Tafheem-ul-Quran - Al-Qasas : 9
وَ قَالَتِ امْرَاَتُ فِرْعَوْنَ قُرَّتُ عَیْنٍ لِّیْ وَ لَكَ١ؕ لَا تَقْتُلُوْهُ١ۖۗ عَسٰۤى اَنْ یَّنْفَعَنَاۤ اَوْ نَتَّخِذَهٗ وَلَدًا وَّ هُمْ لَا یَشْعُرُوْنَ
وَقَالَتِ : اور کہا امْرَاَتُ : بیوی فِرْعَوْنَ : فرعون قُرَّةُ : ٹھنڈک عَيْنٍ لِّيْ : میری آنکھوں کے لیے وَلَكَ : اور تیرے لیے لَا تَقْتُلُوْهُ : تو قتل نہ کر اسے عَسٰٓى : شاید اَنْ يَّنْفَعَنَآ : کہ نفع پہنچائے ہمیں اَوْ نَتَّخِذَهٗ : یا ہم بنالیں اسے وَلَدًا : بیٹا وَّهُمْ : اور وہ لَا يَشْعُرُوْنَ : (حقیقت حال) نہیں جانتے تھے
فرعون کی بیوی نے (اس سے)کہا”یہ میرے اور تیرے لیے آنکھوں کی ٹھنڈک ہے، اسے قتل نہ کرو، کیا عجب کہ یہ ہمارے لیے مفید ثابت ہو، یا ہم اسے بیٹا ہی بنا لیں۔“12 اور وہ (انجام سے)بے خبر تھے
سورة القصص 12 اس بیان سے جو صورت معاملہ صاف سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ تابوت یا ٹوکرا دریا میں بہتا ہوا جب اس مقام پر پہنچا جہاں فرعون کے محلات تھے، تو فرعون کے خدام نے اسے پکڑ لیا اور لے جاکر بادشاہ اور ملکہ کے سامنے پیش کردیا۔ ممکن ہے کہ بادشاہ اور ملکہ خود اس وقت دریا کے کنارے سیر میں مشغول ہوں اور ان کی نگاہ اس ٹوکرے پر پڑی ہو اور انہی کے حکم سے وہ نکالا گیا ہو۔ اس میں ایک بچہ پڑا ہوا دیکھ کر بآسانی یہ قیاس کیا جاسکتا تھا کہ یہ ضرور کسی اسرائیلی کا بچہ ہے، کیونکہ وہ ان محلوں کی طرف سے آرہا تھا جن میں بنی اسرائٰل رہتے تھے، اور انہی کے بیٹے اس زمانے میں قتل کیے جارہے تھے، اور انہی کے متعلق یہ توقع کی جاسکتی تھی کہ کسی نے بچے کو چھپا کر کچھ مدت تک پالا ہے اور پھر جب وہ زیادہ دیر چھپ نہ سکا تو اب اسے اس امید پر دریا میں ڈال دیا ہے کہ شاید اسی طرح اس کی جان بچ جائے اور کوئی اسے نکال کر پال لے۔ اسی بنا پر کچھ ضرورت سے زیادہ وفادار غلاموں نے عرض کیا کہ حضور اسے فورا قتل کرادیں، یہ بھی کوئی بچہ افعی ہی ہے، لیکن فرعون کی بیوی آخر عورت تھی اور بعید نہیں کہ بےاولاد ہو، پھر بچہ بھی بہت پیاری صورت کا تھا، جیسا کہ سورة طہ میں اللہ تعالیٰ خود حضرت موسیٰ کو بتاتا ہے کہ وَاَلْقَيْتُ عَلَيْكَ مَحَبَّةً مِّنِّيْ (میں نے اپنی طرف سے تیرے اوپر محبت ڈال دی تھی) یعنی تجھے ایسی موہنی صورت دی تھی کہ دیکھنے والوں کو بےاختیار تجھ پر پیار آجاتا تھا اس لیے اس عورت سے نہ رہا گیا اور اس نے کہا کہ اسے قتل نہ کرو بلکہ لے کر پال لو۔ یہ جب ہمارے ہاں پرورش پائے گا اور ہم اسے اپنا بیٹھا بنالیں گے تو اسے کیا خبر ہوگی کہ میں اسرائیلی ہوں۔ یہ اپنے آپ کو آل فرعون ہی کا ایک فرد سمجھے گا اور اس کی قابلیتیں بنی اسرائیل کے بجائے ہمارے کام آئیں گی۔ بائیبل اور تلمود کا بیان ہے کہ وہ عورت جس نے حضرت موسیٰ کو پالنے اور بیٹا بنانے کے لیے کہا تھا فرعون کی بیٹی تھی۔ لیکن قرآن صاف الفاظ میں اسے " امرأۃ فرعون " (فرعون کی بیوی) کہتا ہے اور ظاہر ہے کہ صدیوں بعد مرتب کی ہوئی زبانی روایات کے مقابلے میں براہ راست اللہ تعالیٰ کا بیان ہی قابل اعتماد ہے۔ کوئی وجہ نہیں کہ خواہ مخواہ اسرائیلی روایات سے مطابقت پیدا کرنے کی خاطر عربی محاورہ و استعمال کے خلاف امرأۃ فرعون کے معنی " فرعون کے خاندان کی عورت " کیے جائیں۔
Top