Tadabbur-e-Quran - Al-Insaan : 8
وَ یُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰى حُبِّهٖ مِسْكِیْنًا وَّ یَتِیْمًا وَّ اَسِیْرًا
وَيُطْعِمُوْنَ : اور وہ کھلاتے ہیں الطَّعَامَ : کھانا عَلٰي : پر حُبِّهٖ : اس کی محبت مِسْكِيْنًا : محتاج، مسکین وَّيَتِيْمًا : اور یتیم وَّاَسِيْرًا : اور قیدی
اور وہ مسکین ‘ یتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے رہے ہیں۔ خود اس کے خاجتمندہوتے ہوئے ‘
غریبوں کی خدمت: یہ خلق کے ساتھ ان کے رویہ کا بیان ہے کہ وہ مسکینوں، یتیموں اور قیدیوں کی ضرورتیں، خود اپنی ضرورتیں نظرانداز کر کے پوری کرتے ہیں۔ لفظ ’اِطْعَامٌ‘ محدود معنی میں نہیں ہے۔ زندگی کی دوسری ناگزیر ضروریات کا اہتمام بھی اس میں شامل ہے۔ قرآن میں یہ لفظ وسیع معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ ’عَلٰی حُبِّہٖ‘ میں ضمیر کا مرجع: ’عَلٰی حُبِّہٖ‘ میں ضمیر کا مرجع عام طور پر لوگوں نے اللہ تعالیٰ کو مانا ہے۔ ان کے نزدیک مطلب یہ ہے کہ وہ مسکینوں اور یتیموں کو اللہ کی محبت میں کھلاتے پہناتے ہیں۔ اگرچہ قاعدہ زبان کی رو سے اس میں کوئی خرابی نہیں ہے لیکن شواہد قرآن کے پہلو سے میں ان لوگوں کے قول کو ترجیح دیتا ہوں جو اس کا مرجع ’طعام‘ کو قرار دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک مطلب یہ ہے کہ اگرچہ وہ خود ضرورت مند ہوتے ہیں لیکن وہ اپنی ضرورت پر مسکینوں اور یتیموں کی ضرورت کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس قول کو ترجیح دینے کے مختلف وجوہ ہیں: ایک وجہ یہ ہے کہ یہ ابرار کا کردار بیان ہو رہا ہے اور ’بر‘ یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ سچی وفاداری کا مقام حاصل کرنے کے لیے یہ بات ضروری قرار دی گئی ہے کہ آدمی اللہ کی راہ میں وہ چیز خرچ کرے جو اس کو خود عزیز ہو۔ خواہ اس وجہ سے عزیز ہو کہ وہ بذات خود قیمتی ہے یا اس وجہ سے کہ وہ اس کا ضرورت مند ہے۔ چنانچہ فرمایا ہے: ’لَن تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰی تُنفِقُوۡا مِمَّا تُحِبُّوۡنَ‘ (آل عمران ۳: ۹۲) (تم اللہ کی وفاداری کا درجہ نہیں حاصل کر سکتے جب تک تم ان چیزوں میں سے اللہ کی راہ میں نہ خرچ کرو جن کو تم محبوب رکھتے ہو)۔ یہی حقیقت دوسرے لفظوں میں یوں واضح فرمائی گئی ہے: ’وَیُؤْثِرُونَ عَلَی أَنفُسِہِمْ وَلَوْ کَانَ بِہِمْ خَصَاصَۃٌ‘ (الحشر ۵۹: ۹) (اور وہ اپنے اوپر غریبوں اور مسکینوں کو ترجیح دیتے ہیں اگرچہ وہ خود ضرورت مند ہوں)۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ ان ابرار کا صلہ آگے آیت ۱۲ میں بدیں الفاظ میں بیان ہوا ہے: ’وَجَزَاہُم بِمَا صَبَرُوۡا جَنَّۃً وَحَرِیْرًا‘ (اور ان کو اللہ نے ان کے صبر کے صلہ میں جنت اور حریر سے نوازا)۔ یہاں غور کیجیے تو معلوم ہو گا کہ ان کے صبر کے کردار کو واضح کرنے والی واحد چیز یہی ہے کہ وہ یتیموں اور مسکینوں کو خود ضرورت مند ہونے کے باوجود کھلاتے پہناتے رہے ہیں۔ اگر ’عَلٰٰی حُبِّہٖ‘ کی تاویل اس سے مختلف کر دی جائے تو یہاں ان کے صبر کے کردار کو واضح کرنے والی کوئی چیز نہیں رہ جاتی حالانکہ کلام اس کا مقتضی ہے۔ اس وضاحت نے ’عَلٰی حُبِّہٖ‘ کے ضمیر کا مرجع خود متعین کر دیا۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ جو انفاق عزیز و مطلوب مال میں سے، خود اپنی ضرورت کو قربان کر کے ہوتا ہے، درحقیقت وہی اللہ کی رضا جوئی کے لیے ہوتا ہے۔ اس پہلو سے خدا کی محبت کا مضمون خود اس کے اندر پیدا ہوتا ہے۔ اس آیت میں مسکین و یتیم کے ساتھ اسیر کا ذکر زمانۂ نزول کے حالات کے اعتبار سے ہوا ہے۔ اس زمانہ میں کسی جرم یا مطالبہ میں گرفتار قیدی عموماً اپنی مایحتاج لوگوں سے سوال کر کے پوری کرتے تھے۔ قاضی ابویوسفؒ کے بیان سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ عباسیوں کے زمانے تک یہی حال رہا ہے۔ اب جیل کے نظام میں بڑی تبدیلیاں ہو گئی ہیں اس وجہ سے اس انفاق کی وہ اہمیت باقی نہیں رہی لیکن اب بھی قیدیوں اور ان کے متعلقین کی امداد کی ایسی بہت سی صورتیں ہیں جن میں انفاق اسی حکم میں ہو گا۔
Top