Tafheem-ul-Quran - Al-Muminoon : 30
اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ وَّ اِنْ كُنَّا لَمُبْتَلِیْنَ
اِنَّ : بیشک فِيْ ذٰلِكَ : اس میں لَاٰيٰتٍ : البتہ نشانیاں وَّاِنْ كُنَّا : اور بیشک ہم ہیں لَمُبْتَلِيْنَ : آزمائش
اِس قصے میں بڑی نشانیاں ہیں ، 32 اور آزمائش تو ہم کر کے ہی رہتے ہیں۔ 33
سورة الْمُؤْمِنُوْن 32 یعنی عبرت آموز سبق ہیں جو یہ بتاتے ہیں کہ توحید کی دعوت دینے والے انبیاء حق پر تھے اور شرک پر اصرار کرنے والے کفار باطل پر، اور یہ کہ آج وہی صورت حال مکہ میں درپیش ہے جو کسی وقت حضرت نوح اور ان کی قوم کے درمیان تھی اور اس کا انجام بھی کچھ اس سے مختلف ہونے والا نہیں ہے، اور یہ کہ خدا کے فیصلے میں چاہے دیر کتنی ہی لگے مگر فیصلہ آخرکار ہو کر رہتا ہے اور وہ لازماً اہل حق کے حق میں اور اہل باطل کے خلاف ہوتا ہے۔ سورة الْمُؤْمِنُوْن 33 دوسرا ترجمہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ " آزمائش تو ہمیں کرنی ہی تھی "، یا " آزمائش تو ہمیں کرنی ہی ہے "۔ تینوں صورتوں میں مدعا اس حقیقت پر خبردار کرنا ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی قوم کو بھی اپنی زمین اور اس کی بیشمار چیزوں پر اقتدار عطا کر کے بس یونہی اس کے حال پر نہیں چھوڑ دیتا، بلکہ اس کی آزمائش کرتا ہے اور دیکھتا رہتا ہے کہ وہ اپنے اقتدار کو کس طرح استعمال کر رہی ہے۔ قوم نوح کے ساتھ جو کچھ ہوا اسی قانون کے مطابق ہوا، اور دوسری کوئی قوم بھی اللہ کی ایسی چہیتی نہیں ہے کہ وہ بس اسے خوان یغما پر ہاتھ مارنے کے لیے آزاد چھوڑ دے۔ اس معاملے سے ہر ایک کو لازماً سابقہ پیش آنا ہے۔
Top