ ام ال مومنین ہونے کے اور بوجہ زوجہ سید المرسلین ﷺ ہونے کے تمام محصنات مومن ات سے بہت بلند اور برتر ہے۔ یہاں سے یعنی ان الذین جاء و بالافک عصبۃ سے لے کر اٹھارہ آیتوں تک یعنی اولئک مبرء ون مما یقولون لہم مغفرۃ ورزق کریم تک یہی مضمون چلا گیا ہے جن میں عائشہ صدیقہ ؓ کی براءت اور نزاہت کو بیان کیا تاکہ معلوم ہوجائے کہ ام المومنین اور زوجہ سید المرسلین ﷺ پر تہمت لگانا کفر اور نفاق ہے۔ عام محصنات مومن ات پر تہمت لگانے والا فاسق اور فاجر اور مردود الشہادۃ ہے مگر ام المومنین عائشہ صدیقہ ؓ اور دیگر ازواج مطہرات پر تہمت لگانے والا کافر اور منافق ہے اور ان آیات کے خاتمہ پر حق تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ اولئک مبرء ون مما یقولون اس بارے میں نص صریح ہے کہ جو شخص حق تعالیٰ کی اس برات اور نزاہت کی شہادت کے بعد بھی عائشہ صدیقہ ؓ اور دیگر ازواج مطہرات کے بارے میں بدگمانی کرے وہ بلاشبہ کافر ہے اور حق تعالیٰ کی اس شہادت کا منکر ہے، (دیکھو صاوی (ف 1) حاشیہ جلالین ص 129 ج 3) اور تمام مفسرین کا اس پر اجماع ہے کہ یہ آیتیں عائشہ صدیقہ ؓ کی برات اور نزاہت کے بارے میں نازل ہوئیں جو منافقین نے آپ پر تہمت لگائی تھی۔ صحیح بخاری اور دیگر کتب حدیث میں یہ قصہ تفصیل کے ساتھ مذکور ہے خلاصہ اس کا یہ ہے۔ آنحضرت ﷺ 6 ھ میں غزوہ نبی المصلطلق سے واپس آرہے تھے اور ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ آپ ﷺ کے ہمراہ تھیں اور ان کی سواری کا اونٹ علیحدہ تھا اور اس پر ایک ہودج تھا۔ اسی ہودج میں ام المومنین سوار کی جاتی تھیں اور اسی ہودج میں اتاری جاتی تھیں۔ واپسی میں ایک منزل پر نزول ہوا کوچ سے پہلے حضرت عائشہ صدیقہ ؓ قضا حاجت کے لئے پڑاؤ سے باہر چلی گئیں وہاں اتفاق سے ان کے گلے میں جو منکوں کا ہار تھا ٹوٹ کر گرگیا اس کی تلاش میں دیر لگ گئی یہاں پیچھے کوچ ہوگیا جو لوگ اونٹ پر ہودج کسا کرتے تھے انہوں نے یہ خیال کر کے کہ ام المومنین ہو دن ہی میں ہیں۔ ہودج کو اونٹ پر کس دیا چونکہ اس زمانہ میں عورتیں نہایت ہلکی پھلکی ہوتی تھیں، موٹی تازی نہیں ہوتی تھیں۔ اور اس وقت حضرت عائشہ ؓ کی عمر بھی کم تھی اس لئے ہودج کسنے والوں کو کچھ شبہ بھی نہ ہوا اور اونٹ کو لے کر قافلہ کے ساتھ روانہ ہوگئے جب لشکر روانہ ہوگیا تب عائشہ صدیقہ ؓ کو ہار مل گیا اور آپ پڑاؤ پر آئیں۔ دیکھا کہ وہاں کوئی نہیں۔ قافلہ کوچ کرچکا ہے آخر یہ سوچ کر کہ آنحضرت ﷺ جب منزل پر پہنچ کر مجھے نہیں پائیں گے تو تلاش کے لئے یہیں کسی کو روانہ کریں گے یہ خیال کر کے وہیں بیٹھ گئیں۔ وہاں بیٹھے بیٹھے ان پر نیند نے غلبہ کیا اور سو گئیں۔ لشکر کے پیچھے گری پڑی چیز کی حفاظت اور نگہداشت کے لئے ایک شخص صفوان بن معطل سلمی ؓ رہا کرتا تھا وہ لشکر کے پیچھے آرہا تھا۔ علی الصبح سویرے ہی سویرے حضرت عائشہ ؓ کی منزل کے قریب آپہنچا اور دور سے دیکھ کر یہ سمجھا کہ کوئی شخص پڑا سوتا ہے جب قریب پہنچا تو اس نے عائشہ صدیقہ ؓ کو دیکھ کر پہچان لیا کیونکہ نزول حجاب سے پہلے انہوں نے عائشہ صدیقہ ؓ کو دیکھا تھا جب اس نے ام المومنین عائشہ ؓ کو اس طرح دیکھا تو غایت تاسف سے ان للہ وانا الیہ راجعون پڑھا اس پڑھنے کی آواز سے حضرت عائشہ ؓ کی آنکھ کھل گئی اور فورا چادر سے منہ ڈھانک لیا حضرت صفوان ؓ نے اونٹ کو لا کر ان کے قریب بٹھلا دیا ام المومنین پردہ کے ساتھ اس اونٹ پر سوار ہوگئیں اور وہ اونٹ کی مہار پکڑ کر اس کو کھینچتے ہوئے پا پیادہ آگے آگے چلے یہاں تک کہ عین دوپہر کے وقت قافلہ سے جا ملے۔ اتنی سی بات پر منافقوں نے بہتان طرازی شروع کردی اور اس معمولی سے واقعہ کا ایک افسانہ بنا دیا۔ جس کا سرغنہ رئیس المنافقین عبد اللہ بن ابی منافق تھا۔ اس خبیث دشمن کو ایک بات ہاتھ لگ گئی اور طرح طرح سے واہی تباہی بکنا شروع کیا۔ اصل فتنہ پرداز تو منافقین تھے، لیکن بعض بھولے بھالے مسلمان بھی سنی سنائی باتوں کا تذکرہ کرنے لگے، جیسے حضرت حسان ؓ اور مسطح ؓ اور حمنہ بنت حجش جو ام المومنین زینب بنت حجش ؓ کی بہن تھیں۔ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ وہاں پہنچ کر بیمار ہوگئیں۔ جب ان کو اس کی خبر ہوئی تو زارو قطار روئیں اور ہچکیاں بندھ گئیں اور بیماری میں اور اضافہ ہوا۔ آنحضرت ﷺ سے اجازت لے کر اپنے باپ کے گھر آگئیں۔ شب وروز روتی تھیں اور آنسو نہیں تھمتے تھے، اسی دوران میں بہت سے واقعات پیش آئے جو صحیح بخاری میں مذکور ہیں اور ہم نے تفصیل کے ساتھ ان کو سیرۃ المصطفیٰ میں ذکر کردیا ہے۔ بالآخر جب حضرت عائشہ ؓ کا صدمہ حد سے گزر گیا اور حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی طرح فصبر جمیل واللہ المستعان علی ما تصفون کا کلمہ زبان پر جاری ہوا تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت عائشہ ؓ کی برات میں یہ آیتیں ان الذین جاء و بالافک سے لے کر اولئک مبرء ون مما یقولون لہم مغفرۃ ورزق کریم۔ تک نازل ہوئیں۔ جن سے حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کی برات اور نزاہت پر قیامت تک کے لئے مہر لگ گئی اور کس منافق کی مجال نہیں رہی کہ وہ عائشہ صدیقہ ؓ کی شان میں کوئی لفظ اپنی زبان سے نکال سکے، چناچہ فرماتے ہیں۔ تحقیق جو لوگ اس بہتان کو بنا کر لائے ہیں وہ تم ہی میں کا ایک چھوٹا سا گروہ ہے، یعنی بظاہر وہ مسلمانوں کی ایک جماعت ہے خیر سے نام اسلام کا لیتے ہیں خواہ وہ سچ ہو یا جھوٹ ہو۔ اصل سازش تو منافقوں کی ہے اور چند مسلمان نادانستہ طور پر ان کی اس عیارانہ سازش کا شکار ہوگئے باقی ان چند کے سوا جمہور اہل اسلام اس سازش میں نہیں پھسے۔ اصل فتنہ کا بانی مبانی تو عبد اللہ بن سلول منافق تھا اور اس کے ساتھ منافقین کی جماعت تھی اس کے علاوہ چند مخلص مسلمان جیسے حسان ؓ اور مسطح ؓ اور حمنہ ؓ وہ صرف کسی غلط فہمی کا سادہ لوحی کی وجہ سے منافقین کے جال میں پھنس گئے مومنین مخلصین میں سے صرف یہ تین تھے باقی منافقین تھے اور عام اہل اسلام اس خبر سے غایت درجہ رنجیدہ اور ملول تھے۔ اس لئے ان آیات میں ان کی تسلی فرماتے ہیں کہ اے مسلمانو ! تم اس بہتان کو اپنے حق میں برا نہ سمجھو۔ ظاہر میں اگرچہ برا معلوم ہوتا ہے مگر حقیقت میں برا نہیں بلکہ وہ تمہارے حق میں بہتر ہے۔ کہ اللہ تعالیٰ خود برات کا متولی اور کفیل بنا اور آسمان سے عائشہ صدیقہ ؓ کی برات میں اور اہل ایمان کی مدح میں اور منافقین کی فضیحت اور مذمت میں اٹھارہ آیتیں نازل کیں جو قیامت تک اہل علم کے سینوں میں محفوظ رہیں گی اور مسجدوں اور محرابوں میں زبانیں ان کی تلاوت کرتی رہیں گی یہ تو لسان صدق ہے، دنیا اور آخرت میں جس سے تمہاری بزرگی اور عظمت شان سب پر ظاہر ہوگئی اور دشمنان اسلام ہمیشہ کے لئے ذلیل و خوار ہوگئے سو یہ بہتان تمہارے حق میں برا نہیں ہوا بلکہ ان کے حق میں برا ہوا اور ان کی ایذاء اور بد زبانی پر صبر کا اجر اس کے علاوہ رہا۔ یہ خطاب ان مسلمانوں کی تسلی کے لئے ہے جنہیں اس واقعہ سے صدمہ پہنچا تھا بالخصوص یہ خطاب آنحضرت ﷺ اور عائشہ صدیقہ ؓ اور ابوبکر صدیق ؓ اور ان کے گھر والوں کو ہے جن پر صدمہ کا پہاڑ آگرا۔ یہ آیتیں نازل کر کے ان کو تسلی بخشی اور دنیا کو متنبہ کردیا کہ پیغمبر (علیہ السلام) کی ازواج مطہرات کا اور خاص کر عائشہ صدیقہ ؓ کا کیا مرتبہ ہے۔ ان میں سے ہر شخص کے لئے اسی قدر سزا ہے جس قدر اس نے گناہ کمایا ہے۔ جس شخص نے جس قدر اس فتنہ میں حصہ لیا۔ بقدر حصہ وہ سزا کا مستحق ہے۔ اس لئے کہ بعضے اس خبر کو سن کر ہنستے تھے اور بعض نے کچھ زبان سے بھی کہا تھا بعض خاموش رہے مگر بولنے والے کو منع نہ کیا۔ اس مختصر جملہ میں اس قسم کے تمام لوگوں پر عتاب ہے اور وہ شخص جس نے اس میں بڑاحصہ لیا اس کے لئے آخرت میں بڑا عذاب ہے اس سے مراد عبد اللہ بن ابی منافق ہے دنیا کی ذلت کے علاوہ آخرت میں ذلیل اور خوار ہوگا۔ اس آیت میں منافقین کے سرغنہ عبد اللہ بن ابی کو تہدید فرمائی۔ اب آئندہ آیات میں ان مومنین کو نصیحت فرماتے ہیں کہ جو نادانستہ طور پر منافقین کی اس سازش کا شکار ہوگئے تھے بعض اس خبر کو سن کر خاموش ہوگئے اور بعض نے اس خبر کو نقل کیا اگرچہ وہ اس خبر کو سچا نہیں سمجھتے تھے لیکن نقل کرنے سے ایک درجہ میں منافقین کے معاون بنے اس لئے آئندہ آیت میں اس قسم کے مسلمانوں کو نصیحت اور ملامت فرماتے ہیں کہ جب تم نے اس بات کو سنا تو ایمان والے مردوں نے جن میں حسان ؓ اور مسطح ؓ بھی آگئے اور ایمان والی عورتوں نے جن میں حمنہ ؓ بھی آگئیں اپنے بھائی بہنوں کے متعلق نیک گمان کیوں نہ کیا۔ اور سنتے ہی فورا زبان سے یہ کیوں نہ کہہ دیا کہ یہ تو کھلا جھوٹ ہے یعنی مسلمانوں کو چاہئے تھا کہ اپنے بھائی بہنوں کے ساتھ نیک گمان رکھتے اور اپنے جیسا ان کو سمجھتے اور صاف کہہ دیتے کہ یہ تو کھلا جھوٹ ہے۔ حضرت عائشہ ؓ کی طہارت اور نزاہت اور ان کا ام المومنین ہونا اور ان کا ذات اطہر ﷺ کی زوجیت میں ہونا اور صفوان ؓ کا مرد صالح اور متقی ہونا اور عبد اللہ بن ابی کا منافق ہونا اور دشمن رسول ہونا اور اس کا جھوٹا ہونا یہ سب باتیں تمہارے سامنے تھیں۔ پھر دشمنان رسول کی ایک جھوٹی افواہ پر تم نے کیسے کان لگایا۔ ابو ایوب انصاری ؓ کے سامنے جب اس بات کا ذکر آیا تو سنتے ہی کہہ دیا کہ سب جھوٹ ہے صدیق ؓ کی بیٹی اور نبی کی بیوی کے متعلق ایسا گمان نہیں کیا جاسکتا۔ غرض یہ کہ ان آیات میں قاذفین منافقین کے علاوہ ان مومنین اور مومنات پر ناصحانہ ملامت ہے جنہوں نے اس خبر کو سن کر خاموشی اختیار کی یا تردد میں رہے یا بطور تذکرہ اس خبر کو نقل کیا ان لوگوں کو چاہئے تھا کہ سنتے ہی کہہ دیتے ھذا افک مبین یہ صریح بہتان ہے۔ اہل افک اپنی اس بات پر چار گواہ کیوں نہ لائے کیونکہ اثبات گناہ کے لئے چار گواہوں کا ہونا شرط ہے۔ پس جب یہ لوگ اس پر چار گواہ نہ لاسکے تو ایسے لوگ قانون شریعت کے موافق اللہ کے نزدیک جھوٹے ہیں۔ کیونکہ شریعت نے جب یہ قاعدہ اور یہ قانون مقرر کردیا کہ ثبوت گناہ کے لئے چار گواہوں کا ہونا شرط ہے۔ دعوے میں ذاتی معاینہ کافی نہیں بلکہ ثبوت کے لئے چار عینی شاہدوں کی شہادت ضروری ہے پس جو شخص کسی پر بدکاری کی تہمت لگائے اور چار گواہ نہ پیش کرسکے تو قانون شریعت کے مطابق وہ شخص جھوٹا ہے۔ اگرچہ اس نے اپنی آنکھ سے مشاہدہ کیا ہو لیکن عدالتی ثبوت کے لئے چار عینی شاہدوں کی شہادت ضروری ہے بغیر ثبوت کے ایسی سنگین بات کا زبان سے نکالنا جر م ہے۔ پس معلوم ہوا کہ آیت میں عند اللہ کے معنی فی علم اللہ کے نہیں بلکہ فی حکم اللہ اور فی قانون اللہ کے معنی مراد ہیں اور مطلب یہ ہے کہ جو شخص دعوائے زنا میں چار گواہ نہ پیش کرسکے تو وہ قانون خداوندی اور ضابطہ شریعت کے اعتبار سے جھوٹا ہے گو واقعہ میں وہ سچا ہو اس لئے کہ بغیر ثبوت فراہم ہوئے اس کو اجازت نہ تھی کہ زبان سے ایسی بات نکالے اس لئے قانون شہادت اور ضابطہ گواہی کے اعتبار سے اس کو کاذب کہنا جائز ہے اگرچہ وہ فی الواقع اور فی علم اللہ صادق ہے لیکن عدالت میں تو قانون شہادت کے اعتبار سے اس کے صدق اور کذب کا جانچا جائے گا جو شخص کسی پر زنا کا دعویٰ کرے اور چار عینی گواہ نہ پیش کرسکے تو وہ ازروئے قانون جھوٹا ہے۔ اور اے مسلمانو ! اگر دنیا اور آخرت میں تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو جس چیز کے چرچے میں تم پڑے تھے تو اس میں تم کو بڑا بھاری عذاب پہنچتا۔ اللہ نے تم کو ایمان کی برکت سے توبہ کی توفیق دی اور تمہارا قصور معاف کیا اور عذاب سے بچا لیا اور یہ عذاب عظیم تم کو اس وقت پہنچتا جبکہ تم اپنی زبانوں سے باہم اس بات کو نقل کرتے تھے، اور مونہوں سے وہ بات کہتے تھے جس کی تمہیں خبر نہیں اور تم اس کو ہلکی اور معمولی بات سمجھتے ہو اور یہ خیال کرتے ہو کہ اس میں کچھ گناہ نہیں، حالانکہ وہ اللہ کے یہاں بہت بڑی اور بھاری ہے خاص کر ام المومنین کی شان میں ایسی صریح البطلان چیز کو زبان پر لانا جرم عظیم ہے اور چونکہ اس بات کا جرم عظیم ہونا بالکل واضح ہے تو تم نے سنتے ہی یہ کیوں نہ کہہ دیا کہ ہماری مجال نہیں کہ ایسی ناپاک بات زبان سے نکالیں۔ سبحان اللہ۔ یہ تو بہت ہی بڑا بہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس سے منزہ ہے کہ اس کے رسول اعظم کی بیوی فاجرہ ہو۔ کسی درجہ میں کافرہ تو نبی کی بیوی بن سکتی ہے مگر فاجرہ اور زانیہ عورت ہرگز ہرگز کسی نبی کی بیوی نہیں بن سکتی، حضرت نوح (علیہ السلام) اور لوط (علیہ السلام) کی بیبیاں کافرہ تھیں مگر معاذ اللہ فاجرہ نہ تھیں۔ معا ذ اللہ معاذ اللہ۔ جو خبیث کسی نبی کی زوجہ کو فاجرہ بتلاتا ہے وہ در پردہ نبی کو دیوث بتاتا ہے چناچہ سورة تحریم کی اس آیت کانتا تحت عبدین من عبادنا صالحین فخانتاھما کی تفسیر میں ابن عباس ؓ سے منقول ہے ما بغت امراۃ نبی قط یعنی کسی نبی کی بیوی نے کبھی بدکاری کا ارتکاب نہیں کیا، اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ اپنے پیغمبروں کے ناموس کی حفاظت کی ہے۔ شروع میں اسلام میں کافرہ اور مشرکہ سے نکاح کی اجازت رہی جو بعد میں منسوخ ہوگئی لیکن بدکار عورت سے کسی حال میں نکاح کی اجازت نہیں دی گئی الایہ کہ وہ زنا سے توبہ کرے۔ خلاصہ کلام یہ کہ منافقین جو بک رہے ہیں وہ ایسا صریح اور واضح بہتان ہے کہ جس میں غوروفکر کی بھی گنجائش نہیں۔ لہٰذا اے مسلمانو ! اللہ تعالیٰ تم کو نصیحت کرتا ہے کہ آئندہ ایسی بات نہ کرو اگر تم ایماندار ہو تو خبر دار اور ہوشیار ہوجاؤ اور اللہ تمہارے لئے احکام اور اداب کو بیان کرتا ہے اور اللہ خوب جاننے والا حکمت والا ہے، اس کو عائشہ صدیقہ ؓ اور صفوان ؓ کا حال خوب معلوم ہے اب آئندہ آیات میں مسلمانوں کی تادیب کے لئے ان لوگوں کی مذمت فرماتے ہیں جو اس قسم کے فواحش اور بےحیائیوں کی نشرواشاعت کو پسند کرتے ہیں۔ تحقیق جو لوگ یہ پسند کرتے ہیں کہ مسلمانوں میں بےحیائی کا چرچا ہو ان کے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہے اور ایسے فتنہ پردازوں کو اللہ خوب جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔ اس لئے اللہ تم کو نصیحت کرتا ہے اور اگر تم پر اللہ کا فضل اور کرم نہ ہوتا اور یہ بات نہ ہوتی کہ اللہ تعالیٰ بلاشبہ بڑا نرمی کرنے والا اور مہربان ہے۔ تو فورا تم پر عذاب نازل کرتا لیکن اس نے اپنے فضل اور محبت سے تم کو تنبیہ اور تادیب کردی اور تو بہ اور استغفار کا موقع دے دیا اور تمہاری توبہ قبول کی اور حد شرعی جاری کر کے تم کو پاک کردیا اور جو زیادہ خبیث تھے، ان کو نہ توبہ کی توفیق دی اور نہ ان پر حد جاری کر کے ان کو پاک کیا بلکہ ان کو مہلت دی۔ اب آگے پھر تائبین کو نصیحت فرماتے ہیں اے ایمان والو۔ ایمان کا مقتضی یہ ہے کہ شیطان کو اپنا دشمن سمجھو اور شیطان کے نشان قدم پر نہ چلو یعنی افک کے متعلق جو کچھ کہا سنا جا رہا ہے۔ وہ سب شیطانی وسوسے ہیں ان کی پیروی نہ کرو اور جو شیطان کے قدموں پر چلے گا تو لا محالہ شیطان اس کو بےحیائی اور بری بات کا حکم دے گا۔ جو اس کی تباہی اور بربادی کا سامان ہوگا۔ اور اے مسلمانو ! اگر تم پر اللہ کا فضل وکرم نہ ہوتا تو وہ تم میں سے کبھی کسی کو اس جرم سے پاک نہ کرتا یعنی تم میں سے کسی کو توبہ کی توفیق نہ دیتا اور نہ اس کی توبہ قبول کرتا لیکن اللہ جس کو چاہتا ہے تو توبہ قبول کر کے اس کو گناہ سے پاک کردیتا ہے یہ وعدہ مومنین سے ہے جیسے حضرت حسان ؓ اور مسطح ؓ اور عبد اللہ بن ابن منافق اور اس کے اتباع سے نہیں۔ ان کے لئے آخرت کا عذاب عظیم ہے اور اللہ تمہارے اقوال کا سننے والا ہے اور تمہاری نیتوں کا جاننے والا ہے۔ ان مومنین مخلصین میں مسطح ؓ بھی تھے جو نادانی سے اس قصہ میں شریک ہوگئے۔ یہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے خالہ زاد بھائی تھے اور نادار تھے، قصہ افک سے پہلے ابوبکر صدیق ؓ ان کو خرچ دیا کرتے تھے جب حضرت عائشہ ؓ کے برات نازل ہوگئی تو حضرت ابوبکر ؓ کو مسطح ؓ کی طرف سے رنج ہوا اور قسم کھائی کہ آئندہ مسطح ؓ کی مدد نہ کروں گا تو آئندہ آیت ابوبکر صدیق ؓ کی تنبیہ کے لئے نازل ہوئی کہ اہل فضل اور اہل کرم کی شان کے مناسب نہیں کہ وہ ایسی قسم کھائیں عوام کے لئے ایسی قسم اگرچہ جائز ہو مگر صدیق اکبر ؓ کی شان فضل کے شایان نہیں۔ عجب نہیں کہ بمقتضائے بشریت غصہ میں آکر کسی صدقہ نافلہ سے ہاتھ روک لینا کسی درجہ میں خطوات الشیطن کا اتباع ہو اس لئے اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ ابوبکر صدیق ؓ شیطان کے قدموں کے اس معمولی گرد و غبار سے بھی محفوظ رہیں۔ اس لئے آئندہ آیت نازل فرمائی۔ اور جو لوگ تم میں سے صاحبان فضل اور مقدرت ہیں ان کو اپنے رشتہ داروں اور مسکینوں اور راہ خدا میں ہجرت کرنے والوں کو نہ دینے کی قسم نہ کھانی چاہئے یا بمقتضائے بشریت کسی ناراضگی کی بنا پر ان کی امداد اور اعانت میں کمی نہ کرنی چاہئے یہ شان فضل ووسعت کے خلاف ہے اشارہ مسطح ؓ کی طرف ہے کہ وہ ابوبکر صدیق ؓ کا رشتہ دار ہے ان کا خالہ زاد بھائی ہے اور مسکین ہے اور مہاجر ہے نادانی سے اس قصہ میں مبتلا ہوگیا اور اہل فضل ووسعت کو چاہئے کہ قصور معاف کریں اور در گزر کریں اور کیا تم پسند نہیں کرتے کہ اللہ تمہارے قصور کو معاف کرے اور اللہ بخشنے والا اور مہربان ہے۔ یعنی جب تم یہ چاہتے ہو کہ اللہ تمہارے قصور معاف کرے تو تم بھی دوسروں کے قصور معاف کرو۔ تخلق باخلاق الٰہیہ کا یہی مقتضا ہے کہ عفو اور مسامحت اختیار کرو۔ آنحضرت ﷺ نے جب اس آیت کو ابوبکر ؓ پر پڑھا تو ابوبکر ؓ نے کہا بیشک میں یہ چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ میری مغفرت کر دے اور مسطح ؓ کا وظیفہ جاری کردیا بلکہ پہلے سے دگنا کردیا اور قسم کھائی کہ بخدا اب کبھی بند نہ کروں گا۔ اور اپنی گزشتہ قسم کا کفارہ ادا کیا۔ اب آئندہ آیات میں عام عنوان سے پاک دامن عورتوں پر تہمت لگانے والوں پر لعنت اور عذاب آخرت کا ذکر کرتے ہیں جس سے اصل مقصود عائشہ صدیقہ ؓ پر تہمت لگانے والے پر دنیا اور آخرت کی لعنت اور عذاب عظیم کو بیان کرتا ہے۔ چناچہ فرماتے ہیں تحقیق جو لوگ ان پاکدامن عورتوں پر تہمت لگاتے ہیں جو ایسی سیدھی سادی اور بھولی بھالی ہیں کہ انہیں ایسی باتوں کی خبر بھی نہیں اور وہ ایمان والیاں ہیں تو ایسے لوگوں پر دنیا اور آخرت میں لعنت کی گئی ہے اور ان کے لئے بڑا بھاری عذاب ہے جس دن ان کے برخلاف ان کی زبانیں گواہی دیں گی اور ان کے ہاتھ اور پیر بھی گواہی دیں گے ان اعمال پر جو وہ دنیا میں کیا کرتے تھے یعنی قیامت کے دن ان کے مونہوں پر تو مہر لگا دی جائے گی مگر ان کی زبانیں خود بخود بولیں گی اور ان کے ہاتھ اور پیر بھی بولیں گے اور ان کے اقوال اور اعمال کی شہادت دیں گے، دنیا میں انسان اپنے ارادہ اور اختیار سے بولتا ہے اور زبان اس کے ارادہ کی ترجمان ہوتی ہے اور اس کے ارادہ کے تابع ہوتی ہے مگر قیامت کے دن زبان خود بخود بولے گی اور سچ مچ بولے گی اور زبان کا بولنا اس کے ارادہ کے تابع نہ ہوگا۔ نکتہ : ” قاذف “ نے زبان تہمت لگائی تھی تو اس سے چار گواہوں کا مطالبہ ہوا جو نہ پیش کرسکا اس لئے آخرت میں اس کے بالمقابل پانچ چیزیں گواہی دیں گی۔ زبان کے مقابلہ میں تو زبان بولے گی اور سچ سچ کہہ دے گی اور چار گواہوں کے مقابلہ میں دو ہاتھ اور دو پیر اس کے جھوٹ کی گواہی دیں گے اس طرح اس کے جھوٹ پر چار گواہ قائم کئے جائیں گے اور لعنت اور عذاب کی سزا اس کے لئے ثابت ہوجائے گی۔ اس دن اللہ تعالیٰ ان کو ان کے اعمال کی پوری پوری حق حق جزا دے گا۔ اور اس وقت جان لیں گے کہ اللہ ہی حق ہے جو حق اور صدق کو ظاہر کرنے والا ہے جس میں ذرہ برا بر بھی غلطی کا امکان نہیں۔ اب ام المومنین کے طہارت ونزاہت کے بیان کو خبیثین کی مذمت اور طیبین کی تعریف پر ختم فرماتے ہیں جس کو بطور قاعدہ کلیہ بیان کیا تاکہ اس کے عموم سے خاص عائشہ صدیقہ ؓ کی پاکیزگی پر استدلال کیا جائے چناچہ فرماتے ہیں اور پاکیزہ اور ستھری عورتیں پاکیزہ اور ستھرے مردوں کے لائق ہیں، اور پاکیزہ اور ستھرے مرد پاکیزہ اور ستھری عورتیں کے لا ئق ہیں اور رسول اللہ ﷺ نہایت طیب اور طاہر ہیں اسی طرح آپ ﷺ کی حرم محترم بھی غایت درجہ کی طیبہ اور طاہرہ ہیں اور منافقین جیسے خود خبیث ہیں ایسی ہی ان کی عورتیں بھی خبیث ہیں۔ ذرہ ذرہ کاندریں ارض وسما است جنس خود راہمجو کا ہ وکہر باست ناریاں مرناریاں راجا ذب اند نوریاں مر نوریاں را طالب اند اہل باطل باطلاں رامی کشند اہل حق از اہل حق ہم سر خوشند طیبات آمد زبہر طیبین للخبیثات الخبیثون است یقین فائدہ : نوح (علیہ السلام) اور لوط (علیہ السلام) کی بیبیاں کافرہ تو تھیں مگر زانیہ اور بدکار نہ تھیں۔ حدیث میں ہے ما بغت امراۃ نبی قط کسی نبی کی بیوی نے کبھی زنا نہیں کیا ایسے پاکیزہ لوگ ان باتوں سے بری ہیں جو یہ خبیثین ان کے بارے میں کہہ رہے ہیں ان لوگوں کے لئے تو خدا کی طرف سے مغفرت ہے اور عزت کی روزی ہے۔ خبیثین کی بد زبانی سے ان کی عزت میں کوئی فرق نہیں آتا۔ یہاں تک کلام الٰہی کی آیتیں ام المومنین عائشہ صدیقہ ؓ بنت صدیق ؓ کی برات اور نزاہت کے بیان میں ختم ہوئیں اور عجیب شان سے ختم ہوئیں کہ اب اس کے بعد کوئی درجہ باقی نہیں رہا۔ قرآن مجید کی ان آیات سے جو عائشہ صدیقہ ؓ کی عند اللہ قدر ومنزلت ثابت ہوئی وہ روز روشن سے زیادہ واضح ہے۔ حق جل شانہ کی اس شہادت کے بعد بھی اگر کوئی بد باطن عائشہ صدیقہ ؓ پر تہمت لگائے تو بالاتفاق علماء امت وہ کافر ہے اور عائشہ صدیقہ ؓ پر تہمت لگانے والے کا وہی حکم ہے جو مریم صدیقہ پر تہمت لگانے والے کا ہے۔ حضرت مسروق (جو کبار علماء تابعین میں سے ہیں) ان کی یہ عادت تھی جب وہ عائشہ صدیقہ ؓ سے روایت کرتے تو یوں کہتے کہ مجھ سے صدیقہ ؓ بنت صدیق ؓ۔ حبیبہ رسول ﷺ مبراۃ من السماء نے اس طرح بیان کیا۔ نکتہ : خاتمہ پر اولئک مبرء ون ممایقولون۔ بصیغہ جمع ذکر فرمایا۔ سو اس عموم میں اشارہ اس طرف ہے کہ یہ حکم فقط عائشہ صدیقہ ؓ کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ یہی حکم تمام ازواج مطہرات کو بھی شامل ہے۔ (واللہ سبحانہ وتعالی اعلم )
Top